1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. نسخہ کیمیا

نسخہ کیمیا

سڑک پر جاتے ہوئے کیچڑ میں کسی کا پاوں پھسلا، ارد گرد کھڑے لوگوں میں سے بیشتر ہنسنے لگے۔ یقیناً انہوں نے حظ اٹھایا۔ دفتر میں کسی سے دانستہ نادانستہ غلطی ہوگئی۔ ایسی بھد اڑائی گئی کہ اللہ کی پناہ۔ جانے کتنی بار اس صاحب یا صاحبہ نے تنہائی میں آنسوؤں کا ہرجانہ بھرا۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر آئے روز کسی نہ کسی کی پگڑی اچھالی جارہی ہوتی ہے سوائے اس مجبور کے سب مزے لے رہے ہوتے ہیں۔

ایک جامعہ میں ایک مشین منگوائی گئی۔ مشین کیا تھی ایک پوری ٹیکنالوجی تھی۔۔ انتہائی اہمیت کی حامل ٹیکنالوجی، جس کے استعمال کو عام کرنے سے سینکڑوں لوگوں کے لیے روزگار اور ملک کے لیے لاکھوں ڈالر کے زر مبالہ کا انتظام ہوسکتا تھا۔ مشین تجارتی بنیادوں پر چلائی گئی۔ متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے پاس کافی سرمایہ جمع ہوگیا۔ انہوں نے افسران بالا سے اجازت چاہی کہ ہم اپنے ڈیپارٹمنٹ میں مزید ترقیاتی کام کرنا چاہتے ہیں، پوچھا گیا، سرمایہ کہاں سے آئے گا، بتایا گیا کہ نئی مشین سے کمایا گیا ہے۔

بجائے اس کے کہ ستائش کی جاتی، اور لوگوں کو بھی اس نہج پر چلنے کی تلقین کی جاتی، اور جامعہ میں اگر اس طرح سے آمدنی اور استعمال کا کوئی نظام نہیں تھا تو حکمت سے وضع کیا جاتا، گنگا الٹی بہائی گئی۔ روایتی حسد کا الاو بھڑکا، تماش بینی طبیعتوں نے جوش مارا۔۔ ایک غلغلہ سا مچ گیا۔ انکوائری بٹھائی گئی، افواہوں کے بازار گرم ہوئے، نوبت ہتھکڑی تک جاپہنچی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ بیس سال ہوتے ہیں مشین کباڑ کا ڈھیر ہے اورملک فی الحقیقت اربوں روپے کے فوائد سے محروم ہے۔ نیز دیگر کام کرنے کے شوقین حضرات کو بھی سبق حاصل ہوگیا کہ اس نظام میں صرف وقت گذاری اور رنگ بازی کی جاسکتی حقیقی کام نہیں۔

ایک بہت بڑے ادارے کے ایک بڑے مجاز افسر نے تقریباً روہانسا ہوتے ہوئے بتایا کہ اپنے ادارے میں پھل دار درخت نہیں لگا سکتا۔ کہ ایک بار لگوائے تھے لوگوں نے ایسی باتیں بنائیں کہ صاحب پھل بیچ کر کھا گیا۔ اپنے عزیز داروں میں بانٹ دیتا ہے وغیرہ۔ کہتے ہیں عزت بچانے کے لیے پھل دار درخت کٹوا کر کیکر اور پاپولر لگوادیے ہیں۔

تقریباً سب محکموں میں کام التوا کا شکار رہتے ہیں، اچھی نیت والے اچھے چلن والے افسران بھی فیصلہ نہیں کرتے کہ تقاضہ بشری سے ذرا سی چوک ہوگئی تو لوگوں نے جینا حرام کردینا ہے۔

غور فرمائیں کہ یہ کیسے رویے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ہم انسان ہیں اشرف المخلوقات، مسلمان ہیں، اشرف الامم، یا جنگل کے باسی وحوش کہ جن کی تسکین قلب وروح کا سامان محض ہم نفسوں کی عزت کے کھلواڑ میں ہے۔ جن کا مزاح کسی کی بے بسی ہے۔ جن کا شوق تسکین صرف تماشا ہے۔ بخدا یہ کسی طور بھی آدمیت نہیں، یہ ہرگز اجتماعی ترقی کا جادہ نہیں۔

رکیں، ٹھہریں، آئیں اپنے رویوں پر نگاہ ڈالتے ہیں، آئیں ان کا احتساب کرتے ہیں۔ آئیں انسانوں کو عزت دینے کا عزم کریں۔ کیونکہ اگر ہم ارد گرد لوگوں کی توقیر کریں گے تو بالیقین ہماری اپنی عزت میں اضافہ ہوگا۔ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں گے تو ساری دُنیا ہمارا احترام کرے گی۔

کسی کی پگڑی پر قدم جما کر اپنا قد اونچا نہیں کیا جاسکتا۔ کسی کا ٹھٹھہ اڑا کر معزز نہیں ہوا جاسکتا۔ عزت دار ہونا ہے تو عزت دینا ہوگی۔ ترقی کرنا یے تو ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ہاتھ تھامنا ہوں گے۔ اسی میں اجتماعی بھلائی ہے یہی ترقی یافتہ لوگوں کے رویے ہیں۔