1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. اعجاز مقبول/
  4. رخِ مصطفی ﷺ (2)

رخِ مصطفی ﷺ (2)

ایک سوال پیدہ ہوتا ہے کہ مصر میں حسنِ یوسفؑ کو دیکھ کر عورتوں نے ہاتھ کاٹ لیے لیکن جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ایسا کیوں نہیں؟ حضرت شاہ ولی اللہ محدِّث دہلوی لکھتے ہیں: میرے والدِ ماجد شاہ عبدالرحیم خواب میں نبی کریمﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے تو عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! یوسفؑ کے حسن سے حیرت زدہ ہوکر مصر کی عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے اور بعض لوگ تو اُنہیں دیکھ مرگئے تھے، مگر آپ ﷺ کودیکھ کر کسی کی ایسی حالت نہیں ہوئی، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: میرے حقیقی حسن وجمال کو اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے چھپارکھا ہے، اگر میرا حقیقی حسن وجمال ظاہر کردیا جاتا تو لوگ اس سے کہیں زیادہ کرگزرتے جو اُنہوں نے حسن یوسفؑ کو دیکھ کر کیا تھا، (اَلدُّرُّالثَّمِیْن فِیْ مُبَشَّرَاتِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن، ص: 7)۔

کسی آنکھ میں مشاہدۂ حسنِ مصطفیٰ ﷺ کی تاب نہ تھی ربِ کائنات نے وہ آنکھ تخلیق ہی نہیں کی جو تاجدارِ کائنات ﷺ کے حسن و جمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کر سکے۔ اَنوارِ محمدی ﷺ کو اس لئے پردوں میں رکھا گیا کہ اِنسانی آنکھ جمالِ مصطفےٰ ﷺ کی تاب ہی نہیں لا سکتی۔ اللہ ربّ العزت نے آپ ﷺ کا حقیقی حسن و جمال مخلوق سے مخفی رکھا۔

اِمام محمد مہدی الفاسی رحمۃ ﷲ علیہ نے الشیخ ابو محمد عبدالجلیل القصری رحمۃ اﷲ علیہ کا قول نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

حضرت یوسفؑ اور دیگر حسینانِ عالم کا حسن و جمال حضور ﷺ کے حسن و جمال کے مقابلے میں محض ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ آپ ﷺ کے اسم مبارک کی صورت پر پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر ﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے حسن کو ہیبت اور وقار کے پردوں سے نہ ڈھانپا ہوتا اور کفار و مشرکین کو آپ ﷺ کے دیدار سے اندھا نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی شخص آپ ﷺ کی طرف ان دنیاوی اور کمزور آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا۔ اسی لیے امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت یوسفؑ کو حسن و جمال کا ایک جز عطا ہوا لیکن ہمارے آقاﷺکو کلی حسن عطا ہوا۔

سنن ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت انس فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا، وہ خوب صورت اور بہترین آواز والےتھے اور تمہارا نبی ﷺ ان سب میں سب سے زیادہ خوب صورت اور سب سے اچھی آواز والا ہے۔

مسلم کی روایت میں ہے: حضرت یوسفؑ کو نصف حسن سے نوازا گیا تھا، ابن المنیر نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ کو اس حسن کا نصف دیا گیا تھا جو آپ علیہ الصلاة والسلام کو دیا گیا تھا۔ یا یہ کہا جائے کہ خود متکلم اس میں داخل نہیں ہے، یعنی: حضور ﷺ کے علاوہ دیگر انسانوں میں حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ الصلاة کو نصف حسن دیا گیا تھا۔ اس کی تائید حضرت عائشہ صدیقہؓ کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں آپؓ نے فرمایا: حضرت یوسفؑ کا حسن دیکھ کر عورتوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں، اگر وہ آپ ﷺ کا حسن وجمال دیکھ لیتیں تو اپنے دل کاٹ لیتیں (خصائل نبوی، ص 16)۔

سرورِکائنات حضرت محمد ﷺ کے حسنِ سراپا کا ایک لفظی مرقع صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ ربّ العزت نے آپ ﷺ کو وہ حسن و جمال عطا کیا تھا کہ جو شخص بھی آپ ﷺ کو پہلی مرتبہ دور سے دیکھتا تو مبہوت ہو جاتا اور قریب سے دیکھتا تو مسحور ہو جاتا۔

نبی بے مثال ﷺ کے حسن و جمال کا ذکرِ جمیل حضرت عَمرو بن العاصؓ اِن اَلفاظ میں کرتے ہیں:

"میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ ﷺ سے حسین تر تھا، میں حضور رحمتِ عالم ﷺ کے مقدس چہرہ کو اُس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگر کوئی مجھے آپ ﷺ کے محامد و محاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا کیونکہ (حضور رحمت عالم ﷺ کے حسنِ جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپ ﷺ کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔

حضرت حسانؓ لکھتے ہیں کہ لما نظرتُ إلي أنواره ﷺ وضعتُ کفي علي عيني خوفاً من ذهاب بصري۔

"میں نے جب حضور ﷺ کے اَنوار و تجلیات کا مُشاہدہ کیا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس لئے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میں بینائی سے ہی محروم نہ ہو جاؤں"۔

محبین رسول اللہ ﷺ کا ایمان و عقیدہ تھا کہ جنابِ رسول اللہ ﷺ جیسا حسین و جمیل کوئی ہے ہی نہیں۔

صحابی رسول اور تاجدار دو عالم ﷺ کے درباری شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ نے اپنے قصیدۂ ہمزیہ میں جمال نبوت کی شان بے مثال کو اس شان کے ساتھ بیان فرمایا کہ:

وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ!

وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ

یعنی یا رسول اللہ!ﷺ آپ سے زیادہ حسن و جمال والا میری آنکھ نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں اور وہ اس لیے کہ آپ ﷺ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔

خُلِقْتَ مُبَرَّءًمِّنْ کُلِ عَیْبٍ!

کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ

(یا رسول اللہ! ﷺ)آپ ہر عیب و نقصان سے پاک پیدا کئے گئے ہیں گویا آپ ایسے ہی پیدا کئے گئے جیسے حسین و جمیل پیدا ہونا چاہتے تھے۔

حضرت علامہ بوصیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے قصیدۂ بردہ میں فرمایا کہ:

مُنَزَّہٌ عَنْ شَرِیْکٍ فِیْ مَحَاسِنِہٖ

فَجَوْھَرُ الْحُسْنِ فِیْہِ غَیْرُ مُنْقَسِمٖ

حضرت محبوب خدا ﷺ اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ اس معاملہ میں ان کا کوئی شریک ہی نہیں ہے کیونکہ ان میں جو حسن کا جوہر ہے وہ قابل تقسیم ہی نہیں۔

حضرت سَیِّدُنا جابر بن سَمُرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتےہیں: ایک مرتبہ میں نےرَسُوْلُ الله ﷺ کوچاندنی رات میں سُرخ (دھاری دار) حُلّہ پہنےہوئےدیکھا، میں کبھی چاندکی طرف دیکھتا اور کبھی آپ ﷺکے چہرۂ اَنور کو دیکھتا، تو مجھےآپ کا چہرہ چاند سے بھی زِیادہ خُوبصُورت نظر آتا تھا (سنن الترمذي)

ایک روایت میں حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے والد کے طریق سے اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ کرامؓ سے) فرمایا: تمہارے نزدیک ایمان کے لحاظ سے کون سی مخلوق سب سے محبوب ترین ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: فرشتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: فرشتے کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ وہ ہر وقت اپنے رب کی حضوری میں رہتے ہیں! اُنہوں نے عرض کیا: پھر انبیاء کرام۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اور انبیاء کرام کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے! اُنہوں نے عرض کیا: تو پھر ہم (ہی ہوں گے)۔ فرمایا: تم ایمان کیوں نہیں لائو گے جب کہ خود میری ذات تم میں جلوہ افروز ہے! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مخلوق میں میرے نزدیک پسندیدہ ترین ایمان ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد پیدا ہوں گے۔ کئی کتابوں کو پائیں گے مگر (صرف میری) کتاب میں جو کچھ لکھا ہوگا (بِن دیکھے) اُس پر ایمان لائیں گے۔

اس طرح متفق علیہ حدیث ہے کہ ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! تم لوگوں پر ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ تم مجھے دیکھ نہیں سکو گے لیکن میرا دیدار کرنا (اس وقت) ہر مومن کے نزدیک اس کے اہل و عیال اور مال سے زیادہ محبوب ہوگا۔

ہے کلامِ الٰہی میں شمس الضحے، ترے چہرۂ نور فِزا کی قسم

قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا، کہ حبیب کی زلفِ دوتا کی قسم

حبیب خدا ﷺ کے مرضِ وصال میں صحابہ کرامؓ حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں یہ شرف صرف جنابِ ابوبکر صدیقؓ کو حاصل تھا کہ وہ امامت کا حق ادا کریں، اس اثنا میں آپ ﷺ نے اپنے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرامؓ کی طرف نگاہ محبت سے دیکھا تو صحابہ کرامؓ نے آپ ﷺکے چہرہ مبارک کو ایسا پایا جیسا قرآن کا ورق۔ اس حدیث سے یہ واضع ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ ہر وقت بس جلوہ حبیب ﷺ کے دیدار کے لیے ترستے تھے اور نماز میں بھی دل و دماغ جناب رسولﷺ کی طرف لگے رہتے تھے اسی لیے انہوں نے دورانِ نماز میں ہی جان لیا کہ آقا کریم ﷺ نے نظر کرم فرمائی ہے

رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ، کہ اب ایسا دوسرا آئینہ

نہ ہماری بزمِ خیال میں، نہ دکانِ آئینہ ساز میں

اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہؓ سَحری کےوَقت کچھ سی رہی تھیں کہ اچانک ہاتھ سے سُوئی گِرگئی اور چَراغ بھی بُجھ گیا۔ اتنےمیں رَحمتِ عالم، نورِمجسَّم ﷺ تشریف لے آئے۔ چہرۂ اَنور کی روشنی سے سارا گھر روشن ہوگیا حتّٰی کہ سُوئی مل گئی۔ اُمُّ الْمؤمِنینؓ نےعرض کی: یَارَسُوْلَ اللہ ﷺ!آپ کاچہرہ کتنا روشن ہے۔ سرکارِ مدینہ ﷺ نےارشادفرمایا: وَیْلٌ لِّمَنْ لَّا یَرَانِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ یعنی اس شخص کےلیے ہَلاکت ہے جو مجھے قیامت کے دن نہ دیکھ سکےگا۔ عرض کی: وہ کون ہے جو آپ کو قیامت کے دن نہ دیکھ سکےگا۔ فرمایا: وہ بَخیل ہے۔ پوچھا: بَخیل کون؟ ارشادفرمایا: اَلَّذِیْ لَا یُصَلِّیْ عَلَیَّ اِذْ سَمِعَ بِاِسْمِیْ، جس نے میرا نام سُنا اور مجھ پر دُرُودِ پاک نہ پڑھا۔ (القول البدیع، الباب الثالث فی التحذیر من ترک الصلاۃ۔۔ الخ، ص302)

سُوزَنِ گُمشُدہ ملتی ہے تبسُّم سے ترے

شام کو صُبح بناتا ہے اُجالا تیرا