1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. مہنگائی کا مقابلہ، مگرکیسے

مہنگائی کا مقابلہ، مگرکیسے

مہنگائی ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔ اور اس کا اسراع کم ہونے بھی نہیں آرہا۔ ایسے حالات میں زندگی بنا دباؤ گذارنے کےلیے ہمیں پہلے سے زیادہ ذہانت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ متفرق خیالات ہیں، جو پیش خدمت کرنا ہیں۔

یہ ہرگز ضروری نہیں کہ صرف گھر کے سربراہ نے ہی کمانا ہے۔ خاتون خانہ گھر کے کاموں سے ذہانت کے ساتھ کچھ وقت نکال کر کوئی ایسا کام ساتھ کریں۔ جس سے کچھ آمدن ہو بچے اگر آٹھویں جماعت یا اس سے زائد ہیں، تو ان کی راہنمائی کریں کہ وہ آپ کے ذریعہ آمدن میں آپ کا ہاتھ بٹائیں یا پھر خود سے کوئی ایسا کام پڑھائی کے ساتھ کریں۔ جس سے ان کو کم از اتنی آمدن تو ہو کہ اپنا خرچ اٹھائیں۔

سب سے پہلے ذہن میں ایک بات بٹھا لیں کہ کسی بھی طرح سے اخلاقیات کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی کمائی بڑھانا کسی طور بھی قابل اعتراض حرکت نہیں براہ کرم بطور معاشرہ اس کا اہتمام کریں کہ کوئی بھی شخص جس بھی راست ذریعہ سے کمائی کررہا ہے۔ وہ قابل تحسین ہے نہ کہ باعث شرمندگی۔ بلکہ جو بہن بھائی بچہ نہیں کمارہا اس پر شرمندگی ہونا چاہیے۔

میرا ایک انتہائی قریبی عزیز، جو کہ انتہائی قابل نوجوان ہے۔ لاہور کے مشہور ترین معاشی تعلیم کے ادارے سے ماسٹرز کرنے کے دوران شام اوبر پر کچھ وقت گاڑی چلاکر اپنے اخراجات پورے کرتا رہا۔ اب الحمد اللہ بڑے ادارے میں اچھی آسامی پر ہے۔ ہم نے ہمیشہ اس کے اس امر پر فخر کیا ہے۔

لہٰذا سب لوگ بلا تفریق جنس وعمر اپنی استعداد کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور کمائیں۔ آمدن کے انگنت کام ہم بارہا زیر بحث لاتے رہتے ہیں۔ سب سے آسان کھانے سے متعلق ہیں۔ بہت سی ہماری بہنیں گھروں میں کھانے، بسکٹ، کیک، شکواش، اچار سرکہ وغیرہ بنا کر آن لائن بیچتی ہیں۔ یقینی طور ان کی بنائی گئی اشیاء سے جو آمدن ہوتی ہے، وہ گھر کے سربراہ کی آمدن کے ساتھ جمع ہو کر سہولت کا باعث بنتی ہے۔

آج کل بچے سماجی ذرائع ابلاغ کا استعمال ہم سے بہتر کرتے ہیں۔ گھر میں خاتون خانہ اگر کچھ محنت کر کے کسی ایک چیز بنانے یا پکانے میں مہارت حاصل کر لیں اور کوئی بچہ فوڈ پانڈا، دراز یا کسی اور اپلیکیشن پر اکاؤنٹ بنالے یا فیس بک، انسٹاگرام پیج سے ہی تشہیر کر کے کچھ فروخت کا اہتمام کر لیں تو مناسب آمدن ہو سکتی ہے۔

کپڑے، سافٹ ٹوائز، ڈرائیڈ فروٹ، پلاسٹک کی چھوٹی اشیاء، ڈیکوریشن کا سامان، پینٹنگز، سرامکس کے گلدان اور گملے، بچوں کے کپڑوں پر لگنے والے اسٹیکرز، ریزن کی جیولری اور دیگر اشیاء، آرٹیفیشل جیولری، پلاسٹر آو پیرس کے مجسمے، بچوں کے کھلونے، لکڑی کی چھوٹی اشیاء جیسے جیولری بکس اور ٹشو پیپر بکس، سٹیشنری کی کئی اشیاء جیسے انک پیڈز، پنسل باکس، پینسل پاؤچ، ربر اورشارپنرز اور اس طرح کی ان گنت اشیاء گھر میں بنا کر مناسب کمائی کی جا سکتی ہے۔

آپ نے بس اپنی طبیعت اور حالات کے مطابق کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے، اور اس کے متعلق ہر طرح کا علم حاصل کرنا ہے۔ پھر اللہ کا نام لیکر چھوٹے پیمانے سے شروع کیجئے آہستہ آہستہ آپ کی زندگی میں آسودگی اور خوشحالی آنا شروع ہو جائے گی۔ بس مستقل مزاجی اور محنت شرط ہے۔ اگر آپ کو شروع میں بہت کمائی نہیں بھی ہو رہی تو مایوس ہونے کی بجائے سوچیں کہ کچھ عرصہ پہلے تو آپ کچھ بھی نہیں کر رہے۔ اب کم از کم سفر تو شروع ہے۔

چاہے رفتار آہستہ ہے۔ آمدنی کی کوشش کے ساتھ کچھ دانشمندانہ منصوبہ بندی سے بچت بھی کریں۔ خاص طور پر ذرائع آمدورفت کا غیر ضروری استعمال بالکل ختم کر دیں۔ اگر کسی ایک محلے سے دو لوگ ایک ہی دفتر یا قریب قریب جاتے ہیں مل کر جائیں۔ آپ کی گلی یا محلے سے کوئی بچہ آپ کے بچے کے سکول جاتا ہے اس کو بھی ساتھ لے جائیں۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے مجموعی اثرات بہت بڑے ہوں گے۔

بازار جانے سے پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں اشیاء ضرورت کی فہرست مرتب کریں تاکہ بار بار نہ جانا پڑے، لسٹ سے ہٹ کہ کوئی جتنی بھی دل کو لبھانے والی چیز دکھے مت خریدیں۔ گھی اور تیل اور چینی کا استعمال جہاں تک ہو سکے کم سے کم کریں۔ اس سے جیب اور صحت دونوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

فالتو بتیاں، پنکھے بند کرنے عادت بنائیں، پانی کا نل اور گیس کا چولہا ہرگز چلتا مت چھوڑیں۔ ترکاری یا سالن مناسب مقدار میں بنائیں تاکہ کھانا ضائع نہ ہو۔ جہاں تک ممکن ہو اپنی سبزیاں خود اگائیں۔ چائے کا استعمال کم سے کم کریں قہوہ بھی گملوں اگایا جا سکتا ہے۔ جسے چائے کے متبادل کے طور پر رواج دیں۔

اللہ کریم نے انسانوں میں ایسی صلاحیت رکھی ہیں۔ وہ مشکل حالات میں عام حالات کی نسبتاً زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ ہمیں بحیثیت معاشرہ اور بحیثیت فرد مشکل حالات کا سامنا ہے۔ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ انشاءاللہ بالآخر آسانی ہو گی۔