1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. اعجاز مقبول/
  4. شبِِ برات اور ایک غلط فہمی (2)

شبِِ برات اور ایک غلط فہمی (2)

یہ شب قدر رمضان کے عشرۂ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر اسی لیے استعمال ہوا کہ اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہو نے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے۔ تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے، چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے شب قدر یا لیلۂ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی (ﷺ) پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔

بعض مفسرین نے لیلۂ مبارکہ سے شعبان کی پندرھویں رات مراد لی ہے۔ لیکن یہ بلکل صحیح نہیں کیونکہ قرآن کی نصِ صریح سے قرآن کا نزول شب قدر میں ثابت ہے تو اس سے شب براءت مراد لینا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ علاوہ ازیں شب براءت (شعبان کی پندرھویں رات) کی بابت جتنی بھی روایات آتی ہیں، جن میں اس کی فضیلت کا بیان ہے یا ان میں اسے فیصلے کی رات کہا گیا ہے، تو یہ سب روایات سنداً ضعیف ہیں۔

اور بالفرض اگر کوئی صحیح حدیث مل بھی جاتی ہے پھر بھی اس کو نہیں لیا جائے گا کہ سند کا صحیح ہونا کلام رسول ﷺ ثابت نہیں کرتا کیونکہ جب ہمیں ایک مسئلہ قرآن مجید سے واضح ہو جاتا ہے تو پھر کسی مفسر، مفکر یا فتویٰ کی ضرورت باقی نہیں رہتی، حاصل کلام یہی ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کا ذکر قرآن سے نہیں ملتا اور نہ ہی شب براءت شعبان میں ثابت ہے۔ اسی بابت امتِ مسلمہ کی تقریباً تمام عربی و اردو تفاسیر میں لیلة مبارکہ اور لیلة القدر ایک ہی ہیں، مگر پھر بھی کوئی بندہ ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو اس کا علاج کسی کے پاس نہیں۔

اس سلسلہ میں سورہ دخان کی آیت نمبر تین کی چند تفاسیر کا ذکر کرنا چاہوں گا تاکہ مذید وضاحت ہو جائے۔

تفسیر ابن عباس: (المقباس)

مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے بسند صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے "ليلة مباركة" سے مراد "ليلة القدر" کو ہی لیا ہے۔ (المستدرك على الصحيحين 3678 وقال: صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ و قال الذهبي: صحيح على شرط مسلم)

تفسیر الطبری:

والصواب من القول في ذلك قول من قال: عنى بها ليلة القدر۔

اس مسئلہ میں درست بات اسی شخص کی ہے جس نے کہا کہ "ليلة مباركة" سے مراد لیلۃ القدر ہے۔

معانی القرآن:

مفسرین نے کہا ہے: لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔

تفسیر الماتریدی:

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ قال أهل التأويل: إنا أنزلنا الكتاب أي: القرآن في ليلة القدر

مفسرین اس آیت کا معنی یوں بیان کرتے ہیں: ہم نے اس کتاب کو ہم نے قرآن مجید کو "ليلة القدر" میں اتارا۔

أَنَّهَا لَيْلَة الْقدر، وَهَذَا قَول ابْن عَبَّاس وَالْحسن وَسَعِيد بن جُبَير وَأكْثر الْمُفَسّرين

تفسیر القرآن للسمعانی:

ابن عباس حسن بصری سعید بن جبیر اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔

احکام القرآن لابن العربي:

وَجُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ عَلَى أَنَّهَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ وَمِنْهُمْ مَنْ قَالَ: إنَّهَا لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ

جمہور اہل علم کی رائے یہی ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔

وَهُوَ بَاطِلٌ فَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ فِي غَيْرِهِ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ

پس یہ قول باطل ہے جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر کے علاؤہ کوئی رات ہے تو وہ اللہ پر بڑا بہتان باندھنے والا ہے۔

زاد المیسر في علم التفسير:

أنَّها لَيْلَةُ القَدْرِ، وهو قَوْلُ الأكْثَرِينَ

اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے کہ اس لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔

التفسير الكبير:

وأمّا القائِلُونَ بِأنَّ المُرادَ مِنَ اللَّيْلَةِ المُبارَكَةِ المَذْكُورَةِ في هَذِهِ الآيَةِ هي لَيْلَةُ النِّصْفِ مِن شَعْبانَ، فَما رَأيْتُ لَهم فِيهِ دَلِيلًا يُعَوَّلُ عَلَيْهِ، وإنَّما قَنِعُوا فِيهِ بِأنْ نَقَلُوهُ عَنْ بَعْضِ النّاسِ، فَإنْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِيهِ كَلامٌ فَلا مَزِيدَ عَلَيْهِ، وإلّا فالحَقُّ هو الأوَّلُ۔

جن لوگوں نے کہا کہ اس آیت میں"ليلة مباركة" سے مراد نصف شعبان کی رات ہے میں نے ان کی کوئی قابلِ اعتماد دلیل نہیں دیکھی انہوں نے صرف اسی پر اکتفاء کیا کہ یہ قول بعض لوگوں سے مروی ہے۔ اگر تو یہ بات رسول اللہ سے صحیح ثابت ہے تو اس پر کوئی حرج نہیں وگرنہ پہلی بات ہی راجح ہے یعنی لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے۔

الجامع لاحکام القرآن:

وَاللَّيْلَةُ الْمُبَارَكَةُ لَيْلَةُ الْقَدْرِ وَيُقَالُ: لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ۔ وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ۔

لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔ لیکن پہلی بات درست ہے۔

تفسیر ابن کثیر:

عظیم الشان قرآن کریم کا نزول اور ماہ شعبان اللہ تبارک و تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس عظیم الشان قرآن کریم کو بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ جیسے ارشاد ہے آیت (اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر) ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ اور یہ رات رمضان المبارک میں ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ البقرة: 185) رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔

سورہ بقرہ میں اس کی پوری تفسیر گزر چکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ نہیں لکھتے بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لیلہ مبارکہ جس میں قرآن شریف نازل ہوا وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے یہ قول سراسر بےدلیل ہے۔ اس لئے کہ نص قرآن سے قرآن کا رمضان میں نازل ہونا ثابت ہے۔ اور جس حدیث میں مروی ہے کہ شعبان میں اگلے شعبان تک کے تمام کام مقرر کر دئیے جاتے ہیں۔

یہاں تک کہ نکاح کا اور اولاد کا اور میت کا ہونا بھی وہ حدیث مرسل ہے اور ایسی احادیث سے نص قرآنی کا معارضہ نہیں کیا جا سکتا ہم لوگوں کو آگاہ کر دینے والے ہیں یعنی انہیں خیر و شر نیکی بدی معلوم کرا دینے والے ہیں تاکہ مخلوق پر حجت ثابت ہو جائے اور لوگ علم شرعی حاصل کر لیں اسی شب ہر محکم کام طے کیا جاتا ہے یعنی لوح محفوظ سے کاتب فرشتوں کے حوالے کیا جاتا ہے۔

تمام سال کے کل اہم کام عمر روزی وغیرہ سب طے کر لی جاتی ہے۔ حکیم کے معنی محکم اور مضبوط کے ہیں جو بدلے نہیں وہ سب ہمارے حکم سے ہوتا ہے ہم رسل کے ارسال کرنے والے ہیں تاکہ وہ اللہ کی آیتیں اللہ کے بندوں کو پڑھ سنائیں جس کی انہیں سخت ضرورت اور پوری حاجت ہے یہ تیرے رب کی رحمت ہے اس رحمت کا کرنے والا قرآن کو اتارنے والا اور رسولوں کو بھیجنے والا وہ اللہ ہے جو آسمان، زمین اور کل چیز کا مالک ہے اور سب کا خالق ہے۔

تم اگر یقین کرنے والے ہو تو اس کے باور کرنے کے کافی وجوہ موجود ہیں پھر ارشاد ہوا کہ معبود برحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہر ایک کی موت زیست اسی کے ہاتھ ہے تمہارا اور تم سے اگلوں کا سب کا پالنے پوسنے والا وہی ہے اس آیت کا مضمون اس آیت جیسا ہے۔ (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا الاعراف: 158)، یعنی تو اعلان کر دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کی بادشاہت ہے آسمان و زمین کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو جلاتا اور مارتا ہے۔

احسن البیان:

بابرکت رات (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ) سے مراد شب قدر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ) 2۔ البقرۃ: 185) رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا، یہ شب قدر رمضان کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر کی رات اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے (جیسا کہ آگے آرہا ہے)۔

چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے (83 سال 4 ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے۔ شب قدر یا لیلہ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی (ﷺ) پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اس رات آپ پر قرآن نازل ہوا، یا یہ مطلب ہے لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اتارا گیا جو آسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے ضرورت و مصلحت 23 سالوں تک مختلف اوقات میں نبی (ﷺ) پر اترتا رہا۔

تیسیر القرآن:

لیلۃ القدر اور شب برات ایک ہی رات ہے، یعنی جس رات قرآن نازل ہوا وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی۔ کیونکہ اس رات کو تمام دنیا کی ہدایت کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔ اس مقام پر اس رات کو (لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ) کہا گیا اور سورة القدر میں (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ) یعنی بڑی قدر و منزلت والی رات یا وہ رات جس میں بڑے اہم امور کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔

مطلب دونوں کا ایک ہی ہے بالفاظ دیگر ایک ہی رات کو یہاں (لَیْلَۃٍ مُّبَارِکَۃٍ) کہا گیا ہے اور سورة القدر میں (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ)۔ اور سورة بقرہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ یہ رات ماہ رمضان المبارک کی رات تھی۔ (2: 185) اور احادیث صحیحہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ یہ رات ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے اور اکثر اقوال کے مطابق یہ رمضان کی ستائیسیویں رات ہوتی ہے۔

مگر بعض ناقابل احتجاج روایات کی بنا پر بعض لوگوں نے اس رات کو دو الگ الگ راتیں قرار دے لیا یعنی (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ) کو تو رمضان کے آخری عشرہ میں ہی سمجھا اور (لَیْلَۃٍ مُّبَارِکَۃٍ) کو ماہ شعبان کی پندرہ تاریخ قرار دے دیا۔ اور اس کا نام شب قدر یا شب برات رکھ لیا۔ حالانکہ شب کا لفظ لیلۃ کا فارسی ترجمہ ہے اور برات کا لفظ قدر کا۔ گویا (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ) کا ہی فارسی زبان میں ترجمہ کرکے ایک دوسری رات بنا کر اس کا تہوار منانے لگے اور اس میں پٹاخے اور آتش بازی چلانے لگے۔

گویا جو کام ہندو اپنے دسہرہ کے موقع پر کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں نے شب برات سے متعلق کرکے اپنے تہوار منانے کے شوق کو پورا کر لیا۔ رہی یہ بات کہ کیا سارے کا سارا قرآن اسی رات اترا تھا جیسا کہ بظاہر اس سورت اور سورة القدر سے معلوم ہوتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سارے کا سارا قرآن ہی لوح محفوظ سے نقل کرکے فرشتوں اور بالخصوص جبرائیل کے حوالہ کر دیا گیا تھا۔ یا یہ سارا قرآن آسمان دنیا پر اتار دیا گیا تھا۔