1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. آرگینک کا بخار

آرگینک کا بخار

میڈیکل کے ایک طالب علم سے زبانی امتحان میں ایک سوال پوچھا گیا۔کہ تمہارے سامنے اگر مٹھائی کا ڈبہ رکھا جائے گا ،تو تم کونسی قسم کی مٹھائی اُٹھانا پسند کرو گے۔ طالب علم کا جواب تھا۔ کہ جس کا رنگ قدرتی ہوگا ،اور اس میں کھانے کا کوئی بھی رنگ نہیں ملایا گیا ہوگا۔استاد صاحب نے کہا شاباش۔ اور اگر تم اس کے علاوہ کوئی بھی جواب دیتے تو تمہیں فیل کردیا جاتا۔ کہ کم از کم ایک ڈاکٹر کو تو علم ہونا چاہیے ،کہ فوڈ کلر یعنی کھانے کے رنگ کس قدر نقصان دہ ہوتے ہیں ۔انتہائی اہم بات جس کا نہ صرف سب کو علم ہونا چاہیے ،بلکہ وطن عزیز میں تو اس بات پر سختی سے عمل پر کاربند رہنا اور بھی ضروری ہے ۔

کہ جہاں جہالت اور لالچ ہوش وخرد سے بیگانہ کیے ہوں، وہاں کج فہم، ظالم منافع خوروں سے کپڑوں اور سفیدی میں ڈالے جانے والے خطرناک کیمیائی مرکبات کے حامل رنگ کم قیمت ہونے کی وجہ سے مہنگے اور نسبتاً کم نقصان دہ فوڈ کلرز کی جگہ بیچ دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔لیکن ترقی یافتہ ممالک میں رنگوں کا استعمال تو کجا کسی طرح کے کیمیائی مرکبات کے استعمال کے بغیر بنی ہوئی خوراک جسے عرف عام میں آرگینک فوڈ کہا جاتا ہے، کا استعمال روزبروز بڑھ رہا ہے۔ گو پاکستان میں بھی لوگوں میں آرگینک فوڈ کے استعمال کا شوق درآیا ہے۔ لیکن اس شعبہ میں بھی ابھی تک وہی جہالت اور لالچ اپنا کام دکھا رہی ہے۔

دوسری طرف سرکار کی طرف سے بھی کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے جو شخص جس شے کو چاہے اپنے طور پر آرگینک کے نام سے کئی گنا قیمت پر فروخت کرسکتا ہے۔ جبکہ بیشتر اوقات نہ بیچنے والے کو علم ہے کہ آرگینک کس چڑیا کا نام ہے اور نہ ہی خریدنے والا آگاہ ہے۔گو کہ سالوں پرمحیط مستقل عرق ریزی کے بعد بھی اب تک سائنسدان آرگینک اور نان آرگینک خوراک کی غذائیت میں کوئی بھی باقاعدہ فرق تجرباتی طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں اسکے باوجود دنیا بھر میں اس کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ پچھلے دو سال سے دنیا بھر میں آرگینک فوڈ کا کاروبار پچاس ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ رہا۔

اس بڑھتی ہوئی ہوئی مانگ اور استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ میں نیشنل آرگینک پروگرام کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا گیا ہے جس نے آرگینک لیبلنگ کے متعلق بہت سے انتطامی قوانین وضع کرتے ہوئے آرگینک اشیاء کی زراعت اور تیاری میں استعمال اور امتناع کے متعلق ہدایت جاری کی ہیں ۔اس ادارے کی جاری کردہ ہدایت کے مطابق تمام کیمیائی کھادیں جیسے یوریا، امونیم سلفیٹ وغیرہ کا استعمال منع ہے۔ تمام کیمیائی کرم کش ادویات کا استعمال ممنوع ہے۔ زمین کیلئے کیلشیم سلفیٹ، چونا اور گندھک، نیلا تھوتھا اور کچھ اور تانبے کے کچھ دیگر مرکبات، بیجوں کیلئے ایتھائل اور پروپائل الکحل، جبکہ فراہمی آب کی صفائی کیلئے سوڈیم اور کیلشیم ہائپو کلورائیٹ کی خاص مقدار تک استعمال کی اجازت ہے۔

اسی طرح کیڑوں مکوڑوں کیلئے کچھ امونیم سوپ اور فیٹی ایسڈ ایسٹرز اور بطور کرم کش مختلف پودوں کے بیجوں سے اخذ کی آگیا زہر جیسے روٹینون اور کچھ بیکٹیریاز کی مدد سے تیار کردہ Bacillus thuringiensis بی سی لس تھرینگیانسس کے استعمال کی اجازت ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے ۔کہ کسی بھی کھیت سے جہاں کیمیائی کھادوں کا استعمال کیا جارہا ہو، آرگینک فصل لینے کیلئے کم از کم تین سال وہاں کھاد کے بغیر نامیاتی کھادوں اور نامیاتی کرم کش ادویات کے ساتھ فصل اگانے کے بعد وہاں سے آرگینک فصل حاصل کی جاسکتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں جہاں ابھی بہت کم لوگوں کو اس کی آگاہی ہے اور اس سے بھی کم نامیاتی اشیاء کی فراہمی ہے، پھر وسائل کی قلت اس پر مستزاد، بہت ہی کم ہی لوگ اس طرف راغب ہو رہے ہیں ۔

ایسے میں ہر دوسرا شخص آرگینک آٹا، اور ہر تیسرا شخص آرگینک گڑ نہیں معلوم کہا سے لاکر بیچ رہا ہے ۔گو کہ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے زیر انتظام نیشنل انسٹی ٹیوٹ آو آرگینک ایگریکلچر اچھا کام کررہا ہے، وہاں کسانوں کو آرگینک فصل اگانے کے طریقے، ان کیلئے نامیاتی کھاد اور کرم کش ادویات کی تیاری کے طریقے سکھائے جانے کا انتظام ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے طول وعرض میں خواہش مند کسانوں کو آرگینک فارمز بنانے میں عملی ٹیکنیکی معاونت بھی فراہم کی جارہی ہے۔ مگر یہ سب ابھی بالکل ابتدائی سطح پر ہے۔اس کے علاوہ آرگینک اشیاء کی باقاعدہ سرٹیفیکیشن کیلئے بھی شاید ابھی سرکاری طور پر کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا کچھ نجی ادارے عالمی اداروں کے ساتھ منسلک ہونے کادعوی کرتے ہوئے اپنے طور پر سرٹیفیکیشن کررہے ہیں ۔

نہیں معلوم ان کا اپنا کیا معیار ہے۔ سو میری ناچیز رائے میں جب تک پاکستان میں عملی اور اخلاقی معیار ایک خاص سطح پر نہیں آجاتا کسی بھی طرح فالتو رقم دیکر آرگینک اشیاء کی خریداری کی کوشش خود کو تسلی دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔لہذا تازہ سبزیاں اور پھل جہاں تک ممکن ہو اچھی طرح دھو کر استعمال کریں ۔ صاف ستھرا اناج بغیر پسے خرید کر خود پسوائیں ۔ حتی کہ بیسن اور سرخ مرچ بھی۔ مصالحہ جات کبھی بھی پسے ہوئے مت خریدیں ۔ اور جہاں تک ممکن ہو صحت افزا کھانے کے متعلق معلومات حاصل کریں ۔