1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. موقع

موقع

لاہور کی بہترین جامعہ سے کمپیوٹر سائنسز میں گریجویشن اور پاکستان کی سب سے بڑی اور قدیم انجینئرنگ یونیورسٹی سے علم ریاضی کی سب سے جدید اور انتہائی مطلوب شاخ میں ایم ایس سی کرنے بعد پاکستان کے نامی گرامی سافٹویئر ہاؤس میں ٹیم لیڈر کی نوکری کرتے ہوئے انہیں لگا کہ شاید ان کے ہنر کو درست استعمال نہیں کیا جارہا۔۔ جیسا کہ تعلیم اور نوکری سے ظاہر ہے یہ کہانی کسی ہونہار پاکستانی سپوت کی ہے۔

تھوڑی سی کاوش کے بعد انہیں جرمنی کے ایک معروف ادارے میں معقول مشاہرہ پر نہ صرف نوکری کی پیشکش ہو گئی بلکہ عین کرونا کے عروج کے دنوں میں انہیں ویزہ اور دیگر معمولات سے گذارتے ہوئے جرمنی بھی بلالیا گیا۔

وہاں قیام کے لئے انہیں کسی طور وہاں کےعدالتی مخطوطات کی ضرورت پڑی۔ کہتے ہیں کہ میں اپنے تئیں سارے ضروری کاغذات لیکر عدالت چلا گیا۔ وہاں ایک تو یہ بات حیران کن رہی کہ کچہری میں بہت ہی کم لوگ تھے۔ گویا ہماری طرح لاکھوں لوگ روزانہ انصاف کے حصول کے لیے خوار نہیں ہورہے۔

دوسری حیران کن بات یہ ہوئی کہ وہاں موجود ایک خاتون کلرک کو اپنا تعارف کروایا اور مسئلہ بیان کیا تو اس نے ایک کرسی منگوالی۔ اور بیٹھنے کا کہا۔ پھر اس نے مختلف کاغذات مانگے۔ جو میں نے فراہم کردیے۔ ایک ایسا کاغذ بھی اسے اس عدالتی حکم کے جاری کرنے کے لیے درکار تھا جو میرے پاس نہیں تھا۔ میں اب پریشان تھا کہ اس کاغذ کے بنا مجھے عدالتی حکم نامہ کیسے ملے گا، اور اس کاغذ کے حصول کے لیے دیار اجنبی میں جانے کتنے پاپڑبیلنا ہوں گے،میرے سوال کرنے سے پیشتر ہی اس نے مجھے اشارہ کیا اور کچھ دیر کمپیوٹر پر کام کرنے کے بعد ایک فارم پرنٹ کیا اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی اسے مکمل کردیں۔

جتنی دیر میں میں نے فارم مکمل کیا اس نے ایک لفافہ پر کوئی ایڈریس لکھ رکھا تھا۔ اور دوسرے لفافہ میں مجھے درکار عدالتی حکم نامہ تھا۔ ایڈریس والا لفافہ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولی یہ فارم اس میں ڈال کر واپس جاتے ہوئے کسی بھی لیٹر بکس میں ڈال دینا۔۔ تمہارا غیر موجود کاغذ خود بخود ہمارے پاس پہنچ جائے گا۔ اور یہ رہا تمہارا مطلوبہ عدالتی حکم نامہ اور ساتھ ہی کہنے لگی۔ جانتے ہو کہ میں نے تمہاری یہ غیر ضروری مدد کیوں کی؟

کہتے ہیں میں تو پہلے ہی محو حیرت تھا کہ میرا کام اس قدر آرام اور آسانی سے ہوگیا کہ میں اپنے ہاں عدالتی معاملات سے کچھ آگاہ تھا، تعجب سے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ نہیں جانتا۔۔ بولی اس لیے کہ تم انجینئر ہو اور تمہارا ایک ایک منٹ ہمارے ملک کے لیے بہت قیمتی ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ تم اپنے اس قدر اہم کام سے چھٹی لیکر عدالتی کاغذات بنوانے جیسا غیر ترقیاتی کام کرتے رہو۔۔ دوست کہتا ہے ایسا سننا تھا کہ میں اس قدر جذباتی ہوا کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ حیران ہوکر بولی۔۔ کیا میں نے تمہیں دکھ پہنچایا؟ اب میں اسے کیا جواب دیتا کہ یہ آنسو تو اپنے ہموطنوں کے لیے بہائے ہیں جن کے لیے ہر سائل اور ہر مسئلہ بس موقع ہوتا ہے رشوت کے حصول کا موقع!

جی ہم نے عرض کیا آپ درست کہتے ہیں قومیں ترقی ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آنے سے، دست وبازو بننے سے رکاوٹیں کھڑی کرنے سے سپیڈ بریکر بننے سے قومی ترقی نہیں کرتیں تباہ ہوتی ہیں۔