1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. کون کرے گا فیصلے؟

کون کرے گا فیصلے؟

کچھ عرصہ قبل پاکستان میں لوڈر رکشے بننا شروع ہوے۔ ایک سو پچاس سی سی اور دو سو سی سی انجن کی طاقت والے ان رکشوں کی قیمتیں دو سے ڈھائی لاکھ کے درمیان ہیں۔ ان کم قیمت رکشوں پر پک اپ کے برابر وزن لادا اور لے جایا جا سکتا ہے جس کی قیمت دس لاکھ سے زائد ہے۔ تھوڑا سا محنتی آدمی با آسانی روزانہ دوہزار روپے تک کما لیتا ہے۔

رکشہ کا حصول بھی زیادہ دقت طلب نہیں محض ساٹھ ستر ہزار روپے ایڈوانس دیکر لوگ رکشہ حاصل کرلیتے ہیں اور سال بھر میں کماکر اقساط بھی ادا کردیتے ہیں اور مناسب گذراوقات بھی چلتی رہتی ہے۔ کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر اس رکشہ کا محکمہ ایکسائز میں اندراج نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے نمبر پلیٹ لگتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ پچھلے چار پانچ سال میں فی الحقیقت لاکھوں رکشے سڑکوں پر آچکے ہیں۔ نمبر پلیٹ نہ ہونے کی وجہ سے پولیس چالان بھی نہیں کرپاتی اور چوری ہونے پر تلاش میں بھی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ حکومت رجسٹریشن کی مد میں کروڑوں روپے کی ممکنہ وصولی سے بھی محروم ہے۔ رکشہ بنانے اور بیچنے والے احباب سے اس عدم اندراج کی بابت جاننے کی کوشش کی مگر کوئی مصدقہ بات معلوم نہ ہوسکی۔ کچھ کا خیال تھا کہ کسی قسم کا کوئی عدالتی سٹے ہے۔ نہیں معلوم کیوں ایسا فیصلہ نہیں ہورہا جس سے کروڑوں روپے کا فائدہ ہوسکتا ہے۔

پیکو پاکستان انجینئرنگ کمپنی پاکستان کا بہت بڑا اور مثالی ادارہ تھا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں یہاں بننے والی مشینیں چین اور یورپی ممالک کو برآمد کی جاتی تھیں۔ آج اسکے کھنڈرات ہماری نااہلیوں کی داستان سنارہے ہیں۔ مگر حیرت یہ ہوتی ہے کہ چلو ماضی میں غلطیاں ہوئیں، اس کا خمیازہ بھی بھگتا، اب کم از کم وسط شہر ایکڑوں پر محیط اس کی جگہ ہی استعمال کرلیں۔ اور کچھ نہیں تو ایک سمال انڈسٹریل اسٹیٹ بنا کر بیچ دیں۔ ریونیو بھی آئے گا صنعتی سرگرمیوں کو بھی فروغ ہوگا۔ مگر نہیں معلوم کیوں ایسا فیصلہ نہیں ہورہا جس سے کروڑوں کا فائدہ ہوسکتا ہے۔

کافی عرصہ سے مختلف حلقوں کی طرف سے تجویز آرہی تھی کہ موٹرویز کے ساتھ پھلدار درخت لگادیے جائیں۔ اربوں روپے کا سالانہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہمارے محترم بھائی طارق تنویرکی قیادت میں ایک وفد ہائی ویز کے اعلیٰ حکام سے ملا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بطور محکمہ ایسا کوئی کام نہیں کرسکتے جس سے کمائی ہو۔ ریلوے کی ہزاروں ایکڑ اراضی ہے جن پر ایسی ہی مفید کاشتکاری کی جاسکتی ہے۔۔ مگر محکمہ جات کے فالتو وسائل بشمول اراضی سے فائدہ اٹھانے کا شاید کوئی نظام نہیں۔ نظام جانے کب کون بنائے گا۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایک عرصے سے وائس چانسلر کی تعیناتی نہیں ہوسکی۔ جس کی بابت معلوم ہوا کہ دو برادریوں کی برتری کا جھگڑا ہے۔ درجنوں پروفیسرز کی ترقیاں رکی ہیں۔ بیسیوں فیصلے التو کا شکار ہیں۔۔ کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ آپ کے گرد ایسی بیسیوں مثالیں بکھری ہوں گی۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ ایڈہاک چل رہا ہے۔ شاید نظام بنانے والےفیصلہ سازان قوت فیصلہ سے عاری ہیں، یا پھر غلط فیصلوں کے نتائج سے خائف۔۔ وجہ کچھ بھی ہو یہ تو طے ہے کہ ہم قومی مفادات کے فیصلے نہیں کرتے۔۔ !