1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. اعجاز مقبول/
  4. عَبْدُہُ (1)

عَبْدُہُ (1)

لفظ عبدہ اصلاً عربی لفظ ہے جو اسمِ مذکرکے لیے بولا جاتا ہے جس کے معنی "اس کا (اللہ کا) بندہ" جیسا کہ "عَبَدَ اللهَ عِبَادَةً وعُبُوْدِيَّةً"، "اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کرنا، عبادت کرنا، آداب بندگی بجا لانا، عجز و انکساری کا اظہار کرنا، صرف اللہ ہی کو مالک و خالق اور واجب الاطاعت ماننا۔ "

عبد کا مادہ یا روٹ ورب "ع ب د" ہے جیسا کہ "نعبد" "ہم بندگی کرتے ہیں، "عبد"، "بندگی کرنے والا۔ "

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لفظ "عبد" کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "جو اپنے اختیار سے اللّه کی عبادت کرتے ہیں اور ان کی عبادت بہت کامل اور اللّه تعالیٰ کو بہت پسند ہوتی ہے، وہ اللّه تعالیٰ کے مثالی عبد ہوتے ہیں اور اللّه تعالیٰ ان کے عبد ہونے پر ناز فرماتا ہے اور فخر سے فرماتا ہے کہ وہ میرے بندے ہیں" ان عبادی لیس لك علیھم سلطن" (الحجر: 42)

(اے ابلیس) بے شک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں۔

اور عبدہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ تمام انبیاءؑ اللّه تعالیٰ کے کامل عبد ہیں لیکن سیدنا محمد ﷺ اللّه کے کامل ترین عبد اور محبوب ترین عبد ہیں، چنانچہ عبد اور عبدہ میں محبوب و مطلوب کے راز و اسرار پائے جاتے ہیں۔ عبد عام بندہ ہے اور عبدہ خاص بندے۔ عبد کو نجات کے لیے بندگی کی ضرورت ہے اور عبدہ وہ بابرکت ذاتِ گرامی (ﷺ) ہے جس کی بندگی پر خدا کو ناز ہے۔

جس کا ایک سجدہ ساری انسانیت، سارے ملائیک، ساری مخلوقات کے ہزاروں، اربوں، کروڑوں سالوں کے سجدوں پر بھاری ہے، عبد وہ ہے کہ جو ساری زندگی اپنی مغفرت طلب کرتا ہے اور عبدہ وہ جو ساری ساری رات، رب ھبلی امتی پکارتا ہے، عبد عبادت کے لیے پیدا ہوا ہے اور عبدہ وہ ہے جس پر عبادت بھی فخر کرتی ہے، عبد "عبداللہ" ہے اور عبدہ "حبیب اللہ" (ﷺ) ہے، عبد فقط وجود ہے عبدہ وجہ وجود کائنات ہے۔

"لو لاک لما خلقت الدنیا"، "اے پیارے حبیب (ﷺ) تو نہ ہوتا تو میں دنیا کو نہ بناتا"، "لولاک لما خلقت الافلاک"، "اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو بھی پیدا نہ کرتا، عبد فقط طالب ہے عبدہ سب کا مطلوب ہے، عبد پست ہے مغلوب ہے، عبدہ اعلیٰ اور عروج ہے، عبد قحط زدہ ہے، عبدہ قحط و مرض، دُکھ اور مصیبت زائل کرنے والا ہے۔ عبد ہم سب ہیں، عبدہ سرورِ کائنات (ﷺ) ہیں۔

عبدہ وہ کامل عبد ہے جس کو مالک خود فرمائے کہ یہ میرا بندہ ہے۔

الحمد للّه الذی انزل علی عبدہ الکتاب "اللّه ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے اپنے بندہ پر کتاب نازل کی۔ "

الیس اللّه بکاف عبدہ، "کیا اللّه اپنے بندہ (یعنی محمد رسول اللّه ﷺ) کو کافی نہیں؟"

عبد دیگر عبدہ چیزی دگر

ما سراپا انتظار او منتظر

عبد انتظار میں ہے، عبدہ کا انتظار ہوتا ہے۔

"سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا"۔

"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ خاص (جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ) کو رات کے ایک قلیل وقفہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا"۔

جس کو رب بلائے وہ عبدہ ہے، جو ساری زندگی بلاوے کا منتظر ہو وہ عبد ہے۔

اِنَّآ اَعْطَيْنٰکَ الْکَوْثَرَ "بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے"عبد پست ہے، قلت میں ہے، عبدہ کثرت ہے، اوج ہے عروج ہے، عبد جان ہے، عبدہ جانِ جانانِ جہان ہے۔

عبدہ رسولِ اُمی ہے۔

عبدہ وجودِ کلی ہے۔

عبدہ عروجِ اولیٰ ہے۔

عبدہ جانِ جاناں ہے۔

تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں

ہے چہرہ ام الکتاب تیرا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر

بول بالا ہے تیرا نام ہے اونچا تیرا

فرش والے تیرے عظمت کا علو کیا جانیں

حسروا عرش پہ پھرتا ہے پھریرا تیرا

o وَالضُّحٰی وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰی۔

ہزار چہرے ہیں، والضحٰی سا نہیں چہرا کوئی

لاکھ گیسو ہیں، نہیں ولیل سے گیسو کوئی

تَبَّتْ يَدَآ اَبِیْ لَهَبٍ وَّتَبَّ

مٹ گئے، مٹتے ہیں، مٹ جائیں گے اعدا تیرے

نہ مٹا ہے، نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

عبد چھوڑ دیا جاتا ہے، اور عبدہ مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ۔

"(اے حبیبِ مکرّم ﷺ) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں"

عبدہ ساری کائنات، ساری مخلوقات کے سردار جناب محمد رسول اللہ ﷺ ہیں، کائنات کی وجہ ہیں، وجودوں کا وجود ہیں۔

مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ۔

"(اے حبیبِ مکرّم ﷺ) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں۔ "

لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ۔

"اے حبیبِ مکرّم ﷺ) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔ "

لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمَ بَعْضًا۔

(اے مسلمانو!) تم رسول ﷺ کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم ﷺ کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول ﷺ کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)۔

وَالضُّحٰى (1) وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰى "قسم ہے دن چڑھے کی، اور قسم رات کی جب اندھیری ڈالے، یا قسم اے محبوب! تیرے روئے روشن کی، اور قسم تیری زلف کی جب چمکتے رخساروں پر بکھر آئے۔ "مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى" نہ تجھے تیرے رب نے چھوڑا اور نہ دشمن بنایا۔ "اور یہ اَشقیاء (بدبخت) بھی دل میں خوب سمجھتے ہیں کہ خدا کی تجھ پر کیسی مِہر (یعنی رحمت) ہے۔

اس مِہر (یعنی رحمت) ہی کو دیکھ دیکھ کر جلے جاتے ہیں، اور حسد و عناد سے یہ طوفان جوڑتے ہیں اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں، مگر یہ خبر نہیں کہ "وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى" بے شک آخرت تیرے لیے دنیا سے بہتر ہے۔ " وہاں جو نعمتیں تجھ کو ملیں گی نہ آنکھوں نے دیکھیں، نہ کانوں نے سنیں، نہ کسی بشر یا مَلک کے خطرے میں آئیں، جن کا اِجمال یہ ہے "وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى" قریب ہے تجھے تیرا رب اتنا دے گا کہ تو راضی ہو جائے گا۔ "

اس دن دوست دشمن سب پر کھل جائے گا کہ تیرے برابر کوئی محبوب نہ تھا۔ خیر، اگر آج یہ اندھے آخرت کا یقین نہیں رکھتے تو (اے پیارے حبیب!) تجھ پر خدا کی عظیم، جلیل، کثیر، جزیل نعمتیں، رحمتیں آج کی تو نہیں قدیم ہی سے ہیں۔ کیا تیرے پہلے اَحوال انہوں نے نہ دیکھے اور ان سے یقین حاصل نہ کیا کہ جو نظرِ عنایت تجھ پر ہے ایسی نہیں کہ کبھی بدل جائے۔

"اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى(6) وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى(7) وَ وَجَدَكَ عَآىٕلًا فَاَغْنٰى(8) فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْ(9) وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْ(10) وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ" کیا اس نے تمہیں یتیم نہ پایا پھر جگہ دی۔ اور تمہیں اپنی محبت میں گم پایا تو قربت کی طرف راہ دی۔ اور تمہیں حاجت مند پایا تو غنی کر دیا۔ تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔ اور منگتا کو نہ جھڑکو۔ اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔

عبدہ مکمل، کامل، اعلیٰ، عرفا، اولیٰ، بالا، خاصائے خاصانِ رسل، شفیع الامم، تاجدارِ مدینہ، سرورِ کائنات، شاہنشاہِ عرب و عجم، شاہِ کونین، شفیق، رحیم، کریم، میم، لام، ن، ق، الف، ف کی ذاتِ اقدس سیدنا و مولانا، جنابِ محمد، کریموں سے کریم، رحیموں سے رحیم، رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ بابرکت ہے۔

جس کے صدقے، جس کی محبت میں اللہ جلا شانہ، وحدہ لاشریک لہ، ربِ کائنات نے پہلی بار عدم میں قید موجودات کو ایک کن سے تخلیق کر دیا، یہ ساری کائنات، زمیں و آسماں، چاند ستارے، بحر و بر، جنگل، ریت، سحرا، سمندر، حجر، شجر، بشر، جن و ملائیک، صبح، شام، رات، سویرہ، چڑیا، چوں چوں، کوئل، کو کو، مور پتنگہ، طوطا مینا، جس جس کا وجود ہے، تھا، ہوگا، سب تخلیق فرما دیا۔

حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے حضرت سیّدُنا عیسیٰؑ کی طرف وحی فرمائی: يَا عِيْسٰى آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَاْمُرْ مَنْ اَدْرَكَه، مِنْ اُمَّتِكَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِهٖ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَاخَلَقْتُ آدَمَ وَلَوْ لَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ "یعنی اے عیسیٰ! محمدِ عربی ﷺ پر ایمان لاؤ اور اپنی اُمّت میں سے ان کا زمانہ پانے والوں کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دو۔ اگر محمدِ مصطفےٰ ﷺ نہ ہوتے تو میں نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہ ہی جنّت و دوزخ بناتا۔

حضرت سیدنا محمد سعید شرف الدین امام الکاملین، جنابِ امام بوصیریؒ نے لکھا:

وَکَیْفَ تَدْعُوْ اِلَی الدُّنْیَا ضَرُوْرَۃُ مَنْ

لَوْلَاہ ُلَمْ تَخْرُجِ الدُّنْیَا مِنَ الْعَدَمِ

یعنی دنیا کی ضرورتیں اس مبارک ہستی کو اپنی طرف کیسے بُلا سکتی ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو دنیا عدم سے وُجُود میں نہ آتی۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو۔

جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے۔

معراج کی رات جب سرکارِ نامدار مدینہ ﷺ نے سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی کے مقام پر پہنچ کر اللہ پاک کے لئے سجدہ کیا تو اللہ کریم نے ارشاد فرمایا: اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِویٰ ذٰلِکَ خَلَقْتُہ، لِاَجْلِکَ یعنی اے میرے محبوب محتشم ﷺ! میں ہوں اور تم ہو، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب میں نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔ اس موقع پر اللہ کے حبیب جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عرض کی اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِویٰ ذٰلِکَ تَرَکْتُہ، لِاَجْلِکَ "اے میرے مالک! میں ہوں اور تیری ذاتِ پاک ہے، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب میں نے تیرے لئے چھوڑ دیا۔