1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ابنِ فاضل/
  4. رتن فرنیچر امید کا جہاں

رتن فرنیچر امید کا جہاں

آپ نے موٹر ویز پر آتے جاتے ریستورانوں میں یا اپنے شہروں میں کھلے ریستورانوں اور پارکوں میں اکثر ایک خاص طرح فرنیچر دیکھا ہوگا جو بید کی آٹھ دس ملی میٹر چوڑی پٹیوں سے بنایا گیا ہوتا ہے۔ اس فرنیچر کو رتن (Rattan Furniture) فرنیچر کہتے ہیں۔ رتن بنیادی طور پر استوائی خطہ کے ایک درخت رتن پام کی لکڑی ہوتی ہے جس میں قدرت نے بڑی لچک رکھی ہے۔ یہ درخت ویتنام، ملیشیا انڈونیشیا اور بھارت وغیرہ میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔

اس رتن پام کی خشک چھڑیوں کو باہر طرف سے صاف کرنے کے بعد چھوٹی لمبی پٹیوں کی صورت کاٹ لیا جاتا ہے۔ ان پٹیوں کو رتن کور کہتے ہیں۔ اس رتن کور سے لکڑی، بانس، بید یا لوہے کے بنے فرنیچر پر بُنائی کی جاتی ہے۔ جس سے دیدہ زیب اور آرام دہ فرنیچر تیار ہوجاتا ہے۔ رتن پام کے علاوہ ولو willow درخت کی لکڑی بھی اس کام کے لیے بطریق احسن استعمال ہوتی ہے۔ ولو پاکستان میں کافی مقدار میں موجود ہے۔ نیز یہ مزید بھی دریاؤں اور نہروں کے کنارے باآسانی اگائے جاسکتے ہیں۔ بہت رفتار سے بڑھنے والے اس درخت کے پودے انتہائی سستے داموں دستیاب ہیں۔

رتن اور ولو وغیرہ کی لکڑی کے علاوہ بالکل لکڑی کی شکل کی رتن کور اب پولی ایتھائلین پلاسٹک میں بھی بہت زیادہ مقدار میں تیار کی جاتی ہے۔ پاکستان میں چین کی بنی پلاسٹک رتن دستیاب ہے جبکہ اس کے علاوہ اب یہ پاکستان میں بھی بنتا ہے۔ گو کہ اس کا معیار ابھی چینی رتن جیسا نہیں مگر امید ہے کچھ محنت اور تجربات کے بعد ہم بھی عالمی معیار کا رتن بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انشاءاللہ۔

رتن فرنیچر کی دنیا بھر میں بہت مانگ ہے۔ ایک بین الاقوامی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ساری دنیا میں سالانہ 12 سے 14 ارب ڈالر سالانہ کی فروخت ہوتی ہے۔ چین اور ویتنام دنیا بھر میں رتن فرنیچر بنانے والے بڑے ممالک ہیں۔ ویتنام نے گذشتہ سال لگ بھگ پچاس کروڑ ڈالر یعنی پچہتر ارب روپے پاکستانی کا رتن فرنیچر اور رتن کور برآمد کیا۔ اس کی فرنیچر کی بڑی مارکیٹ یورپ اور امریکہ ہیں۔

لکڑی یا لوہے کا بنیادی ڈھانچہ بنانا نہ کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی اس کی رتن کور سے بنائی بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ ہفتہ بھر کی مشق کے بعد ایک عام دیہاتی اس کام کو بہت اچھے طریقے سے کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ یورپ میں اس کی ڈیمانڈ اس قدر ہے کہ بڑے آرام سے انتہائی کم کوشش سے اس کے آرڈرز حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ بلکہ ہمارے ایک مہربان کے پاس اس کا بہت بڑا آرڈر تھا مگر انہیں مطلوبہ معیار کا فرنیچر بروقت مہیا کرنے والے دستیاب نہیں تھے۔

ہمارے پاس چنیوٹ میں لکڑی کے فرنیچر کی بہت بڑی صنعت ہے۔ اس کے ارد گرد کسی شہر یا قصبہ جیسا کہ جھنگ میں لوگوں کو تھوڑی سی تربیت اور مدد دے کر کا پورے شہر کو اس کی تیاری پر لگایا جاسکتا۔ اندازہ کریں کہ اگر ہم بھی سالانہ پچاس سے پچہتر ارب روپے کا رتن فرنیچر برآمد کررہے ہوں تو کتنے لوگ اس کی برآمدات سے برسر روزگار ہوں اور کتنے ان کی تیاری اور خام مال سے۔

باقاعدہ فرنیچر کے علاوہ اس کے انتہائی دیدہ زیب اور بیش قدر چھوٹے چھوٹے دستکاری کے نمونے بھی بنائے جاتے ہیں۔ جیسے ٹوکریاں، لیمپ، ٹرے، فوٹو فریم ٹشو باکس، پین ہولڈر، چنگیر اور ہاٹ پاٹ وغیرہ۔ ان سب اشیاء کی تیاری گھریلو صنعت کے طور پر بھی کی جاسکتی ہے۔ گھروں میں خواتین بھی یہ کام کرسکتی ہیں۔

کاروبار کوئی بھی ہو پہلا قدم اس کا بنیادی علم کی طرف راہنمائی ہی ہے۔ پھر اس کام کا تجربہ اور مہارت اور دیگر تفصیلات کی باری آتی ہے۔ یقیناً خوشحال پاکستان ہماری منزل ہےمگر یہ منزل ظاہر ہے کہ علم وحکمت، محنت اور مستقل مزاجی کی متقاضی ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ آئیں تھوڑا رویہ بدلیں آئیں خوشحال ہوئیں۔