1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. مکئی سے لباس

مکئی سے لباس

جیسا کہ ہم خوب آشنا ہیں لباس کے لیے قدرتی دھاگہ کپاس سے دستیاب ہوتا ہے۔ ابتدائے حیات سے انسانی لباس کی ساری ضروریات کپاس سے ہی پورا ہوتی رہیں مگر جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا گیا دنیا بھر کی ساری کپاس بھی انسانوں کے لباس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ناکافی ہوتی جارہی تھی۔ پھر انسانوں نے مختلف کیمیکلز سے مصنوعی دھاگہ بنانا سیکھ لیا۔ کبھی پولی ایسٹر، سے تو کبھی نائلون سے، کبھی ایکلیرلک سے تو کبھی اولیفین وغیرہ سے۔

سال انیس سو اکتیس سے شروع ہونے والا یہ مصنوعی دھاگوں کاسفر اب اس نہج پر ہے کہ دنیا کی کل ضروریات کا صرف انتیس فیصد کپاس سے پورا ہوتا ہے جبکہ باقی ستر فیصد کیمیائی دھاگوں سے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیمیائی دھاگے تن ڈھانپنے کی ضروریات توبطریق احسن پوری کرتے ہیں مگر بائیوڈیگریڈایبل نہ ہونے کی وجہ سے متروک ہونے کے بعد ہزاروں سال بغیر گلے سڑے زمین پر آلودگی کا سبب بنے رہیں گے۔

دوسری طرف بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ ہے کہ ہم زیادہ رقبہ پر اناج پیدا کریں نہ کہ کپاس۔ ایسے میں کسی ایسی فصل کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ جس میں دھاگہ اور اناج ایک ساتھ پیدا ہو۔ تاکہ غذا اور لباس کی ضروریات دونوں بیک وقت پوری ہوں۔ نبراسکا یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر ای چی یینگ کے مطابق یہ فصل مکئی کی فصل ہے۔ مکئی کے کھیت سے جہاں کل بائیوماس کا دس فیصد مکئ کے دانے حاصل ہوتے ہیں وہیں چودہ فیصد سٹوں کے چھلکے ملتے ہیں۔

ان مکئی کے سٹوں کے چھلکوں میں عمدہ کوالٹی کا قدرتی دھاگہ یا فائبرموجود ہوتا ہے۔ اگر دھاگے کی مقدار چھلکوں کا دس فیصد بھی ہو تو بھی مالی اعتبار سے مکئی سے دھاگہ نکالنا خود مکئی نکالنے سے بھی زیادہ منافع بخش عمل ہے۔ ای چی یینگ نے مکئی سے چھلکوں سے حاصل کردہ دھاگے سے زبردست دیدہ زیب لباس تیار کروائے ہیں۔ اس دھاگے کو کپاس اور دوسرے مصنوعی دھاگوں کے ساتھ مکس کرکے بھی استعمال کیا ہے۔ ہر طریقے سے اس کے نتائج بہترین رہے ہیں۔

اب اس کام کو صنعتی سطح پر کیاجانا تھا۔ لیکن وہاں وقتی طور پر ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ ہوا یہ کہ امریکہ میں چونکہ سارے کا سارا زراعت کا نظام خودکار مشینری کی مدد سے چلایا جاتا ہے تو دستیاب ہارویسٹرز میں یہ سہولت نہیں تھی کہ وہ مکئی کی فصل کی کٹائی کے دوران مکئی کے سٹے کے چھلکے بھی دانوں کے ساتھ علیحدہ کردیتے۔ لہذا اب نئے سرے ہارویسٹر ڈیزائن کرکے بنائے جارہے ہیں۔ تجرباتی ہارویسٹر جو فصل کی کٹائی کے دوران دانے اور چھلکے الگ کرتا ہے کا کامیاب تجربہ ہوچکا ہے۔ اب بڑے پیمانے پر یہ ہارویسٹر بنائے جارہے ہیں۔ کوئی دن جاتے ہیں کہ امریکہ میں کپاس کے ساتھ ساتھ مکئ سے دھاگہ بنانے کی فیکٹریاں بھی کام کررہی ہوں گی۔

بھارت کی کئی یونیورسٹیوں میں بھی مکئی سے دھاگے حاصل کرکے لباس تیار کرنے کے کامیاب تجربات کیے جا چکے ہیں۔ وہاں بھی آنے والے چند سالوں میں یہ کام گھریلو صنعت کے طور پر ہورہا ہوگا۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں ابھی ہمارا نظام زراعت مکمل طور پر مشینری پر منحصر نہیں۔ بلکہ مکئی تو شاید ساری کی ساری ہاتھوں سے ہی کاٹی جاتی۔ ہمارے لیے مکئی کے سٹے توڑ کر اس پر سے چھلکا اتارنا اور اسے علیحدہ سے اکٹھا کرنا نہایت آسان ہے۔ ان چھلکوں سے دھاگہ بنانے کا عمل بھی بہت ہی آسان ہے۔ چھلکوں کو خشک کرکے چار فیصد کاسٹک سوڈے کے محلول میں ایک گھنٹہ تک سو ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کرنے سے مکئی کے دھاگے دوسری آلائشوں سے علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ ان دھاگوں کی کپڑے خشک کرنے والی مشین میں خشک کرکے دھاگہ بنانے والی کمپنیوں کو بیچا جاسکتا ہے۔ گھریلو سطح پر یہ کام ایک ہزار روپے سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے ایک لوہے کا ٹب اور ایک چولہا درکار ہے۔

اس سلسلہ میں میری ٹیکسٹائل اور زرعی یونیورسٹی کے اساتذہ سے گذارش ہے طلبا کو یہ پراجیکٹ دیں، تاکہ وہ اس عمل کی آپٹیمائزیشن کرکے خود بھی اس کی گھریلو صنعتیں لگائیں اور گاؤں کے لوگوں کو بھی سکھا ئیں۔ تاکہ لاکھوں ٹن مفت کا دستیاب خام مال لوگوں کی خوشحالی کے کام آسکے۔