1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. پہلا قطرہ

پہلا قطرہ

جیسے ہی جاڑا آتا ہے وطن عزیز تو کیا برصغیر بھر میں ہر طرف توانائی سے بھر پور صحت بخش پکوان بننے لگتے ہیں۔ ان پکوانوں میں توانائی کے حصول کے لیے خاص طور پر ایک جزو استعمال ہوتا ہےجسے پھول مکھانہ کہتے ہیں۔ یہ پھول مکھانہ غذائی اعتبار سے یہ اس قدر صحت بخش اجزا سےاس قدر لبریز ہے کہ اسے بلا جھجھک سپر فوڈ کہا جاسکتا ہے۔ اس میں پروٹین، پری بائیوٹکس، کیلشیم، پوٹاشیم، میگنیشیم اور فولاد کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر مائیکرو نیوٹرینٹس بھی ہوتے ہیں، جو ہمارے جسم پر وقت کے بے رحم تھپیڑوں کے اثرات کو کم کرتے ہیں، جسم میں موجود بیماریاں پھیلانے والے جراثیم کو ختم کرتے ہیں اور ہماری قوت مدافعت بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

گویا توانائی بخش خوراک میں پھول مکھانے کا کا استعمال انتہائی منطقی عمل ہے، جو اس خطے میں صدیوں سے جاری ہے۔ پھول مکھانہ کنول سے ملتے جلتے پانی میں اُگنے والے ایک پودے فاکس نٹ fox nut کے بیج ہوتے ہیں۔ جو مکئی کی طرح آگ پر بھوننے سے پھول جاتے ہیں۔ اسی لیے انہیں پھول مکھانہ کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سالانہ لگ بھگ پچیس ارب روپے کا پھول مکھانہ اُگایا اورکھایا جاتا ہے۔ اس میں سے اسی فیصد بھارت پیدا کرتا ہے۔ بقیہ بیس فیصد جاپان، کوریا اور چین میں پیدا ہوتا ہے۔ بھارت میں پھول مکھانے کی نصف سے زائد پیداوار صوبہ بہار میں ہوتی ہے جہاں یہ پچاس ہزار ایکڑ رقبے پر کاشت کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ بنگال اور آسام میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔

کووڈ کی وجہ سے دنیا بھر میں مدافعت بڑھانے والی غذاؤں کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اسی وجہ سے پھول مکھانے کی طلب میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس بڑھی ہوئی طلب کے پیش نظر بھارت میں اس کی پیداوار بڑھانے کے لئے ایک ادارہ بنایا گیا ہے جسے center to boost makhana cultivation کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بہار محکمہ زراعت اور انڈین کونسل فار ایگری کلچرل ریسرچ ICAR بھی پھول مکھانے کی پیداوار بڑھانے کے لئے بہت کاوشیں کررہے ہیں۔ حال ہی میں ICAR کے سائنسدانوں نے مکھانے کی ایک نئی قسم تیار کی جس کی فی ایکڑ پندرہ سو کلو گرام تک ہے۔ جب کہ پرانی اقسام چھ سو سے آٹھ سو کلو گرام فی ایکڑ تک پیداوار دیتی تھیں۔

بھارت پھول مکھانہ کو کیلیفورنیا کے بادام کی طرز پر دنیا بھر میں ایک صحت بخش غذا کے طور پر متعارف کروارہا ہے۔ اس سلسلے میں اس زرعی اجناس کی برآمدات سے متعلقہ لوگوں نے دنیا بھر میں مختلف ذرائع ابلاغ پر پھول مکھانہ کی بابت ایک تعارفی مہم شروع کررکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں بھارتی مکھانے کی مانگ یورپ کینیڈا اور خاص طور پر امریکہ میں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بھارت میں معیار کے لحاظ سے مکھانہ تین سو سے پانچ سو بھارتی روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔ پاکستانی رپوں میں یہ سات سو سے بارہ سو روپے فی کلو بنتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں چونکہ یہ درآمد ہوتا ہے اس لیے اس کی قیمت بائیس سو روپے فی کلو گرام یا اس سے زائد ہے۔ مکھانہ اُگانے کے لیے کھیت میں ایک فٹ سے پانچ فٹ تک پانی کھڑا رکھنا ضروری ہے۔

پاکستان میں دریاؤں کی ساتھ ہزاروں ایکڑ جگہ ایسی ہے جہاں قدرتی طور دریا کا پانی سال کا بیشتر حصہ جمع رہتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہمیں قادر آباد ہیڈ ورکس جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں دریا کے ساتھ میلوں میل پانی کھڑا تھا جس میں خودرو کنول آگ رہی تھی۔ یہ ساری زمین مکھانہ کاشت کیے جانے کے قابل ہے۔ بہت سے ایسے نشیبی علاقے ہیں جہاں بارشوں کا پانی جمع رہتا ہے۔ میری ناقص رائے میں ان سب جگہوں پربھی مکھانہ کاشت کیا جاسکتا ہے۔ ان سب کے علاوہ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایگری ٹورازم آو پاکستان نے کامونکی کے قریب سنگھاڑہ فیسٹیول منعقد کیا۔ وہاں ہم نے مشاہدہ کیا کہ ہزاروں ایکڑ عام اراضی پر پانی کھڑا کرکے بالکل وہی صورت بنائی گئی تھی جو بھارت کے صوبہ بہار میں مکھانہ کی کاشت کے علاقوں میں ہوتی ہے۔

وہاں مصنوعی جھیلوں میں سنگھاڑہ کی کاشت دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہاں مکھانہ کی کاشت کامیابی سے کی جاسکتی ہے۔ مکھانہ کی فصل دسمبر میں کاشت کی جاتی ہے۔ بالکل دھان کی فصل کی طرح پہلے پنیری لگائی جاتی ہے۔ پھر اس پنیری کو فروری اور مارچ میں کھڑے ہوئے پانی میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ جہاں جون جولائی میں یہ فصل تیار ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد اسی کھیت میں چاول بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایکڑ کیلئے چالیس کلو تک بیج درکار ہوتا ہے۔ جبکہ نئی اقسام کی پیداوار بارہ سو سے پندرہ سو کلو فی ایکڑ تک ہوتی ہے۔ اگر کم سے کم ایک ہزار کلو بھی تصور کریں تو سکھانے اور بھوننے کے بعد پانچ سو کلو تیار مکھانہ حاصل ہوگا جسکی قیمت فروخت پاکستان میں بائیس سو روپے ہے۔

اگر بائیس سو جگہ ایک ہزار روپے بھی لگائیں تو بھی پانچ لاکھ روپے فی ایکڑ کی کل آمدن ہے۔ خرچ آدھا بھی ہوتو بھی پاکستان میں کاشت معمول کے مطابق کاشت کی جانے والی تمام اجناس سے کئی گنا زیادہ منافع ہوسکتا ہے۔ امید ہے ان گذارشات کے بعد زراعت سے جڑے کچھ لوگ پاکستان میں مکھانے کی کاشت کا تجربہ کریں گے۔ اگر کسی ایک بہادر نفس نے ایک کنال پر بھی کاشت کرلیا تو پھر سب دیکھا دیکھی آمادہ ہوجائیں گے۔ تو کون بنے گا بارش کا پہلا قطرہ۔