1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اعجاز مقبول/
  4. مُشْتَری ہوشْیار باش (2)

مُشْتَری ہوشْیار باش (2)

سلفی ارشادِ ربانی ہے! دنیا کی زندگی کی مثال تو بالکل بارش جیسی ہے جسے ہم آسمان سے برساتے ہیں، پھر اسی سے زمین کا سبزہ اور روئیدگی مل جل کر وہ چیزیں اگتی ہیں جو انسان بھی کھاتے ہیں اور چوپائے بھی یہاں تک کہ جب زمین سرسبز ہوگئی آراستہ ہوگئی اور وہاں کے رہنے والوں نے اندازہ لگا لیا کہ اب ہم نفع پانے پر قادر ہو گئے کہ ناگہاں ہمارا حکم اس پر رات کو آ پہنچا ہم نے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا، اس طرح سے کہ گویا کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ غور و فکر کرنے والوں کے لئے ہم اسی طرح سے اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان فرما دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف بلانا چاہتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست پر لاکھڑا کر دیتا ہے۔ (سورۂ یونس)

محبت دنیا کا سودا، زوالِ آخرت کا سودا ہے، تکبر، خرص منافقت انسان کو راہ خدا سے بھٹکا دیتی ہے، نجات اس میں ہے کہ انسان تدبر و غرور فکر کرے اور دنیا کی اصل کو دیکھے، دنیا کی اصل دھوکہ و فریب کے سوا کچھ بھی نہیں، خوابِ غفلت انسانی بربادی کا سبب ہے۔ روئے زمین پر ان گنت اقوام آئیں، انگنت بادشاہ و ظالم آئے، جابر و رحم دل آئے، نوشیرواں آئے، نجاشی آئے، لیکن دنیا کی لزتوں نے سب کو خاک میں ملا دیا، سب افسانوی قصے کہانیوں کی نظر ہو گئے، یاد اسی کی سلامت رہی جو خُود دنیا سے بیگانہ ہو کر آخرت کی لگن میں ڈوب گیا، یہ دنیا صرف دردمندوں کو تو یاد رکھتی ہے لیکن درد دینے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیتی ہے۔

دنیا کی محبت انسان کو ربّ کریم کی یاد سے غافل کر دیتی ہے اور وہ اس کے حصول کے لئے جائز ناجائز حرام حلال کی تمیز بھلا بیٹھتا ہے نتیجتاً چند روزہ آسودگی تو شاید اسے حاصل ہو جائے، مگر آخرت کی ناکامی و نامرادی اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ دنیاوی لذات کی حقیقت کیا ہے؟ جس کے لئے ہم رات دن ایک کئے دیتے ہیں اور تمام شرعی و اخلاقی حدود پامال کر دیتے ہیں حدیث مبارکہ میں بڑی وضاحت سے اس کی قلعی کھول دی گئی ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں حدیث مصطفیٰ ﷺ ہے کہ قیامت والے دن ایک بڑے دنیا دار کروڑ پتی کو جو ہمیشہ ناز و نعمت ہی میں رہا، اسے جہنم میں ایک غوطہ دے کر پوچھا جائے گا کہ بتاؤ تمہاری زندگی کیسی گزری؟ وہ جواب دے گا، میں نے تو کبھی کوئی راحت دیکھی ہی نہیں، کبھی آرام و سکون کا نام بھی نہیں سنا۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص کو جس پر دنیا کی زندگی میں آرام کی ایک گھڑی بھی نہیں گزری تھی لایا جائے گا اور اسے جنت میں غوطہ لگا کر پوچھا جائے گا۔ بتاؤ دنیا میں کیسے رہے؟ وہ جواب دے گا کہ پوری عمر میں نے کبھی رنج و غم کا نام بھی نہیں لیا کبھی دکھ اور تکلیف کو دیکھا ہی نہیں۔

اے انسان نکل آ اس وہم سے کہ تو جو بھی کرے، تجھے سب جائز ہے، تو نافرمانیوں، بددینیوں، بداعمالیوں، میں عمر گزارے اور تجھے آخر میں چھوڑ دیا جائے گا، بڑا بدنصیب ہے ایسا شخص جس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا، وہاں کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا، وہاں کوئی بیٹا، کوئی بیٹی، کوئی باپ، کوئی ماں، نہ دوست، نہ بھائی، کوئی کسی کے کام نہیں آ سکے گا۔ ارشاد ربانی ہے: "اے انسان کیا تو سمجھتا ہے کہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟"

اے انسان توں کیوں ذلالت کا سودا کر رہا ہے؟ کیوں اپنا انجام بھول بیٹھا ہے؟ رونقِ دنیا میں مقامِ دنیا بھول گیا ہے، محبتِ دنیا چھوڑ دے، گمراہی چھوڑ دے، دنیا کے کاروبار میں پھونک پھونک کر پاؤں رکھنے والے، تجھے کس چیز نے غفلت میں ڈال رکھا ہے؟ دنیا کی مثال ایک حدیث سے واضح کرتا چلوں: روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ بازار میں تشریف لے جا رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بھی ہمراہ تھے۔ آپ ﷺ کا گزر بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس سے ہوا جس کے چھوٹے چھوٹے کان تھے۔ آپ ﷺ نے اس کے کان کو پکڑ کر فرمایا۔

اس مرے ہوئے بکری کے بچے کو ایک درہم میں لینا کون پسند کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہم کسی حالت میں بھی اسے لینا پسند نہیں کرتے اسے لے کر ہم کیا کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا پھر مفت ہی لے لو۔ لوگوں نے کہا، اگر یہ زندہ ہوتا، تب بھی عیب دار تھا، اس کے چھوٹے چھوٹے کان ہیں، اب اس مردہ بچے کو لے کر ہم کیا کریں گے؟ سرور عالم ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس مردہ لاش سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہے۔ (صحیح مسلم) پرہیزگار اور سمجھ دار لوگ اس دنیا کو سڑی گلی اور مردہ لاش جان کر اسے کسی طرح لینا پسند نہیں کرتے، بلکہ اس کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔

کیسے سمجھاؤں؟ سمجھ جاؤ! ابھی وقت ہے سنبھل جاؤ۔

ہؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گٔیٔ نوجواں کیسے کیسے

اجل نے ہے چھوڑا نہ کسریٰ نہ دارا

اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا

یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی

یہ دنیأے فانی ہے محبوب تجھ کو

ہؤی واہ کیا چیز مرغوب تجھ کو

نہی عقل اتنی بھی مجزوب تجھ کو۔

اے انسان تیرے رب کی پکڑ بڑی شدید ہے، اگر کوئی اس پکڑ میں آ گیا تو نجات کی کوئی راہ نہیں، کوئی چھڑانے والا نہیں، کوئی بچانے والا نہیں۔

ارشاد ربانی ہے: "یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی سو ان کی تجارت نے نفع نہ دیا اور ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔ "

حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے کہ انہوں نے ہدایت چھوڑ دی اور گمراہی لے لی۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں انہوں نے ایمان کے بدلے کفر قبول کیا۔ مجاہد فرماتے ہیں ایمان لائے پھر کافر ہو گئے۔ قتادہ فرماتے ہیں"ہدایت پر گمراہی کو پسند کرتے ہیں۔ " جیسے اور جگہ قوم ثمود کے بارے میں ہے آیت

(وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ)۔ (41۔ فصلت ;17)

یعنی باوجود اس کے کہ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت سے روشناس کر دیا مگر پھر بھی انہوں نے اس راہنمائی کی جگہ اندھے پن کو پسند کیا۔ مطلب یہ ہوا کہ منافقین ہدایت سے ہٹ کر گمراہی پر آ گئے اور ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی گویا ہدایت کو بیچ کر گمراہی خرید لی۔ اب ایمان لا کر پھر کافر ہوئے ہوں خواہ سرے سے ایمان ہی نصیب نہ ہوا ہو اور ان منافقین میں دونوں قسم کے لوگ تھے۔ چناچہ قرآن میں ہے آیت

(ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ) (63۔ المنافقون ;3)

یہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ ایمان لا کر پھر کافر ہو گئے پس ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ایسے بھی منافق تھے جنہیں ایمان نصیب ہی نہ ہوا پس نہ تو انہیں اس سودے میں فائدہ ہوا، نہ راہ ملی، بلکہ ہدایت کے چمنستان سے نکل کر گمراہی کے خارزار میں، جماعت کے مضبوط قلعہ سے نکل کر تنہائیوں کی تنگ جیل میں، امن کے وسیع میدان سے نکل کر خوف کی اندھیری کوٹھری میں اور سنت کے پاکیزہ گلشن سے نکل کر بدعت کے سنسان جنگل میں آ گئے۔

دوستو اس تحریر کا مقصد صرف یہی ہے کہ اپنا آپ پہچانیے، دنیا کی فریب کاریوں کو پہچانیے اور نیکیوں کی تجارت کیجیے، اللہ کریم ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت میں اپنی رحمتِ کاملہ سے کلی نجات دے۔