1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. اعجاز مقبول/
  4. عَبْدُہُ (4)

عَبْدُہُ (4)

اَلقلبُ شَح وّالھمُّ شجوُں دل زار چناں جاں زیر چنوں

پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا۔

دل زخمی اور پریشانیاں اندازے سے زیادہ ہیں، دل فریادی اور چاں کمزور ہے۔ میرے آقا میں اپنی پریشانیاں کس سے کہوں میری جان آپ کے سوا کون ہے جو میری سنے۔

اَلروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا

مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا۔

میری جان آپ پر فدا ہے، عشق کی چنگاری سے مزید بڑھا دیں۔ میرا جسم دل اور سامان سب کچھ نچھاور ہوگیا اب اس جان کو بھی جلا دیں۔

عبدہ ایک وہی نجات کا منبع ہے، جو ساری انسانیت کیلیے رہبرِ کامل ہے، جن کا فیض ساری مخلوقات پر ہمہ وقت برستا ہے، جن کی رحمت کا تذکرہ برہانِ مجید کرے، جن کے چرچے عرش و فرش پر ہوں وَمَأ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ "اور (اے رسولِ محتشم ﷺ!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ "(الانبياء، 21: 107)

عبدہ وہ ہے جو شفیق و مہربان ہو، عبدہ کی رحمت نے ساری انسانیت کو گھیر رکھا ہے۔

لَقَدْ جَأءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَؤُفٌ رَّحِيْمٌ۔

"بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔ " (التّوبة)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللہِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللہِ عَظِيمًاo

اے ایمان والو! نبیِّ (مکرّم ﷺ) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہو جایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔

یقیناََ تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبیِّ (اکرم ﷺ) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (اَزواجِ مطہّرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لیے اور ان کے دلوں کے لیے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لیے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ (ﷺ) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد اَبد تک اُن کی اَزواجِ (مطہّرات) سے نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہے۔ " (الأحزاب، 33: 53)

حضرت حسان بن ثابتؓ نے کتنا پیارا کلام کہا

وضم الا لہ اسم النبی الیٰ اسمہ

اذ قال فی الخمس المؤذن اشہد۔

اللہ نے اپنے نام کے ساتھ ان کے نام کو جوڑ دیا ہے جبکہ پانچ وقت مؤذن اشہد کہتا ہے۔

وشق لہ من اسمہ لیجلہ

فذو العرش محمودٌ و ہذا محمد۔

اللہ نے ان کا نام ان کے اِجلال کیلئے اپنے نام سے مشتق کیا ہے جو صاحب عرشِ محمود ہے اور یہ محمد ہیں۔

عبدہٰ کو عرش کی شہنشاہی عطا ہوئی۔ عبدہٰ کی عظمت و فضلیت افلاک کی بلندیوں اور وسعتوں پر محیط ہے۔ اس نسبت سے عبدہٰ نے آسمان کو بھی عزت و شرف بخشا اور اسکی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگیا۔ لیکن زمین مستقل طور پر آستانہء نبوت پر سر نیا زخم کئے ہوئے ہیں چنانچہ بارگاہء نبوت نے زمین کی شان کو بھی دوبالا کر دیا۔ ارض و سماں عبدہٰ کی عنایات سے بیگانہ نہیں وہ شب و روز "التفات یک نگاہ" کے منتظر رہتے ہیں۔ اور عبدہٰ کی حمد و ثنا میں رطب السان ہیں۔ عبدہٰ نے ارض و سماں کی ان رنگینوں اور رعنائیوں کو خوبتر اور خوشتر بنا دیا۔

عبد کا مقام اور ہے۔ عبدہٰ کا مقام و مرتبہ اور ہے۔ عبد مقام بندگی پر فائز ہے۔ عبدہٰ مقام عاشقی پر جلوہ افروز ہے۔ عبد عبدہٰ کی راہبری اور راہنمائی کا محتاج ہے۔ عبدہٰ ہر راہی کے لئے مقام اور منزل ہے۔ عبدہٰ کی منزل عرش معلیٰ ہے۔ عظمت آدم نے عرشِ بریں کا سفر پل بھر میں طے کیا۔ خلوت نشینی کی لذتوں نے عبدہٰ کے دل میں دیدار الہیٰ کی طلب و جستجو پیدا کی۔ طلب دیدار حق شدید تر ہو کر تڑپ بن گئی۔ ربِ کائنات کی طرف سے پیام بھی آیا۔ عبدہٰ نے یہ سفر بھی کامیابی سے طے کر لیا۔

اس کے نتیجہ میں عبدہٰ پر مکان و لامکان کے از آشکارہ ہو گئے۔ عرش بریں کی جلوت گزینیوں نے عبدہٰ کو قربِ الٰہی عطا کیا۔ "حضوری" عروجِ عظمتِ آدم پر جلوہ گر ہوئی۔ عبدہٰ نے نورِ ذات حق سے اپنی ذات کا خود مشاہدہ کیا۔ ایسا مشاہدہ ہی حقیقی زندگی کا شاہکار ہے۔ حضور ﷺ تجلیاتِ ذات سے فیضاب ہوئے "مصطفیٰ راضی نہ شد الا بذات" عرشیاں بھی دیدار نبیؐ کریم ﷺ کے لیے بیتاب تھے۔ حسنِ مصطفیٰ ﷺ نے عرشیوں کو بھی تب و تابِ جاودانہ سے سرفراز کیا۔ علامہ اقبال نے دلپذیر انداز میں"عبد" اور"عبدہٰ" کے مراتبات کو یوں اجاگر کیا۔

عبد دیگر عبدہٰ چیزے دیگر

ماسراپا انتظار او منتظر!

عبدہٰ کا حسن و جمال کائنات کی دلکشی اور خوبصورتی کا سرچشمہ ہے۔ کائنات بھی اس حقیقت سے بے نیاز نہیں۔ اس کا ذرہ ذرہ شب و روز عبدہٰ سے اپنی نیاز مندی کا اظہار کر رہا ہے۔ اور عبدہٰ کی شفقت پر نازاں ہے۔ آسمان کا جاہ و جلال حضور ﷺکی قدم بوسی کا مرہون منت ہے۔ ارض و سماں عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے سرشار ہے۔ یہ جذبہ ہر دم مدارش میں رہتا ہے۔ اور کائنات کو تب و تاب عطا کرتا ہے۔

اسی جذبہ نے خاک کو ہمدوش ثریا بنا دیا اور کائنات بالا ہو کر فلک پیما ہوگئی۔ اللہ کریم نے نور کے پیکر، روحِ مقدسہ کو اپنی ذاتِ جلا جلالہ کے عین سامنے ایک خاص مقام میں لاکھوں سال محفوظ رکھا اور ہر ہر نبی و رسول صلاة ولسلام سے ظہورِ انسانی سے قبل ایک اجتماعی خلف لیا کہ جب میرا بندہء خاص کا ظہورِ جمالی و بشرِی ہو تو میرے بندہ خاص پر ایمان لایا جائے اور اس اعلیٰ و بالا کی مدد و نصرت بھی کی جائے۔

اللہ ربِ کائنات نے عالمِ ارواح میں تمام انبیاء کرام اور اس کے ساتھ ساتھ تمام نوع انسانی سے خلف اسی لیے لیا تاکہ حجت قائم ہو جائے تاکہ گمراہوں کے پاس کوئی خیلہ و بہانہ نہ رہے۔ تمام نوع انسانی سے حلف لینا ہی عبد اور عبدہ کے درمیاں فرق کی لکیر کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح اس شبِ معراج عبدہ کو عبدیت کے اعلیٰ ترین اعزاز "اعزازِ امامت" سے نوازہ گیا۔

حدودِ مکان و زماں کی حدیں آپ کے مبارک قدمین شریفین نے لمحوں میں سمیٹ لیں، خالق نے ربوبیت کے پردہء راز جنابِ رسول اللہ ﷺ پر اشکار کر دیے، ربوبیت نے خالقیت کا حق ادا کر دیا اور محبوب نے محبوبیت کا۔ اللہ جلا شانہ تمام انبیاء و ملائک کے سارے کے سارے وصف یکجا کرکے اپنے بندہ خاص (عبدہ و رسول) میں جمع فرما دیے، آپ ﷺ کو اکمل و اکرم اعلیٰ اولیٰ، جیسے اوصافِ کلی سے نوازا گیا۔

حسنِ یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری۔

حسنِ یوسف پہ کٹی تھیں وہاں انگشتِ زناں اور یہاں سر کٹانے کو پھرتے مردانِ عرب۔ صحابہ کرام رضون اللہ اجمعین نے جب دیکھا کہ درخت و حجر آپ ﷺ کو سجدہ کرتے ہیں تو صحابہ کے دل بھی مچلے مگر حدود و قید کی گرہیں شریعت کی پابند ہیں چنانچہ دل کہتا تھا کہ گر جا یہی در درِ شاہا ہے، آنکھ کہتی تھی جھک جا یہی حاصل و ماویٰ ہے، عقل جھکنے نہیں دیتی کہ غیرِ شریعت خلافِ اولیٰ ہے، عشق، عقل کے دائروں سے ماورا ہے۔ کسی شاعر نے بڑی بات کہی ہے۔

چشمِ آبرو ہے کہ محرابِ حرم

جی میں آتا ہے کہ سجدہ کیجیے۔

چونکہ موضوع بہت طویل ہے اور اگر ساری کی ساری انسانیت سیدنا و مولانا جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی ثناء بیان کرنے لگے تو کبھی یہ حق ادا نہیں کر سکتی کیونکہ جن کا ذکر ربِ کائنات کرے، جن کے درِ اقدس پر صبح و شام ستر ستر ہزار ملائک سلام کریں انکی شانِ بیان کرنا مخلوقات کے دائرہ اختیار میں نہیں، آپ ﷺ جیسا نہ کسی نے دیکھا نہ رب نے بنایا، خدا نے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کی مرضی کے عین مطابق تخلیق کیا، آپ کو منبع نجات بنایا، سراپا حسن و کمالات بنایا۔

تحریر کا اہتتام میں اپنے ہی ایک شعر سے کرتا ہوں۔

تو حسنِ کمالات جواہر کا نمونہ

انسان کے لیے آیا تو انسان مکمل۔