1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. اعجاز مقبول/
  4. تنقید (1)

تنقید (1)

دورِ حاضر اور سنگین معاشی صورتحال کے پیشِ نظر بحیثیت پاکستانی، انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر شہری کی یہ سماجی اور معاشرتی ذمہ داری ہے کہ آئنِ پاکستان کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ملک و قوم بہتری و فلاح کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے وگرنہ شخصی ذمہ داریوں کا عدم فقدان اس بےیار و مددگار ڈوبتی ناؤ کو عنقریب کسی گہرے بھنور میں دھکیل دے گا۔ انفرادی سطح پر بغیر کسی مذہب و مسلک اور سیاسی وابستگی کو پسِ پردہ رکھ کر ہی زہرِ قاتل کا تریاق کیا جا سکتا ہے۔

شروعات قطرہ قطرہ سے ہوتی ہے اور سمندر بنتا ہے، ہمیں ہمارے اوپر نافذ قومی و معاشی ذمہ داریوں کو پہچاننا ہوگا کیونکہ قوم، ملک، سلطنت کا نعرہ فردِ واحد کا شیوہ ہے۔ افراد سے قوم اور قوم سے ملک و سلطنت ترتیب پاتے ہیں۔ نشیب و فراز جِبِلتِ انسانی کا پیدہ کردہ ہے، وقت اور رائے بدلتی ہیں، پالیسیاں بنتی ہیں، قوانین تبدیل ہوتے ہیں، وسائل و قلت معاشرتی ادوار کا حصہ ہیں، لیکن عقلِ انسانی ہر دور میں غلطی کھا جاتی ہے، کبھی سیاسی دھکم پیل تو کبھی بیرونی مداخلت عہدِ حاضر کی صورتحال کا پیدا کردہ جن ہے۔

توجہ طلب معاملات یہ نہیں ہیں کہ وطن عزیز کی موجودہ صورتحال پانچ دہائیوں کا ریکارڈ توڑ گئی اور سوال یہ بھی نہیں کہ کیوں پاکستان کی معاشی مندی اس نہج پر پہنچ گئی ہے، سوال یہ بھی نہیں کہ ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر اس کم ترین سطح پر کیوں آئے، مہنگائی کی شرح پچھلے تمام ریکارڈ کیوں توڑ گئی؟ ہمیں الزامات سے نکل کر اقدامات کی طرف آنا پڑے گا۔ ہر آئے دن نئے نئے آکڑے، نئے نئے تبصرے، نئی نئی پالیسیاں، آخر عملی جامہ کب اور کس نے پہنانا ہے؟ تنقید در تنقید ہماری روایات کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔

کون؟ کب اور کیسے کی بحث ٹی وی چینلز، ٹالک شوز اور اخبارات کی سرخیوں میں ہی اچھی لگتی ہے، حقیقتِ حال ایسی نہیں کہ مزید انتظار کیا جائے، ہمیں کون؟ کب اور کیسے کی پالیسی بدل کر "میں، آج اور ایسے" کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ غربت و افلاس کی چکی میں پستے ہوئے طبقے کی آنکھیں کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ حالات کا ذمہ دار کون ہے، جھگڑا پی ڈی ایم کا ہے یا پی ٹی آئی کا، وہ دستورِ پاکستان اور آئنِ پاکستان کے آرٹیکل پچیس کے تحت مساوی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

زرعی اور معاشی قوانیں کی صحیح معنوں میں تشریح اور انکا نفاذ موجودہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور یقیناً ہر گورنمنٹ کی حتی الامکان کوشش بھی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سہولیات دی جا سکیں تاکہ لوگوں کا مینڈیٹ حاصل کیا جا سکے۔ ان ساری کوششوں کے باوجود آخر وہ کون سے ایسے عوامل ہیں جن کی بناء پر نتائج اس قدر سنگین ہو جاتے ہیں کہ عام آدمی غربت کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔

میں وضاحت کرتا چلوں کہ موجودہ معاشی صورتحال میں ہر وہ فرد جو وہ تمام بنیادی ضروریات جو آئنِ پاکستان کے سیکشن پچیس نے دی ہیں سے محروم ہے عام آدمی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمیں ہر ایک کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ بحیثیت فرد ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں، کیا ہم میں ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے یا نہیں، کیا ہم ایک اچھے شہری ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں یا نہیں، ہم میں ہر ایک اپنے اندر ایک فرعون لیے پھرتا ہے۔

ہر کوئی اپنے اپنے عہدے اور اختیارات کے پیشِ نظر ملک و قوم کا سرمایا لوٹنے میں پیش پیش ہے، گوالے کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دودھ میں پانی ہے یا پانی میں دودھ، امراء کے حلال و حرام کے من گھڑک معنی، افسر شاہی میں رشوت کا نظام، کرپشن کو اوپر کی کمائی، عوامی سرمائے کا بےبجا استحصال، منصب و مذہب، سماج و معاشرہ، کس کس کا رونا روئیں گے؟ یہاں فتوے بکتے ہیں، دین بکتا ہے۔ جس ملک میں محراب و ممبر سے حیٰ الصلوٰة کی بجائے مسلک و مذہب کی تسبیح دہرائی جائے، آپ اس ملک کو ڈوبتا ہوا نہ دیکھیں تو کیا دیکھیں۔

عوامی سطح پر تنقید کرنا یا احتجاجی ماحول پیدہ کرنا یقیناً مثبت تنظیم سازی کیلیے ضروری ہے لیکن کیا ایسے جنونی رویے معاشی پستی کا باعث نہیں بنتے؟ اب ہمیں عیاشیوں سے نکل کر کچھ کڑوے اور تلخ فیصلے کرنے ہوں گے، لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ لوٹی ہوئی دولت کا حساب مہنگائی کی شرح کو بڑھا کر وصول کیا جائے، ہمیں آج جدت کی ضرورت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کیسے اچھے روزگار فراہم کریں، ہمیں بیورو کریسی میں اصطلاحات کرنی ہوں گی، ہمیں قانون سازی کرنا ہوگی۔ ایسا قانون جس میں غریب و امیر سب سے سوال کیا جا سکے نہ کہ ایسا قانون جو صرف غرباء سے حساب لے اور امراء کو بری کرے۔ ہمیں ہماری اسلامی روایات سے سبق لینا ہوگا۔ ہمیں ہلاکو خان نہیں، ہمیں صلاح الدین ایوبی چاہیے، ہمیں اپنی اصلاح کیلیے طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلانی ہوں گی، بیٹی کے ہاتھ کاٹنے پڑیں گے، بیت المال سے چلنے والا دیا ذاتیات کیلیے بجانا ہوگا۔

ہمیں خود کو شعور دینا ہوگا، ہمیں عوام الناس کو اچھے اور برے کی آگاہی دینا ہوگی، عمرانیات و لسانیات کی بجائے اخلاقیات کا پہلو اجاگر کرنا ہوگا، جب تک ہم اپنی بھولی بھالی عوام کو یہ شعور نہیں دیتے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے تب تک ہم کوئی قابلِ ذکر نتیجے حاصل نہیں کر سکتے لیکن ہمیں یہ سب اپنے آپ سے شروع کرنا ہے، ہمیں عوامی شعور جگانے کیلیے خود کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا، خود کو بدلنا ہوگا، ہمیں پہلے اپنے اخلاق و قدر کو مثال بنانا ہوگا ورنہ ہم سات دہایوں سے بھی پیچھے چلے جائیں گے۔ ابتداء اپنے گھر سے کرنی ہو ورنہ یہ آگ آخر ہمارے گھر تک بھی آئے گی۔

ہماری عدلیہ کو عدل کرنا ہوگا، انصاف و قانون کی بالادستی تسلیم کرنی ہوگی، سیاست دانوں کو ذاتی سیاسیات چھوڑنی ہوں گی، گالم گلوچ کے ماحول سے نکلنا ہوگا، اداروں کو اپنی حدود کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ دوسروں پر الزام تراشی کا نظریہ بدلنا ہوگا۔ اپنے کیے کا حساب خود سے لینا ہوگا، ہمیں اچھے سیاست دان نہیں ملے، اچھے وزیر نہیں ملے، اچھے جج نہیں ملے، اچھے وکیل نہیں ملے، اچھے قانون دان نہیں ملے، اچھی بیورو کریسی نہیں ملی۔

الزام در الزام! ہم میں کون ہے جو اپنے فرائض کو خوش اصلوبی سے ادا کرتا ہے، بحیثیت شہری ہم نے قانون کی کتنی پاسداری کی؟ بحیثیت ملازم ہم نے دفتری اوقات کو کتنا وقت دیا، بحیثیت تاجر ہم نے طلب و رسد میں کتنی لچک رکھی؟ اگر ہر شہری اپنی انفرادی سطح پر اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرے۔ اپنے دیے گئے فرائض و منصب کو خوش اصلوبی سے انجام دے۔

اگر ہم اپنی ذمہ داریاں سمجھ جائیں تو سیاست دان کیا کوئی بھی اس ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر غیروں سے کیسا شکوہ؟ قصور اپنے ہی گھر کا ہے۔ آئے روز ڈرا دینے والے آکڑے، لرزہ دینے والی خبریں۔ مہنگائی کا جن قد آور ہوتا جا رہا ہے، ہمارے معاشیات دانوں کے پاس تجزیے اور تبصرے کرنے کے علاوہ شاید کوئی حقیقی پلان نہیں ہے، ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ابھی اور مشکل فیصلے کرنے ہیں۔

جاری۔۔