حضرت کعب بن مالکؓ اپنے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: (توبہ قبول ہونے کے بعد) جب میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا تو آپ ﷺ کا چہرئہ انور خوشی سے جگمگا رہا تھا اور حضور نبی اکرم ﷺ جب خوش ہوتے تو آپ ﷺ کا چہرئہ مبارک یوں نور بار ہو جاتا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپ ﷺ کے چہرہ انور کے چمکنے کی وجہ سے آپ ﷺ کے خوش ہونے کو جان جاتے تھے۔ " یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ اللہ کریم نے آپ ﷺ کے حسن و جمال کی حقیقت کے آگے ستر ہزار پردے رکھیں ہیں اور اگر ان میں سے ایک بھی پردہ اٹھ جائے تو حضور ﷺ کے حسن و جمال کی ایک تجلی کو سارا عالم دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔ شیخ عبدالحق دباق علیہ رحمہ جو امی ولی تھے، علم لدنی سے مالا مال تھے اور معرفت کے اعلی مقام پر فائز تھے فرماتے ہیں اگر حضور ﷺ کے حسن و جمال کے انوار عرشِ الہی پر جلوہ ریز ہوں توعرش الہی پگھل جائے، اور جو عرش الہی کے اوپر ستر حجاب ہیں ان پر یہ انوار تجلی کریں تو وہ حجاب ریزہ ریزہ ہو کر اون کی طرح ہو جائیں، اور اگر ساری مخلوق کو جمع کیا جائے اور پھر اس پر حضور ﷺ کے انوار کی ایک تجلی ڈالی جائے تو فرمایا اس حسن کے نور کی تجلی کوعالم پرداشت نہ کر سکے اور ریزہ ریزہ ہو کر فنا ہو جائے۔
خدا کی غیرت نے ڈال رکھے ہیں تجھ پہ ستر ہزار پردے
جہاں میں بن جاتے طُور لاکھوں جو اِک بھی اُٹھتا حجاب تیرا
رب، کائنات نے حضور ﷺ کے حسن و جمال کے سامنے ستر ہزار پردے رکھیں ہیں کہ مخلوقات کو دیدار کا شرف بھی مل جائے اور کائنات کا وجود بھی قائم و دائم رہے۔
اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو
ملا علی قاری رحمۃ ﷲ علیہ علماءِ محققین کے حوالے سے فرماتے ہیں:
أنَّ جمال نبينا ﷺ کان في غاية الکمال۔۔ لکن اﷲ سترعن أصحابه کثيرًا من ذالک الجمال الزاهر و الکمال البهر، إذ لو برز إليهم لصعب النظر إليه عليهم۔
"ہمارے نبی اکرم ﷺ کا حسن و جمالِ اَوجِ کمال پر تھا۔۔ لیکن ربِ کائنات نے حضور ﷺ کے جمال کو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر مخفی رکھا، اگر آپ ﷺ کا جمال پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا تو حضور ﷺ کے روئے تاباں کی طرف آنکھ اُٹھانا بھی مشکل ہو جاتا
ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ ایک دُوسرے مقام پر قصیدہ بُردہ شریف، کی شرح میں لکھتے ہیں:
"اگر خدائے رحیم و کریم حضور ﷺ کے اسمِ مبارک کی حقیقی برکات کو آج بھی ظاہر کردے تو اُس کی برکت سے مُردہ زندہ ہوجائے، کافر کے کفر کی تاریکیاں دُور ہوجائیں اور غافل دل ذکرِ الٰہی میں مصروف ہوجائے لیکن ربِ کائنات نے اپنی حکمتِ کاملہ سے حضور ﷺ کے اِس اَنمول جوہر کے جمال پر پردہ ڈال دیا ہے، شاید ربِ کائنات کی یہ حکمت ہے کہ معاملات کے برعکس اِیمان بالغیب پردہ کی صورت میں ہی ممکن ہے اور مشاہدۂ حقیقت اُس کے منافی ہے۔ حضور ﷺ کے حسن و جمال کو مکمل طور پر اِس لئے بھی ظاہر نہیں کیا گیا کہ کہیں ناسمجھ لوگ غلُوّ کا شکار ہوکر معرفتِ اِلٰہی سے ہی غافل نہ ہو جائیں۔
اللہ رے تیرے جسم منور کی تابشیں
اے جانِ جاں میں جانِ تجلا کہوں تجھے
بے داغ لالہ یا قمر بے کلف کہوں
بے خار گلبنِ چمن آراء کہوں تجھے
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
اِسی لئے حضور ﷺ نے اِرشاد فرمایا تھا: "اے ابوبکر! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے ﷺ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میری ﷺ حقیقت میرے پروردگار کے سوا کوئی دُوسرا نہیں جانتا"۔ محمدفاسي، مطالع المسرات: 129
امام ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: "جس کسی نے حضور ﷺ کے اَوصاف بیان کئے بطور تمثیل ہی کئے ہیں، اُن ﷺکی حقیقت اللہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا
امام علی بن برہان الدین حلبی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: "حضور ﷺ کی صفاتِ ظاہرہ کے حقائق کا اِدراک بھی ممکن نہیں۔
اِمام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں: "یہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ اِیمان کی تکمیل کے لئے (بندۂ مومن کا) یہ اِعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو حضور ﷺ سے پہلے اور نہ بعد میں ہی کسی کو آپ ﷺ کی مثل حسین و جمیل بنایا۔
دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے، جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں، اے ابد کے حسیں، تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں
کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی، زلفِ تاباں حسیں رات معراج کی
"لیلۃُ القدر" تیری منور جبیں، تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں
رب کائنات نے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے نور کو سب سے پہلے خلق کیا اور اس نور سے باقی تمام کائنات کا ظہور ہوا۔ ساری نسلِ انسانی اور جنات کی جنس مل کر جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کے حسن و جمال اور کمالات کو لکھنا شروع کرے تو وہ کبھی لکھ ہی نہیں پائے گی کیونکہ اللہ کریم نے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے حسن و جمال کو اس کائنات پر ظاہر ہی نہیں کیا اور اگر آپ کے حسن و جمال کی ایک جھلک اس کائنات پر ظاہر کر دی جائے تو یہ کائنات ریزہ ریزہ ہو جائے۔ اسی لیے اللہ کریم کی حکمت یہی تھی کہ وہ آقا کریم ﷺ کے حسن و جمال کو پردوں میں چھپائے رکھے تاکہ نظامِ کائنات درہم برہم نہ ہو۔ چاند ستاروں کا وجود قائم رہ سکے، زمین و سماوات اپنی حدود سے تجاوز نہ کر جائیں، جن و بشر تباہ برباد نہ ہو جائیں، کہ قیامت، قیامت سے پہلے ظہور نہ ہو جائے۔ اللہ نے کوئی آنکھ پیدا ہی نہیں کی جو سید الانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کے حسن و جمال کی تاب لا سکے۔
وہ کمالِ حسن حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
علامہ اقبالؒ یوں بیان فرماتے ہیں:
رخِ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ اَب ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کے چشم و خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
ایک عربی شاعر نے بھی مدحت رخِ مصطفیٰ کا عجیب مضمون باندھا ہے
وجہک المحمود حجتنا یوم یأتي الناس بالحجج
یعنی چہرۂِ ساقی کوثر بروزِ محشر ہمارے لیئے بہت بڑی دلیل کا کام دے گا، جس دن لوگ اپنی اپنی دلیلیں لے کر حاضر ہوں گے۔
حضور پْر نور ﷺ جب مکّہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ علاقہ (خصوصاََ خواتین اور ننھی ننھی بچیوں) نے جو اشعار گاکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا والہانہ استقبال کیا تھا، وہ درج ذیل ہیں۔
طَلَعَ الْبَدرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیّاتِ الْودَاعٖ
وَجَبَ الشّْکرُ عَلَیْنا
مَا دَ عَا لِلّٰہِ دَا عٖ
ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوگیا (یعنی حضور پْر نور ﷺ مدینہ منّورہ میں تشریف لے آئے)۔ ہم پر (خدا کا) شکر لازم ہے، جب تک اللہ کو پکارنے (دعا کرنے) والا کوئی بھی اْسے پکارتا رہے۔ (یعنی اس احسانِ عظیم پر واجب ہے کہ ہم ابدالآسباد تک خدا کا شکر ادا کرتے رہیں۔)
بحیثیت مسلمان ہم سب کا فرض ہے کہ سید الانبیاء ﷺ کے خصائص و کمالات کا خوب خوب ذکر کریں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی پکی سچی اطاعت کریں کہ اصل نجات اطاعتِ رسول ﷺ اور محبتِ رسولﷺ ہی ہے۔ اللہ کریم ہمارہ خاتمہ ایمان پر فرمائے اور بجانب آخرہ جنابِ محمد رسولﷺ کا ساتھ اور قرب نصیب فرمائے اور قبر میں پیارے پیارے آقا کریم جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی معرفت و پہچان کروائے تاکہ آخروی نجات کا وسیلہ بنے۔