1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. نقلی اصلی

نقلی اصلی

انسولین سے تو اب تقریباً سبھی شناسا ہیں۔ انسانی لبلبہ میں تشکیل پانے والا ایک ہارمون جو خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے، خلیوں میں شکر کی شکست و ریخت کا اور نتیجتاً اس سے حاصل کی جانے والی توانائی جو ہماری حیات کی ضامن ہے کا مؤجب ہے۔ انسولین کی انسانی زندگی میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بغیر کسی بھی انسان کے لیے چند روز سے زیادہ زندہ رہنا ممکن نہیں۔

ذیابیطس کے مریضوں میں قدرتی طور انسولین بننا کم یا ختم ہو جاتا ہے تو انہیں پھر بیرونی طور پر انسولین لینا پڑتی ہے۔ پہلے پہل یہ جانوروں کے لبلبہ سے نکال کر انسانوں کو لگائی جاتی رہی۔ لیکن اس میں کئی مسائل تھے۔ پھر سال انیس سو اٹھہتر میں پہلی بار ایک بیکٹیریا ای کولائی E Coli میں انسانی انسولین کے ڈی این اے کی پیوندکاری کی گئی۔ جس سے بالکل انسانی انسولین جیسی انسولین حاصل ہونا شروع ہوگئی۔

بعد میں سائنسدانوں نے ای کولائی کی جگہ عام ییسٹ yeast جو ہم گھروں میں آٹے کو خمیر کرنے کے لیے، اور گورے انگوروں سے الکحل بنانے کے استعمال کرتے ہیں، میں انسانی انسولین کے ڈی این اے کی پیوندکاری کی۔ یاد رہے کہ یہ ییسٹ بنیادی طور پر ایک پھپھوندی (Fungi) جس کا نام (saccharomyces cerevisiae) سیکرومائسز سروی سی آئی ہے۔

اس پیوندکاری شدہ ییسٹ جس کو recombinant yeast ری کومبیننٹ ییسٹ کہا جاتا ہے، کو جب فرمینٹر ٹینکس میں ڈال کر خوراک اور مناسب ماحول دیا جاتا ہے تو یہ خوب بڑھتا ہے۔ اس کے بعد اس کو فلٹر کر کے اس میں سے انسولین کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ اس انسولین کو ری کومبیننٹ انسولین کہا جاتا ہے۔ اسے بعد ازاں مزید مصفی کر کے گلیسرین پانی اور دیگر اجزا کے ساتھ محلول بنا کر قابل استعمال بنا دیا جاتا ہے۔

انسولین بنانے کے لیے ری کومبیننٹ ییسٹ کا استعمال سال انیس سو اسی سے جاری ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ پچاس ہزار ٹن سے زائد ری کومبیننٹ انسولین بنائی جاتی ہے۔ اس کی لاگت اوسطاً دس ڈالر فی کلوگرام پڑتی ہے اور اوسطاً تین سو ڈالر فی کلوگرام فروخت ہوتی ہے۔ یہ ری کومبیننٹ کا آغاز تھا۔ اس کے بعد اسی نظام کے تحت دیگر ہارمونز اور خاص طور بہت سی ویکسین بنانے کے کامیاب تجربات کیے گئے۔ سب سے کارآمد ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین بھی اسی ری کومبیننٹ ییسٹ کے ذریعے سے بنائی جاتی ہے۔

حال ہی میں سائنس دانوں نے اسی ییسٹ سیکرومائسز سروی سی آئی کے ساتھ ایک اور تجربہ کیا ہے۔ اب کی بار انہوں نے اس میں شہد کی مکھی کا شہد بنانے والے حصہ کے ڈی این اے کی پیوندکاری کی ہے۔ سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ اس ری کومبیننٹ ییسٹ نے فرمینٹر میں بنا شہد کی مکھی کے بالکل اسی طریقے سے سو فیصد خالص اور تمام غذائی اجزاء سے لبریز شہد بنا دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ شہد کسی بھی قسم کے رنگ، پولن، اور مکھیوں کی آلائشوں سے پاک ہے سو فیصد خالص ہے۔

ہالینڈ کی ایک کمپنی نے بڑے پیمانے پر اس کی تجرباتی پیداوار شروع کر دی ہے۔ بہت جلد مارکیٹ میں یہ "نقلی اصلی" شہد دستیاب ہوگا۔ یہ تو آغاز ہے آنے والے وقتوں میں دیکھیں اس نقلی اصلی سے دنیا کا حلیہ کیا بنتا ہے؟