1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اعجاز مقبول/
  4. موذی جانور یا نفسِ امارہ (1)

موذی جانور یا نفسِ امارہ (1)

کسی شے کا مادہ یا تشریحات جاننے کیلیے اس شے کا اجمالاً جائزہ لینا ضروری ہے اور پھر مضمون کی مکمل اور کلی معارفت کیلیے مضمون کا مدعا مطلقاً جاننا بےحد ضروری امر ہے۔ موذی بمعنی ہلاک کرنے یا پھاڑ کھانے والا جانور یا پرندہ، بخیل، کنجوس، ظالم، جابر صفت، ایذا دینے والا، دکھ پہنچانے والا، تکلیف پہنچانے والا، جان کے لیے خطرناک، زہریلا، جان لیوا، مہلک، شریر، نٹ کھٹ کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جبکہ جانور اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ہی ماخوذ ہے اور اصلی حالت میں ہی بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اسمِ مذکر میں ذی روح، ذی حیات (انسان یا حیوان)، مجازاََ معنی میں وحشی، غیر مہذب، بے تمیز، احمق، بے وقوف وغیرہ اور حیوان ناطق میں (چرند، پرند، درندہ) وغیرہ کیلیے استعمال ہوتا ہے۔

سادہ الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی زی روح جس سے نقصان کا اندیشہ ہو یا جو نقصان کا سبب بنے اجمالاً موذی جانور کہلائے گا جیسا کہ سانپ، بچھو، شیر، بھیڑیا وغیرہ۔ قرآن حمید میں ربِ کائنات نے کفار کیلیے بھی جانور کا لفظ استعمال کیا ہے لہٰذہ یہاں جانور مجازی معنوں میں استعمال کیا گیا۔ ارشادِ ربانی ہے

"ان کے دل ہیں، لیکن ان سے سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں، لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ چوپائے کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔ یہ لوگ (اللہ سے) بےخبر ہیں"۔ (الاعراف:179)

مطلب کہ جب انسان اعضاء سے وہ کام لینا چھوڑ دے جس کے لیے وہ بنائے گئے ہیں تو پھر وہ اعضاء اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مثلاً دل کا کام بظاہر مختلف خلیات کو خون مہیا کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے چراغ کو روشن رکھنا ہے لیکن حقیقتاً ذکرِ الٰہی اور فکرِ الٰہی کا سامان مہیا کرنا ہے، آنکھیں دیکھنے کیلیے، کان حق بات سننے کیلیے، عقل تدبر اور غورو فکر کیلیے۔ اب جو شخص ان اعضاء سے کام نہ لیتے ہوئے انہیں بےکار بنا دیتا ہے تو ایسے لوگوں کو اللہ کریم نے جانور سے تعبیر کیا ہے۔

بلکہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ ساتھ ہی بات کی مذید وضاحت فرمائی کہ "بلکہ جانوروں سے بھی بدتر" جانوروں سے بھی بدتر (حد کے گمرہ اور نرے نقصان اٹھانے والے) ہیں۔ جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو برباد کر دیا۔ جانوروں سے بدتر اسی لیے فرمایا گیا کہ اللہ کریم نے جانوروں کے شعور میں عقلِ سلیم جیسی طبیعت نہیں رکھی اور وہ صرف محدود سوچ کے دائرہ میں قید ہوتے ہیں اسی لیے سزا اور جزا کا جو کنسیپٹ مذاہب میں ملتا ہے اس میں جانوروں کا شمار نہیں کیا جاتا کیونکہ سزا اور جزا کا دارومدار عقل اور شعور کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے، مادیت پرستی کی بہتاب عقلِ انسانی کا پیدا کردہ فطور ہے۔

دنیا کے ساتھ دین کی بیگار الاماں

انسان آدمی نہ ہوا جانور ہوا

چہ جائیکہ پڑھنے والے قارئین کو یہ بات مناسب نہ لگے لیکن مدعا قرآن بہت واضح ہے، آپ جتنے بھی مذاہب کا سرسری ہی جائزہ کیوں نہ لیں نیکی اور بدی کا تعارف بڑے فصیح و بلیغ انداز میں ملتا ہے۔ سود، زنا، قتل، چوری، جھوٹ، غیبت الخ تقریباً سب مذاہب میں یہ امر حرام و ناجائز کی انتہا کو پہنچے ہیں لہٰذہ اگر اسلام اور دوسرے مذاہب کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو سوائے احکامِ توحید و رسالت کے کلی احکامات اچھائی کی تلقین اور شر کی تردید ہی کرتے ہیں۔

جھوٹ و غیبت اسلام میں حرام ہیں تو عیسائیت میں بھی حرام ہیں، مذہب کا کوئی نہ کوئی سرا الہامی کتابوں سے ہی جڑا ملتا ہے، مذاہب سے بیزار لوگوں نے جہاں تک ہو سکا مذاہب کو نفس انسانی کے تحت بدل ڈالا، اصلاً توحید و رسالت کے احکامات بدل ڈالے لیکن چونکہ توحید و رسالت اللہ کریم اور اس کے انبیاء کا معاملہ تھا اسی لیے اقوام کی پکڑ دورِ انسانی میں کبھی بھی انکارِ توحید و رسالت نہیں ہوئی۔ فطرت انسانی جتنی بھی چوں چراں کر لے، کتنے ہی بدلاؤ دیکھے لیکن ربوبیت کی جڑین اپنے وجود سے کبھی نہیں اکھاڑ سکتی۔

لہٰذہ ہر صورت میں تھک ہار کر ربوبیت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہی پڑتا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ ماضی قریب میں کن کن مادی لوازمات کا شکار رہا ہے۔ ربوبیت کو ماننا بشریت کا خاصہ ہے کیونکہ ابوالبشر میں روح امر الٰہی کا سرچشمہ تھی تو اولادِ آدم کبھی بھی ربوبیت کو نہیں چھوڑ سکتی (ایتھیزم ایک علیحیدہ بحث ہے اور وہ سمندر میں قطرہ کے برابر)۔ نتیجتاً حاصل کلام یہی ہے کہ توحید کو ماننا لاشعوری طور پر بشریت کا خاصہ ہے۔

اب آتے ہیں مضمون کے اصل مدعا کی طرف، کیونکہ اوپر کا بیانیہ اور اس کا اجمالاً ذکر کرنا ضروری تھا۔ انسانیت کے ظہور سے پہلے اللہ کریم جلا شانہ نے ملائیکہ کو نور سے اور جنات کو آگ کے شعلہ سے تخلیق کیا۔ ملائیکہ چونکہ نور سے تخلیق ہیں اس لیے ان میں برائی کا نفس نہیں اور وہ حکمِ خدا کے پابند ہیں یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ وہ بدی کر ہی نہیں سکتے۔

جنات اس روئے زمین پر یا جہاں مشیعتِ خداوندی تھی لاکھوں سالوں تک حکومت کرتے رہے کیونکہ اللہ کریم نے ابوالجن کو یہ منصب عطا کیا تھا کہ پیغامِ خداوندی کو من و عن پہنچائے اور اس کو نافذ کرے لیکن چونکہ تخلیق کا مادہ آگ تھی، انہوں نے زمین پہ فساد شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں اللہ کریم نے انہیں زمین کی بادشاہت سے محروم کر دیا (جنات کے نشیب و فراز انسانیت کے ظہور سے پہلے کے معملات ہیں)، چنانچہ ربِ کریم نے انسانیت کی تخلیق کی خوشخبری سنا دی، لیکن چونکہ ملائیکہ حکمتِ باری تعالیٰ سے بے خبر تھے اور پھر وہ جنات کا عروج و زوال اور انکی شر انگیزیاں اور فسادات دیکھ چکے تھے اس لیے انہیں تخلیقِ انسانی پر بڑا تعجب ہو، ارشاد ربانی ہے۔

ترجمہ: اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب، کہا فرشتوں نے: کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے اس میں اور خون بہائے؟ اور ہم پڑھتے رہتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو، فرمایا: بے شک مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے اور سکھلا دیے اللہ نے آدم کو نام سب چیزوں کے، پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کو فرشتوں کے۔

پھر فرمایا: بتاؤ مجھ کو نام ان کے اگر تم سچے ہو، بولے پاک ہے تو، ہم کو معلوم نہیں، مگر جتنا تو نے ہم کو سکھایا، بے شک تو ہی ہے اصل جاننے والا، حکمت والا، فرمایا: اے آدم! بتا دے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام، پھر جب بتا دیے اس نے ان کے نام، فرمایا: کیا نہ کہا تھا میں نے تم کو کہ میں خوب جانتا ہوں چھپی ہوئی چیزوں کو آسمانوں کی اور زمین کی اور جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔ (البقرة:33-30)

پھر اللہ نے سیدنا اماں حواء کو آدمؑ کی پسلی سے پیدا فرمایا، جنت میں ٹھہرایا جانا پھر اس آرام دہ جگہ سے مشیعت الٰی سے زمین پر نزول کے واقعات اور نسلِ انسانی کا عروج، ایک طویل بحث ہے جس کا ذکر اس مضمون میں بے معنی ہے۔

شیطان چونکہ جنات کی جنس میں سے ہے اور وہ ایک لمبا عرصہ تک ملائیکہ کا سردار بھی رہ چکا تھا، جب اسے اپنی سرداری و خلافت جاتی ہوئی نظر آئی تو بجھی چنگاڑی کا بھڑک اٹھنا جناتی نفس میں رچا بسا تھا، چنانچہ جب تخلیقِ آدم ہوئی اور ملائیکہ اور ابلیس کو آدمؑ کو سجدہ کا حکم ہوا چنانچہ تمام ملائق بحکم خداوندی سجدے میں گر گئے اور رب کائنات کی پاکی بیان کی لیکن ابلیس نے سجدہ سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے اللہ رب کائنات نے قیامت تک کیلیے اس کیلیے زلالت لکھ دی اور وہ گمراہ ہوگیا، ارشاد ربانی ہے۔

اے ابلیس! تجھے کس (بات) نے روکا تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جبکہ میں نے تجھے حکم دیا تھا، اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے۔

یہاں ایک بات تو یہ سمجھئے کہ آدمؑ، کو تمام ملائکہ کے سجدے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا یہ صرف تعظیماً تھا؟ اور اگر تعظیماً تھا تو کیا آدم خاکی کی تعظیم مقصود تھی یا کسی اور شے کی تعظیم تھی؟ ارشاد ہے "پھر جب میں اس آدم کی تخلیق مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تب گر پڑنا اس کے سامنے سجدے میں"۔ چناچہ تعظیم اگر ہے تو آدم خاکی کی نہیں ہے، اس کے اندر موجود "روحِ رّبانی" کی ہے جسے خود خالق نے "مِنْ رُّوْحِیْ" سے تعبیر فرمایا ہے۔

دوسرے یہ کہ اس سجدے کی حکمت کیا ہے؟ اس کی علت اور غرض و غایت کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا، اس کائنات یعنی اس آفاقی حکومت کے کارندے تو فرشتے ہیں اور خلیفہ بنایا جا رہا ہے انسان کو۔ لہٰذا جب تک یہ ساری سول سروس اس کے تابع نہ ہو وہ خلافت کیسے کرے گا؟ جب ہم کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں اور کوئی فعل کرنا چاہتے ہیں تو اس فعل کے پورا ہونے میں، اس کے ظہور پذیر ہونے میں نامعلوم کون کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور فطرت کی کون کون سی قوتیں ہمارے ساتھ موافقت کرتی ہیں تو ہم وہ کام کر سکتے ہیں، اور ان سب پر فرشتے مأمور ہیں۔

ہر ایک کی اپنی اقلیم ہے۔ اگر وہ انسان کے تابع نہ ہوں تو خلافت کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ اسے خلافت دی گئی ہے، یہ جدھر جانا چاہتا ہے جانے دو، یہ نماز کے لیے مسجد میں جانا چاہتا ہے جانے دو، یہ چوری کے لیے نکلا ہے نکلنے دو۔ انسان کو جو اختیار دیا گیا ہے اس کے استعمال میں یہ تمام قوتیں اس کے ساتھ موافقت کرتی ہیں تب ہی اس کا کوئی ارادہ، خواہ اچھا ہو یا برا، پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔

جاری۔۔