1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا!

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا!

دنیا ایسے ہی لوگوں سے بھری پڑی ہے جواپنی دانست میں دنیا کیلئے، اپنے ملک کیلئے، اپنے گھر کیلئے اور سب سے بڑھ کر انسانیت کی بھلائی کیلئے کچھ کررہے ہیں یا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والی کوئی چھوٹی سی ناانصافی کا بدلہ اس بات سے قطع نظر کے نقصان میں کیا کچھ چلا جائے گاانسانیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ بس ہوتا یہ ہے کہ بھلائی کرنے والے دیکھائی نہیں دیتے لیکن نقصان پہنچانے والے دنیا میں اہمیت حاصل کر لیتے ہیں۔ ایک بہت سادہ سی مثال لیجئے جو ممالک اسلحہ بنا رہے ہیں انہیں اس اسلحے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ جو خریدنے والے ہیں وہ جنگی جنون میں مبتلا ہوئے بیٹھے ہیں اور اس اسلحے سے دنیا کو خوفزدہ کرتے پھر رہے ہیں۔ اسلحہ بنانے والے ہی دراصل جنگی جنون پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، شائد و ہ اس بات سے آگاہ نہیں ہیں کہ اگر آگ لگتی ہے تو پھر وہ سمتوں اور سرحدور سے آزاد ہوتی ہے۔
پاکستانی ہونے کہ ناطے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ سڑکوں پر کتنے دسترخوان بچھتے ہیں سارا دن بھوکوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے اور کسی بھی دسترخوان سے کسی کو بھگایا نہیں جاتا، کھانے میں بھی اعلی پائے کا کھانا دستیاب ہوتا ہے، جیساکہ مذکورہ سطور میں لکھا ہے کہ بھلائی کرنے والے نا سامنے آتے ہیں اور ناہی دیکھائی دینا چاہتے ہیں اسلئے یہ معلوم کرنا بھی مشکل کام ہے کہ اللہ رب العزت نے زمین پر رزق کی ایسی تقسیم کے خصوصی انتظامات کی خصوصی توفیق یا ذمہ داری کس کے ذمہ لگارکھی ہے۔ اوائل یہ کھانا کھلانے کا سلسلہ محدود، مخصوص اور پوشیدہ مقامات پر کھلایا جاتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ ملک کے مختلف شہروں اور خصوصی طور پر کراچی شہر میں جگہ جگہ دیکھائی دیتا ہے۔ ایک وقت تھا جب لوگ صرف اور صرف ایدھی کی ایمبولینس سے واقف تھے پھر بات آگے بڑھتی چلی گئی اور یہ کھانے کا سلسلہ بھی (لیکن اسطرح نہیں جیسے آج ہے) ایدھی ہوم سے شروع ہوا۔ آج شہر میں نامی گرامی اداروں کے دسترخوان تو سجتے ہیں لیکن یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوتی ہے اور دل اللہ کی رحمت سے پگھلتا بھی ہے جب آپ کسی انتہائی نواحی اور پسماندہ علاقوں میں جائیں اور وہاں نامعلوم لوگ باقاعدہ کھانے کا اہتمام کرتے دیکھائی دیں۔ ایک طرف تو اس بات پر یقین کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اللہ نے اپنی فرشتوں کی فوج اب زمین پر بھیج دی ہے جو اسکے ان بندوں کو سنبھالنے آئے ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتااور وہ اللہ پر توکل کئے جی رہے ہوتے ہیں۔ یعنی اس بات کی گواہی ہے کہ جس کا کوئی نہیں اس کا تو خدا ہے یاروں اور اسکے ساتھ ایک اور بات جو بچپن سے سنتے تھے اب عملی طور پر ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ اللہ بھوکا اٹھاتا ضرور ہے لیکن سلاتا، کھلا پلا کر ہے۔
ایک طرف دنیا کی بے حسی کی داستانیں رقم کی جارہی ہیں جس میں معصوم بچوں کو انہیں اس بات کا علم ہونے سے قبل ہی کہ وہ کیا اور کیوں ہیں موت کی نیند سلایا جا رہا ہے۔ اس بات سے اہل نظر کی نظر میں شام کہ اس ساحل پر پڑے بچے کی لاش گھوم گئی ہوگی اور اس کرسی پر بیٹھے ہوئے بچے لی لاش گھوم گئی ہوگی اور نامعلوم کس کس کی نظر میں کتنے معصوم بچوں کی معصوم سی لاشیں گھوم گئی ہونگی۔ انسان نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر افغانستان، شام، لیبیا، ویت نام، کشمیر اور نامعلوم کیا سے کیا بنادیا، جبکہ اس بات سے انکار کا کوئی مجاز ہی نہیں کہ ایک دن اسے بھی اس دنیا سے چلے جانا ہے اسکے باوجود انسانیت کا گلا دبانے اور کمزور کو رہنے کیلئے گھٹن زدہ ماحول بنا کر رکھنے کا خواہ ہے۔ یہ تو انسان کی بے بسی ہے کہ وہ کسی کی آکسیجن نہیں بن سکتا پھر انسان کی فرعونیت اپنے عروج پر ہوتی۔
ایک بہت ہی خوبصورت بات گزشتہ دنوں سماعتوں کو نصیب ہوئی جسکو ہمارے فوجی جنرل آصف غفور صاحب کی آواز ملی اور وہ یہ بات کہ جنگوں میں جیت کسی کے حصے میں نہیں آتی بس انسانیت مرجاتی ہے
آخر وہ کیا وجہ ہے کہ دنیا کو پاکستان کی جانب سے اپنے دفاع میں کیئے جانے والے اقدامات تو دیکھائی دیتے ہیں لیکن ہندوستان کی پاکستان کے سرحدی علاقوں پر کی جانے والی شب و روز گولہ باری دیکھائی نہیں دیتی۔ شہدا کی لاشوں کو اٹھانا نہیں دیکھائی دیتا معذور ہوتے بوڑھے بچے نہیں دیکھائی دیتے۔
اسرائیل ہو، ہندوستان ہو، امریکہ یا پھر انکے اتحادی، انکا کیا جانے والا ظلم، ظلم نہیں بلکہ عوامی حقوق کی بحالی کیلئے کئے جانے والے احسن اقدامات ہیں جس کہ نتیجے میں کتنی انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں کتنے معصوم زندگی سے پہلے ہی زندگی کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یوں تو روزانہ ہی مقبوضہ کشمیر کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوتی ہیں لیکن آج جب یہ مضمون تحریر کے آخری مراحل میں تھا تو ایک تصویر جسے منسلک بھی کر رہا ہوں تین کشمیری (ایک ماں، ایک بچی اور ایک بچہ) دوفوجیوں کے سامنے سے گزر رہے ہیں، تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ کشمیری بہت آرام و سکون سے عام سے طریقے سے دو بھارتی قابض فوجیوں کے سامنے سے گزر رہے ہیں اور دونوں بھارتی فوجی پوری طرح سے اپنے آپ کو حفاظتی آلات سے لیس کئے ہوئے ہیں۔ جہاں اس تصویر کو دیکھ کر دکھ ہوا، تودوسرے ہی لمحے چہرے پر یہ سوچ کر مسکراہٹ آگئی کہ ظالم کو دیکھو اپنے ظلم سے کتنا خوفزدہ ہے اور مظلوموں کو دیکھو کہ کیسے سینا تان کہ چلتے ہیں۔ ایسی انگنت خون کے رنگوں سے رنگین تصاویر دنیا جہان میں شائع ہوتی ہیں لیکن دنیا کی بے ثباتی کے آگے اپنا رنگ نہیں جما پاتیں، دل میں جگہ نہیں کرپاتیں۔ دور جدید میں ظالم اور مظلوم کی اکبر الہ آبادی نے پہچان اپنے درجہ ذیل شعر میں بہت خوبی سے بیان کی ہے
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
لیکن اب چرچا شروع ہوگیا ہے اور اس چرچے کی گونج قتل کرنے والوں کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔