1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. اعجاز مقبول/
  4. عَبْدُہُ (3)

عَبْدُہُ (3)

عبد شفاعت کا طالب، اسے شفاعت کی ضرورت ہے اور عبدہ وہ جس کو شفاعت کرنے کی اجازت ہو، عبد کو نجات کی تلاش ہے، عبدہ راہِ نجات ہے، عبد بھٹکا ہے عبدہ راہ دکھانے والا ہے، عبد عاجز ہے، عبدہ عاجز کرنے والا ہے، عبد کو ہدایت و رہنمائی چاہیے، عبدہ رہنمائی فرمانے والا ہے۔

عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا۔ (بني اسرائيل)

یقیناً آپ ﷺ کا رب آپ ﷺ کو مقامِ محمود (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ ﷺ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے) پر فائز فرمائے گا۔ علماء کرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ قیامت کا ظاہر ہونا ہی اسی لیے ہے کہ شانِ محبوبِ ربانی جنابِ محمد رسول اللہ ﷺ کی شان و شوکت دکھائی جائے۔

زلف لہراتے ہوئے جب آئیں گے وہ

پھر قیامت میں بھی ایک اور قیامت ہوگی

عبدہ وہ ہے جو اپنے نفس سے بولتا ہی نہیں، وہ عبدہ ہی ہے جس کی ہر ہر بات، ہر ہر ادا، ہر ہر امر، حکمِ ربی ہوتا ہے۔

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ () اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ۔

اور وہ (ﷺ) کوئی بات خواہش سے نہیں کہتے۔ وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔

وہ دہن جس کی ہر بات وحیِ خدا

چشمہء علم و حکمت پہ لاکھوں سلام

وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں

اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام۔

آپ ﷺ کا کلام سن کر ہزار دشمنی کے باوجود ان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے واللہ سمعت قول الکھنۃ و قول الشعراء فما سمعت مثل ھولاء الکلمات۔

عبدہ وہ ہے جس کی دہنِ مبارک سے موتی و جواہر نکلیں، پھول کلیاں جس کی میٹھی میٹھی آواز میں کھل اٹھیں، انا فصح العرب بعشت بجوامع الکلم بعشت میں سب سے فصیح و بلیغ عربی ہوں اور جامع کلمات دیگر بھیجا گیا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا حضور! ﷺ میں عرب کے تمام شہروں میں پھرا ہوں مگر آپ ﷺ جیسا فصیح و بلیغ کوئی نہ دیکھا فرمایا ایسا کیوں نہ ہو "ادبنی ربی" میرے رب نے مجھے سکھایا ہے (خصائص)۔

سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ، لِنُرِیَہ، مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہ، ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔

پاک ہے جو لے گیا اپنے (خاص ﷺ) بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف جس کے آس پاس ہم نے (بہت) برکت نازل فرمائی۔ تاکہ ہم (اپنے) اس (بندہ خاص ﷺ) کو اپنی قدرت کی (خاص) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔

عبدہ، قربِ الٰہی کا وہ بلند ترین مقام ہے جہاں بندہ اپنے تعینات کو معدوم پا کر جلوہ معبود میں محو ہو جاتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر رَسُوْلِہٖ وَ نَبِیِّہٖ نہیں فرمایا بلکہ بعبدہٖ فرمایا۔ معراج کے بیان میں عبدہٖ فرما کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرما دیا کہ باوجود اس قربِ عظیم کے جو شب معراج میں میرے حبیب ﷺ کو حاصل ہوا وہ میرے خاص عبدہ ہی ہیں معبود نہیں۔

حضور نبی اکرم نورِ مجسم سید عالم جنابِ محمد شفیع الامم، تاجدارِ عرب و عجم ﷺ کے خصائص و کمالات اور روشن ترین معجزات و کرامات سے یہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو فضیلت اسراء اور معراج سے وہ خصوصیت و شرافت عطا فرمائی جس کے ساتھ کسی نبی اور رسول کو مشرف و مکرم نہیں فرمایا اور جہاں اپنے محبوب ﷺ کو پہنچایا کسی کو وہاں تک پہنچنے کا شرف نہیں بخشا۔

اللہ کریم نے ساری کی ساری مخلوقات کو تخلیق کیا اور سب اسی ایک واحد لاشریک کے سامنے عاجز ہیں، تمام مخلوقات عبد ہیں لیکن عبدہ کا شرف صرف آپ ﷺ کے لیے خاص کر دیا، اللہ کریم نے جیسا شرف سیدالانبیا ﷺ کو عطا فرمایا، اس جیسا کمال، اس جیسا عروج، کسی اور کو نہ کبھی عطا کیا اور نہ عطا کیا جائے گا کیونکہ موسیٰؑ کلیم اللہ ہیں، سیدنا اسماعیلؑ ذبیع اللہ ہیں، سیدنا جد امجد ابراہیمؑ خلیل اللہ ہیں، جنابِ سیدنا عیسیٰ علیہ سلام روح اللہ ہیں۔

سب کی فضلیتیں کمال سے بھی کمال ہیں، سب کی رفعتیں اعلیٰ سے بھی اعلیٰ ہیں، سب کی عزمتین بلند و بالا ہیں لیکن جو رفعتیں، جو کمالات، جو عروج، جو خصائص خالقِ کائنات نے اپنے بندہ خاص ﷺ (عبدہ) کو عطا کیں اس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی کیونکہ خالق و مالک نے جناب سیدنا و مولانا نورِ مجسم ﷺ عبدہ کی کامل ترین صفات اور محبوبیت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائض کیا۔

یہاں رفرف آپ کے زیرِ پا، وہاں سب حجاب دئیے اُٹھا

چلی آرہی تھی یہی صدا، کہ قریب آ مِرے مصطفٰے

کر رہے تھے یہ گفتگو

بلغ العلے بکمالہ

تھی روشنی سے بھری فضاء

جہاں تک اٹھتی تھی نگاہ

آتی تھی ہر سو یہ صدا

کشف الدجی بجمالہ

بلبل بھی اپنے شوق میں

ڈالے ہوئے گل طوق میں

کہتی تھی اپنے ذوق میں

حسنت جمیع خصالہ

چڑیوں کے سن کر چہچہے

انسان بھلا کیوں چپ رہے

لازم ہے اس پر یوں کہے

صلو علیہ والہ

پہنچے بلندیوں پہ، وہ ﷺ اپنے کمال سے

چھٹ گئے اندھیرے آپ ﷺ کے حسن و جمال سے

آپ کی سبھی عادات مبارکہ اور سنتیں بہت پیاری ہیں

آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل پر سلام ہو۔

آپ ﷺ نے نفلی روزے رکھنا شروع کیے تو چونکہ صحابہ آپ ﷺ کی ہر ادا کو کاپی کرنے کی کوشش کرتے تھے، اسی لیے سیدِ عالم محمد رسول اللہ ﷺ کی مبارک اداؤں کو دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین بھی وہی عمل کیا کرتے تھے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: نَهَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَنِ الْوِصَالِ، قَالُوا: إِنَّکَ تُوَاصِلُ، قَالَ: إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَی۔ مُتَّفَقٌٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيُِّ۔

حضرت عبدﷲ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے صومِ وِصال (سحری و اِفطاری کے بغیر مسلسل روزے رکھنے) سے منع فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں ہرگز تمہاری مثل نہیں ہوں، مجھے تو (اپنے رب کے ہاں) کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠۔

(ظاہراً لباص بشری مِیں، مَیں) تمہاری طرح ایک بشر ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔

لَسْتُ کَاَحَدِکُمْ اَنِّیْ اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِیْ" میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں اپنے رب کے ہاں رات بسر کرتا ہوں وہ مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے۔

جس کو کھانے کی حاجت ہو وہ عبد اور جس کو رب کھلائے وہ عبدہ ہے۔

ترا مسندِ ناز ہے عرشِ بریں تِرا محرمِ راز ہے روحِ امیں

تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم

اسی بابت احمد رضا علیہ رحمہ کا ایک مشہور کلام ہے۔

لَم یَاتِ نَظیرُکَ فِی نَظَر مثل تو نہ شد پیدا جانا

جگ راج کو تاج تورے سر سوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا۔

آپ کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ ہی آپ جیسا کوئی پیدا ہوا۔ سارے جہان کا تاج آپ کے سر پر سجا ہے اور آپ ہی دونوں جہانوں کے سردار ہیں۔

اَلبحرُ عَلاَوالموَجُ طغےٰ من بیکس و طوفاں ہوشربا

منجدہار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیا پار لگا جانا۔

دریا کا پانی اونچا ہے اور موجیں سرکشی پر ہیں میں بے سر و سامان ہوں اور طوفان ہوش اُڑانے والا ہے۔ بھنورمیں پھنس گیا ہوں ہوا بھی مخلالف سمت ہے آپ میری کشتی کو پار لگا دیں۔

یَا شَمسُ نَظَرتِ اِلیٰ لیَلیِ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی

توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہونا جانا۔

اے سورج میری اندھیری رات کو دیکھ تو جب طیبہ پہنچے تو میری عرض پیش کرنا۔ کہ آپ کی روشنی سے سارا جہان منور ہوگیا مگر میری شب ختم ہو کر دن نہ بنی۔

لَکَ بَدر فِی الوجہِ الاجَمل خط ہالہ مہ زلف ابر اجل

تورے چندن چندر پروکنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا۔

آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند سے بڑھ کر ہے آپ کی زلف گویا چاند کے گرد ہالہ (پوش) ہے۔ آپ کے صندل جیسے چہرہ پر زلف کا بادل ہے اب رحمت کی بارش برسا ہی دیں۔

انا فِی عَطَش وّسَخَاک اَتَم اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم

برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا۔

میں پیاسا ہوں اور آپ کی سخاوت کامل ہے، اے زلف پاک اے رحمت کے بادل۔ برسنے والی بارش کی ہلکی ہلکی دو بوندیں مجھ پر بھی گرا جا۔

یَا قاَفِلَتیِ زِیدَی اَجَلَک رحمے برحسرت تشنہ لبک

مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا۔

اے قافلہ والوں اپنے ٹھہرنے کی مدت زیادہ کرو میں ابھی حسرت زدہ پیاسا ہوں۔ میرا دل طیبہ سے جانے کی صدا سن کر گھبرا کر تیز تیز دھڑک رہا ہے۔

وَاھا لسُویعات ذَھَبت آں عہد حضور بار گہت

جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینہ کا جانا۔

افسوس آپ کی بارگاہ میں حضوری کی گھڑیاں تیزی سے گزر گئی۔ مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب میں سفر کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر مدنیہ آ رہا تھا۔