1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. میدے کے موتی

میدے کے موتی

بچپن میں بیمار ہونے کا بڑا شوق ہوتا تھا۔ شاید اس کے پیچھے کہیں سکول سے چھٹی کا عنصر بھی رہا ہو، مگر بنیادی وجہ بیماری کی صورت میں ملنے والی ممتا کی اضافی مقدار اور ساگو دانہ کی کھیر تھی۔ ساگو دانہ کی کھیر ہمیں بہت مزے کی لگتی تھی مگر ملتی صرف بیمار ہونے پر تھی۔ شاید اس وقت بزرگان کا خیال ہوگا کہ یہ بخار وغیرہ کے لئے مفید ہے۔

وجہ جو بھی رہی ہو ساگو دانہ بہرحال ہمیں درآمد ہی کرنا پڑتا ہے۔ درآمدات کے متعلق معلومات کی ایک ویب سائٹ پر مہیا اعدادوشمار کے مطابق صرف اگست 2021 میں پچاسی ٹن ساگو دانہ درآمد کیاگیا ہے۔ اگرانہی اعدادوشمار کو مکمل مان لیا جائے تو بھی ساگو دانہ کی ہماری سالانہ درآمد ایک ہزار ٹن سے زائد ہے۔ جس کی مالیت لگ بھگ پچاس کروڑ ہوگی۔

ساگودانہ بنیادی طور پر جنوب مشرقی ایشیا اور افریقی ممالک میں پائے جانے والے ایک درخت ساگو پام کے تنے میں موجود میدے سے بنایا جاتا ہے۔ اسے بنانے کیلئے تنے کو کاٹ کر پانی میں ڈالا جاتا ہے۔ جس سے کھوکھلی لکڑی کے اندر موجود میدہ پانی میں حل ہوجاتا یے۔ جہاں سے اسے علیحدہ کرکے اس کے چھوٹے چھوٹے موتی بنا لیے جاتے ہیں۔ ساگو پام کے اگنے کی رفتار سست ہے اس وجہ سے اس سے حاصل کیا گیا ساگو دانہ کم ہوتا ہے جو بہت مہنگا پڑتا ہے۔

اس سست روی کا حل بھی بنی نوع انسان نے ایک متبادل پودے کی صورت میں ڈھونڈ نکالا۔ ایک چھوٹا جھاڑی نما پودا جسے کساوا کہتے ہیں، کی جڑیں بالکل شکرقندی کی شکل کی ہوتی ہیں، مگر ان میں موجود میدہ بالکل ساگو میدہ کی طرح ہی ہوتا ہے، اس پودے کو عام خریف کی فصل کی صورت اگایا جاسکتا ہے۔

کساوا کی شکر قندی کی شکل کی جڑوں کو صاف کرکے چھیل کر، ایک مشین میں پانی کے ساتھ پیستے ہیں تو بالکل دودھ کی شکل کا محلول بن جاتا ہے۔ اس محلول کو ایک چھان کر فائبر الگ کرلیا جاتا ہے جو جانوروں کی خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ میدے کے محلول بڑے حوض میں جمع کرتے جاتے ہیں۔ اس حوض میں میدہ آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتا رہتا ہے جسے ساتھ ساتھ باہر نکالتے جاتے ہیں۔

حوض سے باہر نکالے گئے اس میدے کو خشک کرنے کے بعد لوہے کے بنے رولز میں سے گزارتے ہیں جس سے یہ چھوٹی چھوٹی گولیوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ان گولیوں کو لوہے کے ایسے بڑے بڑے تووں پر ڈال کر مزید خشک کرتے ہیں جن کے نیچے آگ جل رہی ہوتی ہے۔ اب یہ مضبوط ساگودانہ کی گولیاں بن چکی ہیں۔ ان گولیوں کو دھوپ میں ڈال کر مزید خشک کیا جاتا ہے۔ پھر بڑے بڑے گھومتے ہوئے ڈرموں میں ڈال کر پالش کرتے ہیں۔ اب یہ پیکنگ کے لیے دستیاب ہے۔

کساوا جڑ میں پچیس سے تیس فیصد میدہ ہوتا ہے جس سے ساگودانہ بنتا ہے۔ ایک ایکڑ سے موسم اور دیکھ بھال کے حساب سے سو سے دو سومن تک جڑیں حاصل ہوتی ہیں۔ جن سے بارہ سو کلو سے پچیس سو کلو تک ساگودانہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر آلو یا شکر قندی کے حساب سے قیمت لگائیں تو فی ایکڑ پیداوار روایتی فصلوں سے دوگنا زیادہ ہوگی۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ بالواسطہ اور بلا واسطہ کساوا سے ساگودانہ بنانے کے کارخانوں سے برسرِ روزگار ہوں گے۔ اور سب سے بڑھ کریہ کہ بہت سا زرمبادلہ بچے گا۔

زراعت سے متعلقہ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں کساوا کامیابی سے اگایا جاسکتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ اپنے دائرے سے باہر دیکھنا غور کرنا اور سیکھنا چاہیے۔ معاشرے کے بہت سے لوگ جب تک نئے کام اور تخیلات پر کام نہیں کریں گے نئے کاروبار نہیں اپنائیں گے، ہم بحیثیت معاشرہ خوشحالی کو ترستے رہیں گے۔