1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. ماحولیات اور صنعتی آلودگی، ہماری بقاکیلئے خطرہ!

ماحولیات اور صنعتی آلودگی، ہماری بقاکیلئے خطرہ!

سب سے پہلے انسانی آبادی کی بات کر لیتے ہیں جو بہت تیزی سے بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ موجود دنیا کی آبادی لگ بھگ ساڑھے سات ارب سے زیادہ بتائی جا رہی ہے اور پیدائش کے عمل کو دیکھتے ہوئے یہ آبادی 2050 تک دس ارب تک پہنچ جائے (ہمارا گمان ہے کہ آبادی کی حد 2050 سے پہلے ہی پار کر جائے گی)۔ بڑھتی ہوئی آبادی کیساتھ ساتھ انسان اپنی بقاء کیلئے جدیدت کا سہارا لیتے ہوئے دنیا کو ترقی پذیر بنانے کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔ ایک طرف تو یہ جدیدیت انسان کیلئے آسانیاں اور آسائشیں بنا نے میں مدد گار ثابت ہور ہی ہے تو دوسری طرف ایک دوسرے کو قابو میں رکھنے کیلئے، ایک دوسرے کو خوفزدہ کرنے کیلئے خطرناک اور انتہائی مہلک ہتھیار بنائے جا رہے ہیں جس کی وضاحت یہ کہ اپنے دفاع کیلئے ایسا کرناضروری ہے کہ آپ کے پاس جدید ترین ہتھیار اور اس سے متعلق تکنیکی صلاحیات موجود ہوں۔ آسائشوں سے زندگی کو سہل ترین بنادیا گیا لیکن دوسری طرف ہتھیاروں نے زندگیوں کو اجیرن بنارکھا ہے۔ عملی طور پر دنیا ہمیشہ سے عدم توازن کا شکار رہی ہے، طاقت کے تسلط کیلئے، زمینی خدا بننے کی چاہ نے انسان کو انسان کی زندگی کا دشمن بنا دیا اور وہ تمام حدیں عبور کرتا چلا جا رہا ہے۔ مختلف شکلوں میں جنگیں تو انسان ہمیشہ سے ہی لڑتا چلا آرہا ہے جنہیں رواءتی جنگیں کہا جاتا تھا لیکن بغیر مشینی ہتھیاروں کے جہاں بہادری اور عزم سب سے بڑے ہتھیار ہوتے تھے، انکے بغیرتپتے میدانوں میں تلواروں اور نیزوں کی چمکدار دھاروں کے سامنے نہیں کھڑا ہوا جاسکتا تھا۔ آسائشوں نے انسان میں جینے کی چاہ کو توبڑھادیا، زندہ رہنے کو یقینی بنانے کیلئے بھی جنگیں لڑنی پڑ رہی ہیں ایک دوسرے کو خوفزدہ بھی رکھنا ہے۔

یقینا انسان فضائی آلودگی جیسی تخریب کاری کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ انسان ماحول دوست تھا پودے لگاتا تھا، پھول پھل کیلئے، راستوں میں سائے کیلئے اور سب سے بڑھ کر اپنے ارد گرد خوبصورتی کو پروان چڑھانے کیلئے۔ پھر انسان نے ایسے ہتھیار بنانے شروع کئے جس سے ایک دوسرے کا سامنا کئے بغیر کسی کو کہیں سے بھی نشانہ بنایا جاسکتا، انسان کی طاقت کا نشہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ آسائشوں کے حصول کیلئے ضروری تھا کا معاشی استحکام کیلئے بھی کام کیا جائے۔ جسکے لئے صنعتیں لگائی گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں صنعتوں کا جال بچھا دیا گیا۔ انسان کے اقتدار کی چاہ تیزی سے بڑھتی چلی گئی اور شدت اختیار کرتی چاہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان نے جنگیں لڑنا شروع کردیں اور طاقتور نے کمزور کو اپنی ڈھال بناتے ہوئے زمین کو ہولناکیوں کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔ رقم شدہ کسی حد تک حقیقت پر مبنی تاریخ میں بیسویں صدی میں لڑی جانے والی دو عالمی جنگیں انتہائی ہیبت ناک تھیں جس میں محلوں اور ایوانوں کو بچانے کیلئے انسانی جانوں کو جانوروں کی مشابہ استعمال کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کا اختتام جاپان کے دو شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرا کر کیا۔ ان ایٹم بموں سے جہاں مالی اور جانی نقصان ہوا وہیں اس سے ماحول کو جونقصان پہنچا اسکا اندازہ اب کہیں جاکے لگایا جا رہا ہے۔ دنیا اس بد ترین سفاکی اور دہشت گردی پر آج بھی سہمی ہوئی ہے۔

بیسویں صدی کے نصف سے ماحولیات میں تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔ اسلحہ سازی کو بھی صنعت کا درجہ دے دیا گیا اور امریکہ جیسے ملک کی معیشت کا دارومدار بھی اسی صنعت پر بتایا جاتا ہے۔ اس طاقت کی دوڑاس وقت اور خطرناک ہوگئی جب ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوئی۔ ایٹم بم بنانے والے باقاعدہ ملکوں کی تعداد تو آٹھ بتائی جاتی ہے لیکن مستند ابلاغ کیمطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اب تو ہر ذی شعور اس بات سے متفق ہے کہ دنیا اب کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں رہی ہم آگ کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ اکیسویں صدی کہ آغاز سے عالمی دہشت گردی کا پر زور آغاز ہوا، شائد ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا بچا ہو کہ جہاں دہشت گردی کی خونی وارداتیں نا ہوئیں ہوں۔ دنیا سر جوڑ کر بیٹھ گئی اور دہشت گردی کو سب کا مشترکہ دشمن قرار دیا گیا جس کا نا کوئی مذہب اور ناہی کوئی ملک تھا۔ کرہ عرض کی بدقسمتی کہ جنگیں بند نا ہوسکیں اور کسی نا کسی صور ت میں اسلحہ سازی کو فروغ ملتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جنگوں کی تباہ کارویوں کے بعد یہ احساس ہوا کہ ہم نے تو اپنے پر آسائش رکھنے کیلئے لڑی جانے والی جنگوں کے نتیجے میں کرہ عرض کو بہت نقصان پہنچا لیا ہے۔

صنعتوں کی ترقی کیلئے حکومتیں ہر ممکن اقدامات کرتی ہیں جوکہ معیشت کے استحکام کیساتھ ساتھ روزگار کے ذراءع بھی فراہم کرتی ہیں اور دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ ہم میں سے اکثریت روشن پہلودیکھنا چاہتے ہیں اور اسی روشن پہلو پر گفتگو پسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے اندھیرے کی تاریکی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور وہ اسقدر بڑھتی ہے کہ کوئی اپنا ہی اس اندھیرے کی نظر ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ جنگی جنون کو ہم ماحولیات کیلئے بھر پور خطرہ قرار دے سکتے ہیں۔ بارود کا دھواں بھی دیگر صنعتوں سے نکلنے والے دھویں اور دیگر فضلا کی طرح زمین کیلئے انتہائی نقصان دے ہیں۔ ماحولیات کی فکر کرنے والوں نے ماحولیات کی بحالی کیلئے سرکاری سطح پر رہنمائی شروع کرا رکھی ہے اور باقاعدہ ایک وزارت ماحولیات کیلئے وقف کر رکھی ہے۔

مسائل آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کی بنیادی وجہ بھی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے انہیں معاش کیلئے روزگار درکار ہے، روزگار کیلئے صنعتیں لگانی پڑ رہی ہیں اب بد قسمتی ہے سرمایہ دار سستے خام مال سے کام چلاتے ہیں اور انہیں مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ اسطرح سے سستے داموں خریدا جانے والا خام مال میعاری تو نہیں ہوسکتا جب غیر میعاری چیز استعمال کی جائے گی تو صنعتوں سے جو فصلا باہر نکلے گا وہ ناصرف ماحولیات کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے بلکہ آس پاس رہنے والے مکینوں کیلئے بھی زہر قاتل بنتا چلا جاتا ہے۔ زمین سے پیدا ہونے والی اجناس میں سے غذائیت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے (اگر تحقیق کرنے والے ادارے زمین پر کوئی ایسی جگہ دریافت کر بھی لیں کہ جہاں ابھی غذائیت والے اجناس اگائے جاسکتے ہیں تو پہلے تو اسکے لئے دنیا بولیاں لگائے گی اور پھر گولیاں چلائے گی)۔

گوکہ دنیا کو کرہ ارض کے ماحولیات کی فکر لاحق ہوچکی ہے، اوزون کی تہہ کے بارے میں تو عرصہ دراز سے سنتے آرہے ہیں کہ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے سورج کی شعائیں زیادہ تیز ہوتی جا رہی اورزمینی گرمائش( گلوبل وارمنگ ) میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے برفانی تودے (گلیشئیرز) پگھلتے جا رہے ہیں۔ موسمی تغیرات ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں، زلزلے اور سمندری طوفانوں کا تسلسل بڑھ چکا ہے، ایٹمی ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں، کہیں جنگل لگانے کی تگودو کی جارہی ہے تو کوئی کاروباری مفاد کی خاطر درخت کاٹ رہے ہیں۔ ان برفانی تودوں کے پگھلنے سے سطح سمندر بلند ہوتی چلی جائے گی اور وہ ممالک جو سطح سمندر سے بہت نیچے ہیں ان کی بقاء کا مسلۃ سب سے پہلے سر اٹھانے والا ہے۔

آنے والے وقت میں آب و ہوا کو لے کر کیا ہونے والا ہے یہ قدرت ہی جانتی ہے، قدرت کی دی گئی صلاحیتوں کی مدد سے انسان یہ جاننے کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اسکی کی جانے اونچ نیچ سے کیا معاملات جنم لے رہے ہیں اور لینے والے ہیں، ایسی ہی تحقیق سے درجہ ذیل میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے چند اہم امور جو آنے والے وقتوں میں ہمارے کرہ ارض میں بھوچال پیدا کرنے والے ہیں (معلومات معتبر ذراءع سے حاصل کی گئیں ہیں ):;

درجہ حرارت مسلسل بڑھتا چلا جائے گا اور یہ عمل اب رکتا نہیں دیکھائی دے رہا۔

شدید ٹھنڈا موسم کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔

بارشوں کے سلسلے تبدیل ہوجائینگے۔

درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کے باعث مزید خشک سالی بڑھے گی۔

سمندری طوفانوں کا دورانیہ کم ہوجائے گا اور انکی شدت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا۔

سطح سمندر تقریباً چار فٹ تک اور بلند ہوجائے گی۔

دوہزار پچاس سے قبل بحر اوقیانوس مکمل طور پر پگھل جائے گا۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث طرح طرح کی بیماریاں بھی نمودار ہورہی ہیں، کرہ ارض پر مختلف قسم کے موذی حشرات العرض عام دیکھائی دے رہیں اور بہت سارے ایسے معاملات جن کی بنیادی وجہ یہ ماحول ہی ہے حضرت انسان کیلئے آہستہ آہستہ پریشانی کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ آج سب طرف سے یہ صدائیں تو سنائی دے رہی ہیں کہ گلوبل وارمنگ کو روکو لیکن ہم نے اپنے گھروں میں ایئر کنڈیشنڈ لگا لئے ہیں جن کی گرم ہوا تو ماحول میں شامل ہونے جا رہی ہے۔ ہم نے کسی بچے کی طرح کہ جسے کھلونا اسے کھیلنے یا بہلانے کیلئے دیا جاتا ہے لیکن وہ اس کھوج میں لگ جاتا ہے کہ اس میں سے آواز کیسے آرہی ہے، اس میں سے روشنی کیسے جل رہی ہے اور یہ خود بخود کس طرح سے حرکت کر رہا ہے اور آخر کار وہ اسے آہستہ آہستہ اپنے بڑوں کی نظر سے بچاکر توڑ دیتا ہے۔ کیا ہم نے قدرت کی فراہم کردہ عظیم نعمت ماحول کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور اب مصنوعی آکسیجن سے کسی ایک فرد کی جان تو بچائی جا سکتی ہے لیکن اربوں لوگوں کی زندگیوں کو مصنوعی آکسیجن کبھی بھی دستیاب نہیں کر پائینگے۔ مجھے دکھی دل کیساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ تحقیق سے جو چیزیں ثابت ہوئی ہیں اور جو وقت کا تعین کیا گیا ہے دنیا اس سے کہیں پہلے بربادی کا ڈھیر بن سکتی ہے۔ ہم نے کسی ادارے کے کھلونے کو نہیں توڑا ہے ہم ایک ایسے نظام سے الجھ بیٹھے ہیں جسے سلجھانے کی صلاحیت دی ہی نہیں گئی۔ ہم صنعتکاروں کو الزام دیں یا ہم جنگوں کو الزام دیں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے بس اپنی ایک ذمہ داری ہے جسے پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بہت ممکن ہے قدرت کو ہمارے ماحول کو بچانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات پسند آجائیں اور دنیا کے خاتمے کا وقت تھوڑا بہت بڑھا دیا جائے۔ ممکن ہے قارئین ان باتوں سے مایوسی کا تاثر لے رہے ہوں، لیکن حقیقت ہے یہی۔