1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عماد ظفر/
  4. وارداتئیے‎

وارداتئیے‎

وطن عزیز میں وارداتوں کا سلسلہ اول روز سے جاری ہے اور شاید ہمیشہ جاری ہی رہے گا۔ یہ وارداتیں عوام کو بنیاد بنا کر ایسٹیبلیشمنٹ، ملا اور دانشور نوسر باز ڈالتے ہی آئے ہیں۔ ان نو سر بازوں کا یہ اتحاد ہر ممکن طریقے سے وطن کے مستقبل تک کو بیچ کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ ان "وارداتیوں" کا یہ نیٹ ورک ایسٹیبلیشمنٹ، سرکاری منشیوں، صحافیوں، دانشوروں، عدلیہ کے چند بکاو ججوں، مفاد پرست سیاستدانوں، بزنس مین اور مولویوں پر مشتمل ہے۔ ان کا یہ اتحاد اس قدر حد تک خطرناک اور مضبوط ہے کہ وطن عزیز میں آج تک کوئی ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے پایا۔ کوئی ایک بھی عوامی رہنما یا سیاسی جماعت کبھی مذہبی شدت پسندوں کے تسلط سے ریاستی بیانیے کو نہ آزاد کروانے پائے۔ کوئی ایک بھی عوامی رہنما اس وطن کو ڈالر سپانسرڈ جہاد میں جھونکے جانے اور نسل در نسل نوجوانوں کو نفرت و تعصب کے اندھیروں سے آزاد کروانے کی ہمت نہ کر پایا۔ یہ وارداتیوں کا گروہ مملکت پاکستان کو اول روز سے پراپیگینڈے، مذیب، وطن پرستی اور مغربی طاقتوں کی سازشوں کی کہانیوں گھڑ گھڑ کر اس وطن کے عوام کو اپنے پیچھے لگا کر اپنے مقاصد حاصل کرتا چلا آیا ہے۔ اس گروہ کا طریقہ واردارت انتہائی دلچسپ ہے۔ وارداتیوں کا یہ گروہ سب سے پہلے مذہب پر اجارہ داری قاِئم کرتا ہے اور اس کام میں مولوی، زاکرین، پیربابے اور نام نہاد علمائے دین ان کے کام آتے ہیں۔ گلی گلی پھیلا ہوا مساجد امام بارگاہوں اور دیگر عبادت گاہوں کا یہ نیٹ ورک عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہتا ہے کہ ان کا اپنا اہپا فرقہ یا مسلک یا مذہب خطرے میں ہے اور صرف مذہبی چورن فروش ہی اس خطرے کے تدارک کیلئے کچھ کر سکتے ہیں۔ روز و شب ہمہ وقت ایک ہی پراپیگینڈہ سن سن کر جب ایک پوری نسل تیار ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں کافر کافر یا مذہبی نرگسیت پسندی کا لگایا گیا بیج ایک تناور درخت بن چکا ہوتا ہے اور پھر باقی ساری زندگی یہ نسل اسی مذہبی تعصب اور شدت پسندی کے تعصب کی سوچ سے زندگی کے ہر معاملے کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وطن عزیز میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد بھی علم و آگہی کی نئی منازل کے کھوج کی تحقیق کرنے کے بجائے مسواک کی اہمیت یا ڈارون اور تھیوری آف بنگ بینگ کو غلط ثابت کرنے میں توانائیاں ضائع کر دیتے ہیں۔ عام سطحی ذہن کا آدمی تو خیر پراپیگینڈے کی وجہ سے مرنے مارنے سے کم بات پر آمادہ ہی نہیں ہوتا۔ وارداتیوں کا یہ گروہ عوام کو مذہبی منافرت، فرقوں اور گروہوں میں تقسیم رکھ کر باآسانی اپنے اور اپنے آقاوں کے وسیع مفادات کا تحفظ کرتا رہتا ہے۔

وارداتیوں کا دوسرا طبقہ ان صحافیوں اور دانشوروں پر مشتمل ہے جو اپنے اپنے مالی تحفظات کی خاطر کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ یہ صحافی اور دانشور پراپیگینڈہ کے دم پر سطحی ذہن کے حامل افراد کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہتے ہیں کہ مذہب اور وطن دونوں ہی خطرے میں ہیں اور صرف اور صرف بندوقوں والے ہی وطن اور مذہب کو بچا سکتے ہیں۔ ہر دور کے سیاسی رہنما یا آمروں کے تلوے چاٹنے ان سے مراعات حاصل کرنے کے بعد یہ وارداتیے کمال ڈھٹائی سے اخلاقیات انصاف کے بھاشن دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ قدرت الہ شہاب اور اشفاق احمد سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ ہارون الرشید نزیر ناجی شاہد مسعود اور مبشر لقمان جیسے نوسر بازوں تک جاری و ساری ہے۔ وارداتیوں کا تیسرا اہم گروہ سرمایہ داروں وڈیروں اور پراپرٹی ڈیلرز پر مبنی ہے۔ یہ گروہ ہر ممکن طریقے سے قوانین کی دھجیاں بکھیر ک سادہ لوح افراد سے فراڈ کرکے ناجائز دولت کماتا ہے اور پھر اسی لوٹے ہوئے دھن میں سے کچھ حصہ خیرات یا فلاحی اداروں پر لگا کر پارسائی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرتا ہے۔ یہ طبقہ ہر سیاستدان اور آمر کو "خوش" رکھتا ہے۔ اور اکثر مارشل لا کے آنے کی راہ دیکھتا پایاجاتا ہے۔ ملک ریاض، عقیل کریم ڈھیڈی، جہانگیر ترین اور علیم خان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ وارداتیوں کے گروہ کا ایک اور منظم حصہ حاضر و ریٹائرڈجرنیلوں بیوروکریسی اور عدلیہ پر مشتمل ہے۔ یہ گروہ قانون اور اداروں کی رٹ کے نام پر اپنی اپنی جیبیں گرم کرتے ہوئے وقت کے حکمرانوں کے تلوے چاٹتے ہوئے ان کے مخالفین کا ہر ممکن طریقے سے استحصال کرتا ہے، مارشل لاوں کو آئینی و قانونی جواز فراہم کرتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد قبر میں پیر لٹکانے والی عمر میں بھی ٹیکنو کریٹ حکومت اور مارشل لا کے خواب دیکھتا ہے، تا کہ پھر سے کوئی جگاڑ لگا کر مزید کالا دھن یاآسائشات حاصل کی جا سکیں۔ وارداتیوں کے اس نیٹ ورک میں مفاد پرست سیاستدانوں کا بھی کلیدی کردار ہے۔ یہ سیاستدان ہوا کا رخ دیکھتے ہی اپنی اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے میں زرا برابر بھی دیر نہیں لگاتے اور اکثر و بیشتر ایسٹیبلیشمنٹ کی داشتہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اصغر خان اور عمران خان اس ضمن میں نمایاں مثالیں ہیں۔ اس وارداتیوں کے نیٹ ورک کا اصل "مالک" ایسٹیبلیشمنٹ ہے جس کے پاس باقی تمام وارداتیوں کا کنٹرول ہے۔ جب بھی ایسٹیبلیشمنٹ کو کسی سے بھی خطرہ درپیش ہو تو ملاوں کے زریعے کافر و مرتد کے فتوے صحافی و دانوشوروں کے زریعے کرپشن اور احتساب کی الف لیلوی داستانیں سنوا کر مخالف کو کمزورکیا جاتا ہے اور پھر سرکاری منشیوں کے دم پر انہیں پچھاڑ دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی کام نہ بنے تو حب الوطنی کا چورن بیچتے ہوئے سیدھا سیدھا مارشل لا لگا کر قصہ ہی تمام شد کر دیا جاتا ہے۔ ایوب سے لیکر مشرف تک ایسٹیبلیشمنٹ مارشل لا کے ذریعے اور کبھی مختلف انجینئرڈ تحریکوں کے ذریعے کبھی سامنے سے اور کبھی چھپ کر عوام پر حکمرانی کرتی ہی چلی آئی ہے۔ اس سارے کھیل میں ان وارداتیوں نے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے اور وطن عزیز کو شدت پسندی جہالت اور غربت کے اندھیروں میں دھکیل دیاہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ عوام خود بھی ان وارداتیوں کے ہاتھوں لٹ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتی بلکہ ہر ممکن طریقے سے وارداتیوں کے لگائے گئے ہر نئے تماشے کو دیکھ دیکھ کر تالیاں بجاتی ہے۔ وارداتیے پہلے صرف شدت پسند اذہان پیدا کرتے تھے تا کہ مذہب اور قومیت پرستی پر اجارہ داری برقرار رکھی جا سکے لیکن اب ان وارداتیوں نے دولے شاہ کے چوہوں کی مانند ایک ایسی نسل بھی تیار کرنی شروع کر دی ہے جو حقائق و واقعات سے نابلد، تاریخ سے ناآشنا صرف اور صرف دیوانوں کی مانند گول دائروں میں گھومنے کو آزادی اور ایسٹیبلیشمنٹ کی داشتاوں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔ شدت پسند نسل تیار کرنے کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اب اس دولے شاہ کی نسل کو تیار کرنے کا خمیازہ شاید ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہوگا کیوں کہ نہ تو واردات ڈاہنے سے باز آتے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی تماش بین وارداتیوں کا تماشہ دیکھنے کی لت سے چھٹکارہ حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

عماد ظفر

Imad Zafar

عماد ظفر  ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ریڈیو،اخبارات ،ٹیلیویژن ،اور این جی اوز کے ساتھ  وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔