1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. جاوید چوہدری/
  4. حوصلے کو حوصلہ دینے والا

حوصلے کو حوصلہ دینے والا

یہ اگست 2009ء کی بات تھی، وائٹ ہاؤس میںشاندار تقریب ہو رہی تھی، تقریب کے آخر میں صدرباراک حسین اوباما مسکرائے، آگے بڑھے، ویل چیئر پر جھکے اور میڈل اس کے گلے میں ڈال دیا۔ میں بے اختیار کھڑا ہو گیا اور تالیاں بجانا شروع کر دیں، میرے بچے اس حماقت پر حیران ہو گئے، میری آنکھوں میں آنسو تھے۔

میری نظرین ٹیلی ویژن اسکرین پر جمی تھیں اور میں بے خودی کے عالم میں تالیاں بجارہا تھا۔ ٹیلی ویژن اسکرین پر اسٹیفن ہاکنگ، اس کی ویل چیئر، اس کا اسپاٹ چہرہ اور اس کی دائیں جانب ڈھلکی گردن نظر آ رہی تھی، بس اس کی پلکیں اظہار تشکر کے لیے بار بار لرز رہی تھیں، دنیا کے اس عظیم ایوارڈ پر اسٹیفن ہاکنگ صرف اتنا ہی تاثر دے سکتا تھا۔

وہ اس عظیم کامیابی پریقینا دنیا کا زبان سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوگا لیکن وہ اپنے تاثرات، اپنے محسوسات اور اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتا تھا، اس کی ساری "فیلنگز" اندر ہی اندر تڑپتی رہتی تھیں اور تڑپتے تڑپتے مرجھا جاتی تھیں، وہ کمپیوٹر کے ذریعے اپنا مافی الضمیر لوگوں تک پہنچاتا تھا لیکن زبان اور چہرے کے تاثرات دنیا کا سب سے جامع ابلاغ بھی ہوتے ہیں اورسب سے بڑی مسرت بھی اور کمپیوٹر خواہ کتنا ہی بڑا، کتنا ہی مکمل کیوں نہ ہو جائے یہ کبھی اس مسرت اور اس ابلاغ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

تاریخ کے اس لمحے صدر اوباما کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے، وہ بھی ان آنسوؤں کی روشنی میں مسکرانے کی کوشش کررہے تھے۔

اسٹیفن ہاکنگ میرا سب سے بڑا محسن تھا، میں ایم اے میں داخلہ لینے تک ایک نالائق، کند ذہن اور سست طالب علم تھا، میری زندگی ڈائریکشن لیس بھی تھی اور میں خود کوبے صلاحیت بھی سمجھتا تھا لیکن پھر میں نے اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم"پڑھی، میں نے ہاکنگ کی بیک گراؤنڈ اور اس کی عجیب وغریب بیماری کی تفصیل اور اس بیماری کے باوجود اس کی کامیابیوں کی فہرست پڑھی تو میں حیران رہ گیا۔

میں نے اپنے جسم کو ٹٹولا، پلکیں ہلائیں،میں نے چہرے کے تاثرات بدل بدل کر دیکھے، کمرے میں اچھل کر، بھاگ کر اور ڈنڈپیل کر دیکھے، آگے پیچھے جھک کر دیکھا، میںنے ٹھنڈے فرش پر ننگے پاؤں چل کر دیکھا تومیں نے خود کو جسمانی لحاظ سے ایک مکمل انسان پایا اور پھر میں نے اسٹیفن ہاکنگ کی تصویر دیکھی، وہ ویل چیئر پر ڈھیر تھا، اس کی گردن ڈھلکی ہوئی تھی۔

اس کی ٹانگیں اور بازو بے جان حالت میں ویل چیئر پر پڑے تھے اور اس کی کھلی آنکھوں میں دور دور تک اداسی تھی، مجھے اپنے وجود، اپنے خیالات اور اپنے ٹوٹے ہوئے حوصلے پر شرم آنے لگی، میں نے اسٹیفن ہاکنگ کی تصویر کاٹی، اپنی ڈائری میں لگائی اور اس کے بعد زندگی میں کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میں نے ہر وہ کام کیا جس کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا میں یہ نہیں کر سکتا۔

میں نے اس کے بعد نہ صرف زندگی کا ہر چیلنج قبول کیا بلکہ اس چیلنج کے ساتھ گتھم گتھا بھی ہو گیا، زندگی میں جب بھی میرے اوپر برا وقت آیا، مجھے تھکاوٹ محسوس ہوئی ،میں مصائب اور مشکلات کی وجہ سے گھبراہٹ کا شکار ہوا تو میں نے فوراً اپنی ڈائری نکالی اور اسٹیفن ہاکنگ کی تصویر پر نظریں جما کر بیٹھ گیا اور پھر میرے وجود میں بجلیاں کوندنے لگیں۔

اسٹیفن ہاکنگ دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے مجھے اٹھائیس سال پہلے بتا دیا تھا دنیا میں انسانی حوصلے کے سامنے کوئی چیز نا ممکن نہیں ہوتی، یہ ہماری بے وقوفی، کوتاہ نظری اور نا سمجھی ہوتی ہے کہ ہم مشکلات کو ناممکن سمجھ بیٹھتے ہیں، یہ اسٹیفن ہاکنگ تھا جس نے مجھے بتایا ہم مشکلات کی دنیا میں رہ رہے ہیں نا ممکنات کی کائنات میں نہیں۔

اسٹیفن ہاکنگ آئین سٹائن کے بعد دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان تھا، اسے دنیا کا سب سے ذہین شخص بھی کہا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا، یہ کائنات زیرتعمیر ہے، دنیا میں روزانہ نئے سیارے جنم لے رہے ہیں۔ قرآن کی اس تھیوری کو اسٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیا، اس نے کائنات میں ایک ایسا "بلیک ہول" دریافت کیا جس سے روزانہ نئے سیارے جنم لے رہے ہیں، اس نے اس بلیک ہول میں ایسی شعاعیں بھی دریافت کیں جو کائنات میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہیں۔

یہ شعاعیں اسٹیفن ہاکنگ کی مناسبت سے "ہاکنگ ریڈی ایشن" کہلاتی ہیں، وہ فزکس اور ریاضی کا ایکسپرٹ تھا اور دنیا کے تمام بڑے سائنسدان اسے اپنا گرو سمجھتے تھے، یہ اس کی زندگی کا محض ایک پہلو تھا، اس کا اصل کمال اس کی بیماری تھی، وہ ایم ایس سی تک ایک عام درمیانے درجے کا طالب علم تھا، اسے کھیلنے کودنے کا شوق تھا، وہ سائیکل چلاتا تھا، فٹ بال کھیلتا تھا۔

کشتی رانی کے مقابلوں میں حصہ لیتا تھا اور وہ روزانہ پانچ کلومیٹر دوڑ لگاتا تھالیکن پھر وہ لمحہ آگیا، وہ 1963ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا، وہ ایک دن سیڑھیوں سے پھسل گیا، اسے اسپتال لے جایا گیا وہاں اس کا طبی معائنہ ہوا تو پتہ چلا وہ دنیا کی پیچیدہ ترین بیماری "موٹر نیوران ڈزیز" میں مبتلا ہے، یہ بیماری طبی زبان میں "اے ایل ایس" کہلاتی ہے۔ اس بیماری کا دل سے تعلق ہوتا ہے۔

ہمارے دل پر چھوٹے چھوٹے عضلات ہوتے ہیں، یہ عضلات ہمارے جسم کو کنٹرول کرتے ہیں، اس بیماری کے انکشاف سے پہلے سائنسدان دماغ کو انسانی جسم کا ڈرائیور سمجھتے تھے لیکن بیسویں صدی کے شروع میں جب "اے ایل ایس" کا پہلا مریض سامنے آیا تو پتہ چلا انسانی زندگی کا مرکز دماغ نہیں، قلب ہوتاہے اوردنیا کے تمام مذہب ٹھیک کہتے ہیں انسان کو دماغ کی بجائے دل پر توجہ دینی چاہیے، دل کے یہ عضلات "موٹرز" کہلاتے ہیں، اگر یہ "موٹرز" مرنا شروع ہو جائیں تو انسان کے تمام اعضاء ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔

انسان خود کو آہستہ آہستہ مرتے دیکھتا ہے، اے ایل ایس کے مریض کی زندگی دو سے تین سال کی مہمان ہوتی ہے، دنیا میں ابھی تک اس کا کوئی ٹھوس علاج دریافت نہیں ہو سکا، ڈاکٹر صرف مریض کی جسمانی ریخت کا عمل سست کر سکتے ہیں، اسے شفاء نہیں دے سکتے، اسٹیفن ہاکنگ 21 سال کی عمر میں اس بیماری کا شکار ہوا، سب سے پہلے اس کے ہاتھ کی انگلیاں مفلوج ہوئیں، پھر اس کے ہاتھ، پھر اس کے بازو، پھر اس کا بالائی دھڑ، پھر اس کے پاؤں، پھر اس کی ٹانگیں اور آخر میں اس کی زبان بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔

یوں وہ 1965ء میں ویل چیئر تک محدود ہو گیا، پھر اس کی گردن دائیں جانب ڈھلکی اور دوبارہ سیدھی نہ ہو سکی۔ وہ 1974ء تک خوراک اور واش روم کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہو گیا۔ اس کے پورے جسم میں صرف پلکوںمیں زندگی موجودتھی، وہ صرف پلکیں ہلا سکتا تھا، ڈاکٹروں نے اسے 1974ء میں"گڈ بائی" کہہ دیا لیکن ہاکنگ نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اس نے زندہ رہنے، آگے بڑھنے اور معذوری کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان بننے کا فیصلہ کر لیاچنانچہ اس نے ویل چیئرپر کائنات کے رموز کھولنا شروع کر دیے، سائنس حیران رہ گئی۔

کیمبرج کے کمپیوٹرڈیپارٹمنٹ نے ہاکنگ کے لیے "ٹاکنگ" کمپیوٹر بنایا، کمپیوٹر اس کی ویل چیئر پر لگا دیا گیا، کمپیوٹر اس کی پلکوں کی زبان سمجھتا تھا، اسٹیفن اپنی سوچ کو پلکوں پر شفٹ کرتا تھا، پلکیں ایک خاص زاویے اور ردھم میں ہلتی تھیں، یہ ردھم لفظوں کی شکل اختیار کرتا تھا، یہ لفظ کمپیوٹر کی اسکرین پر ٹائپ ہوتے تھے اور وہ بعدازاں اسپیکر کے ذریعے نشر ہونے لگتے تھے چنانچہ اسٹیفن ہاکنگ دنیا کا واحد شخص تھا جو اپنی پلکوں سے بولتا تھا اور پوری دنیا اس کی آواز سنتی تھی۔

اسٹیفن ہاکنگ نے پلکوں کے ذریعے 15 کتابیں لکھیں، اس نے "کوانٹم گریوٹی" اور کائناتی سائنس (کاسمالوجی) کو بے شمار نئے فلسفے بھی دیے، اس کی کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم" نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا، یہ کتاب 237 ہفتے دنیا کی بیسٹ سیلر رہی اوردنیا بھر میں ناول اور ڈرامے کی طرح خریدی اور پڑھی گئی۔

اسٹیفن ہاکنگ نے 1990ء کی دہائی میں ایک نیا کام شروع کیا، اس نے مایوس لوگوں کو زندگی کی خوبصورتیوں کے بارے میں لیکچر دینا شروع کیے، دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں، ادارے اور فرمز ہاکنگ کی خدمات حاصل کرتی تھیں، ہاکنگ کی ویل چیئر کوسیکڑوں ،ہزاروں لوگوں کے سامنے اسٹیج پر رکھ دیا جاتا تھا اور وہ کمپیوٹر کے ذریعے لوگوں کو بتاتا تھا "اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں،اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں۔

اگرمیں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضاء سلامت ہیں، جو چل سکتے ہیں، جودونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے، جوکھا پی سکتے ہیں، جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اورجو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں، آپ نے ناکامی کو ناکامی کیوں تسلیم کر لیا"۔ ہاکنگ کے یہ الفاظ مردہ جسموں میں زندگی کی لہر دوڑا دیتے تھے اور وہ مایوسی کی چادر اتار کر زندگی کے میدان میں اتر جاتے تھے۔

صدر اوباما نے 12 اگست 2009ء کو اسٹیفن ہاکنگ کو امریکا کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ صدارتی تمغہ برائے آزادی (پریذیڈنشل میڈل آف فریڈم) پیش کیا، میں نے جب صدر اوباما کو اسٹیفن ہاکنگ پر جھکتے دیکھا تو میں بے اختیار تالیاں بجانے پر مجبور ہو گیا تھا، کیوں؟کیونکہ اسٹیفن ہاکنگ میرے سمیت دنیا کے ہر اس شخص کا محسن تھا جو مشکل کو نا ممکن سمجھتے تھے اور جنھیں ہاکنگ نے بتایا تھا حوصلہ اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کے ذریعے کوئی بھی انسان نا ممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔

ہمارا یہ محسن 14 مارچ 2018ء کو انتقال کرگیا، یہ مٹی میں جا سویالیکن اس کی سوچ، اس کا حوصلہ آج بھی زندہ ہے، یہ اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک ڈکشنریوں میں ہمت اور حوصلے کے لفظ رہیں گے، اگرمیرا بس چلے تو میں ڈکشنری میں حوصلے اور ہمت کے لفظوں کے سامنے اسٹیفن ہاکنگ لکھ دوں، کیوں؟ کیونکہ یہ وہ شخص تھا جس نے ان ٹھنڈے اور بے جان لفظوں کو معانی دیے، یہ لفظ ہاکنگ سے پہلے صرف ٹھنڈی لاشیں تھے، وہ آیا اور ہمت کو ہمت اور حوصلے کو حوصلہ مل گیا، یہ لفظ زندہ ہو گئے، یہ لفظ اب کبھی نہیں مریں گے کیونکہ دنیا میں اسٹیفن ہاکنگ کبھی نہیں مرے گا، یہ دنیا کی آخری سانس تک زندہ رہے گا۔

جاوید چوہدری

جاوید چودھری پاکستان کے مایہ ناز اور معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم اپنی جدت اور معلوماتی ہونے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ وہ نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہیں۔ جاوید چودھری "زیرو پوائنٹ" کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور ٹی وی پروگرام ”کل تک“ کے میزبان بھی ہیں۔ جاوید چوہدری روزنامہ جنگ کے کالم نگار تھے لیکن آج کل وہ روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز ٹیلیویژن سے وابستہ ہیں۔