1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. لینہ حاشر/
  4. نافرمان پردیسی بیٹے کی سچی کہانی

نافرمان پردیسی بیٹے کی سچی کہانی

خوابوں کی دنیا کا حقیقی دنیا سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کہتے ہیں جو ہمارے شعور اور لا شعور میں کہیں دفن ہو وہ ہمارے خواب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ان میں سے کچھ یاد رہ جاتے ہیں اور کچھ ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔ کچھ برس پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا جو دماغ میں نقش ہے پراس عذاب خواب کا ذکر کرنے سے پہلے اپنی زندگی کی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔

ہمارا گھرانہ کل تین افراد پر مشتمل تھا۔ ایک میں، دوسرے میرے ابا اور تیسری مجھے جنم دینے والی جنم جلی، میری ماں۔ ابا گورنمنٹ سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ اماں گھر داری کے کاموں پر مامور تھیں۔ میں ان کی اکلوتی اولاد تھا۔ انہوں نے میرا نام سکندر رکھا تھا۔ مجھے پیار سے شہزادہ کہا جاتا تھا۔ میں ان کی زندگی کا مرکز تھا۔ دونوں اپنی بساط کے مطابق میری ہر خواہش کو پورا کرنے میں مگن رہتے تھے۔

اماں ابا زندگی کے پیچ و خم سے کبھی نہ گھبراتے تھے۔ بس ان کی بدحواسی قابل دید تب ہوتی جب مجھے کسی چوٹ، بیماری یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا۔ بیماری کی حالت میں کبھی ایک حکیم کے تو کبھی دوسرے کے لیے پھرتے۔ دوا دارو کے ساتھ ساتھ دعاؤں کا سلسلہ بھی زور پکڑتا۔ گھر کے پاس جو مزار تھا وہاں چادر چڑھائی جاتی۔ اگر چادر چڑھانے کے لیے رقم ناکافی ہوتی تو پھولوں کی پتیوں پر اکتفا کر لیا جاتا۔ میری صحت کے لیے منت مانگی جاتی، جالیوں پر بندھے کالے دھاگوں میں ایک اور دھاگے کا اضافہ یقینی ہو جاتا۔

وہ اپنی بساط کے مطابق خیرات کرتے۔ کوئی تیل کی مالش کرنے کو کہتا تو میرے جسم سے تیل کے بھبھکے آتے رہتے۔ پانی میں جڑی بوٹیوں کو ابال کر مجھے پلایا جاتا۔ اس حال میں ان کا کا جگ راتا یقینی ہو جاتا۔ دوپٹہ کے پلو پر پڑھی گرہ کو کھول کر کالی مرغی کا صدقہ دیا جاتا۔ گود میں مجھے اٹھائے اٹھائے وہ کبھی نہ تھکتے۔ مجھے پاؤں فرش پر دھرنے نہ دیتے۔ میرے پاس اس قدر چوکنا بیٹھتے کہ گہری سانس پر بھی ہڑبڑا جاتے۔

اماں ہاتھ میں تسبیح پکڑے کچھ بڑبڑاتی چلی جاتیں۔ ایک دن اماں کے سینے سے لگا بخار میں پھنک رہا تھا۔ اماں پھر کچھ بڑبڑائے چلی جا رہی تھیں۔ اس دن سمجھ آیا کہ اماں کیا پڑھتی تھیں۔ ہر دانے پر یہ دعا کرتی تھیں یا اللہ اس کی ساری تکلیفیں، سارے دکھ مجھے دے دے۔ تسبیح کا آغاز بھی اسی دعا سے کرتیں اور اختتام بھی۔ بچپن سے جوانی تک میری ہر تکلیف پر وہ اسی طرح بوکھلائے پھرتے۔ میں ان کی کمزوری تھا اور میں نے بارہا اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔

دونوں کی بس ایک ہی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ جاؤں۔ میں ایف اے ہی چار برس میں کر پایا۔ اس سے آگے پڑھانے کی نہ ان میں سکت تھی اور نہ ہی میری نیت۔ ابا ریٹائر ہو چکے تھے۔ بڑھاپا ان کی عمر کی دھلیز پر دستک دے چکا تھا۔ پنشن میں زندگی کے وقت کو کھینچنا دشوار ہو گیا تھا۔ لیکن مجھے نوکری کی کوئی فکر نہیں تھی۔

زیادہ وقت چارپائی توڑتے ہی گزارتا۔ لیٹے لیٹے اکتاہٹ کا شکار ہوتا تو اپنے جیسے لا ابالی دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے چلا جاتا۔ ابا نے ملازمت کرنے کو کہا تو ان کے گوش گذار کر دیا کہ میں اس ملک میں تو کام کرنے والا نہیں۔ باہر جا کر لاکھوں کی نوکری کروں گا۔

باہر کے خواب یوں تو ہمیشہ سے دیکھے تھے پر اس ارادے کو تقویت تب ملی جب ایک رفیق نے اس بات کا یقین دلایا کہ باہر جانے کا بندوبست وہ کروا دے گا۔ مجھے بس رقم کے لیے ہاتھ پیر مارنے تھے۔ گھر آتے ہی مدعا بیان کیا۔ والدین کی کل متاع زندگی کچھ مرلے زمین، دو بکریاں، ایک گائے اور ایک سہراب سائیکل کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے لگی لپٹی نہ کہی اور ساتھ ہی زمین بیچنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ گہری چپ کے بعد صاف انکار پر کانوں پر بھروسا ہی نہ ہوا۔

انکار پر منت سماجت سے کام لیا۔ پھر قطع کلامی کو ہتھیار بنایا۔ بات نہ کرنے پر بھی وہ میرا خیال کرنے میں کوئی غفلت نہ کرتے۔ ابا جانے سے پہلے میرے تکیے کے نیچے بیس کا نوٹ رکھ کر جاتے۔ اماں چارپائی کے سرہانے لسی سے بھرا گلاس رکھتی۔ لسی بھی وہ جس پر مکھن تیر رہا ہوتا، دیسی گھی کے بلوں والے پراٹھے میرے ماتھے کے بلوں کو کم نہ کر پاتے۔ سرسوں کے ساگ پر مکھن کا پیڑا اور ساتھ آم کے اچار کی بھینی خوشبو من کو کھانے کی طرف مائل کرتی۔ جب بھوک بہت ستاتی تو ناراضگی بھوک سے ختم کر دیتا۔ نجانے اماں کو کیسے خبر ہو جاتی۔ اماں دبے پاؤں آتیں برتن اٹھاتے ہوئے الحمدللہ بلند آواز میں کہتیں اور الٹے پاؤں لوٹ جاتیں۔ یہ سلسلہ کچھ دن چلا لیکن دونوں ہی زمین فروخت نہ کرنے کی فیصلے پر قائم تھے۔

گھر میں طبل جنگ سے پہلے والی خاموشی چھائی رہتی۔ جب خاموشی ٹوٹتی تو میں آگ کے بگولے کی طرح پھٹتا۔ ادب، تمیز، عمر اور رشتے کا لحاظ کیے بغیر ان سے ناراضگی کا اظہار کرتا۔ ہر بار وہ مجھے سمجھاتے کہ میں ادھر ہی کام کاج کر لوں پر میں کہاں کسی کی سننے والا تھا۔ میں نے قطع کلامی سے لے کر بھوک ہڑتال تک تمام حربے آزمائے مگر کامیابی ملنے کو تیار نہ تھی۔

جب بلند آواز سے بھی بات نہ بنی تو ایک ہی وقت کے کھانے کو تین تین بار گرم کر کے لانے پر بھی نہ کھاتا۔ بہت اصرار پر سالن سے بھری پلیٹ زمین پر دے مارتا۔ پیار سے مناتے تو ان کا ہاتھ جھٹک دیتا۔ زبان پر تلخیوں کی کڑواہٹ ہر وقت موجود رہتی۔ کمرے کے دروازے کو پٹخ کر بند کرتا۔ آواز کی دھمک سے گھر کی دیواروں کے ساتھ ساتھ اماں ابا کے دل بھی لرز جاتے۔ روز روز کا لرزنا ابا کے دل کو نہ بھایا اور ابا روز وشب کی تکرار کے دوران چل بسے۔ کچھ دنوں میں نے بھی ابا کا غم منایا۔ مگر میں اپنے ارادے کا دھنی نکلا۔ مجھے لگا اماں کو منانا اب زیادہ آسان ہو گا۔ کیونکہ ابا کا بہرحال کچھ خوف تھا۔ میں نے پھر وہ ہی رٹ شروع کر دی۔ لیکن اماں میری بات ماننے سے انکاری تھیں۔ ہر طریقہ آزمانے کے بعد بھی مجھے سب لا حاصل نظر آیا۔

میرے اندر کی حیوانیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اکثر اماں کا ہاتھ گھسیٹ کر کمرے سے باہر دھکیل دیتا۔ ان کو میرا رویہ کتنا بھی ناگوار کیوں نہ گزرتا وہ پلٹ کر میرے پاس لازمی آتیں۔ میں جانتا تھا کہ میں ان کی زندگی کے لیے لازم ہوں۔ مجھے منائے، کھلائے بغیر وہ کبھی چین نہ لے پائیں گی۔ اماں مجھے سمجھاتے سمجھاتے تھک گئی تھیں۔ پیار محبت کے سارے جتن کر ہاری تھیں۔ ہر بار اپنی ہی بدلحاضی کی متعین کردہ حد کو پار کرتا۔ بد زبانی سے اماں کو آدھ موا کیے بغیر دم نہ لیتا۔ ان کا رونا مجھے بے وجہ کا ڈرامہ دکھائی دیتا۔ اکثر ان کے گوش گذار کرتا کہ آپ کے یہ حیلے بہانے میرے کسی کام کے نہیں۔ ان کی بھرائی ہوئی آواز میں جو کرب تھا اس کو کبھی محسوس ہی نہ کیا۔ ان کی سانسوں کو بوجھل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتا۔

پھر میں نے آخری حکمت عملی کو آزمایا۔ ایک روز اماں سے تکرار کرتے کرتے ان کو کمرے سے باہر دھکیل کر دروازے کی چٹخنی لگا دی۔ اماں کمرے کی کھڑکی میں منت کرنے چلی آئیں۔ میں نے ان کے دوپٹہ کو پنکھے میں پھندا بنا کر ڈالا تو اماں کی چیخوں کی گونج رب کے علاوہ سب نے سنی۔ لیکن میں ان کو تڑپانے کا کام پوری دل جمعی سے کرتا گیا۔ میز پر چڑھ کر پھندا گلے میں ڈالا تو اماں روتے ہوئے فریاد کرنے لگیں اور بولیں کہ جو تو کہے گا میں مانوں گی۔ میں نے مقصد کی کامیابی کے بعد دروازے کھولا تو اماں میرے پیروں میں آ گریں۔ بلک بلک کر بس یہ کہہ رہیں تھیں تیری جان کے صدقے میں سب کچھ وار دوں۔ اماں اپنے ہاتھوں سے میرے پاؤں پکڑے زمین پر پڑی تھیں اور میں بڑی ڈھٹائی سے اکڑا کھڑا تھا۔

زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بکا تو لگا جیسے زندگی کے دروازے اب مجھ پر کھل گئے ہیں۔ چند ماہ کے بعد باہر کے لیے اڑان بھر دی۔ دل میں خواب بھرے تھے۔ اور عقل اس حقیقت سے انجان تھی جو میرے ساتھ ہونے والا تھا۔ وقت مجھے بہت کچھ سکھانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ جن جذبات اور احساسات سے میں عاری تھا ان سے آگاہی میری منتظر تھی۔ جن رشتوں کو میں نے پیروں میں روندا تھا اس کی جدائی کا غذاب سہنا تھا۔ جس رزق کو زمین پر دے مارتا تھا اس کی قدر کرنا سیکھنی تھی۔ محنت کے لفظ سے شناسائی ابھی باقی تھی۔

زندگی کو ابھی بہت ہچکولے لینے تھے۔ میں تو ان آسانیوں کا عادی تھا جو مشکلوں سے چھان کر میرے والدین مجھے دیتے تھے۔ عذاب جاں کے لیے باہر جانا میرا ذاتی فیصلہ تھا۔ اماں کی زندگی میں تہلکہ مچانے کے بعد اپنی زندگی میں کہرام اٹھنے کا آغاز ہو چکا تھا۔

اماں کو بلیک میل کر کے لائی ہوئی رقم چند دن بھی نہ چلی۔ یہ خیال تھا کہ نوکری ہاتھ باندھے کھڑی ہو گی پر یہاں کوئی سیدھے منہ بات کرنے کا ہی روادار نہ تھا۔ بے سروسامانی کا عالم تھا۔ ایک روز اپنی بے بسی پر زاروقطار رویا۔ بلک بلک کر رونے سے اماں کے آنسوں کی سچائی کا اندازہ ہوا تھا۔ لوگوں کی بے نیازی سے گزر جانے پر اماں کا پیار یاد آیا۔

سرد موسم کا آغاز ہو چلا تھا۔ سردی سے بچنے کے لیے تین قمیضوں اور ایک پتلے سے سویٹر کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ سڑک کے کنارے جہاں نیند آتی وہاں سو جانے کی کوشش میں لگا رہتا مگر سردی ایسی کہ ہڈیوں کے اندر تک گھسی چلی جاتی۔ ایسے میں گھر کی جھوٹی سی انگھیٹی کی تپش کا خیال دل کو سلگا کر رکھ دیتا۔

بھوک سے نڈھال ہو کر کوڑے دانوں میں کھانا تلاش کرتا۔ جسم کو گرم کرنے کے لیے میلوں دوڑتا۔ لوگوں کی اترن پہن کر جسم کی گرمائش کا کچھ ساماں کرتا۔ اسی طرح کرتے کرتے ایک دن ایک نوکری مل تو گئی پر مالک نے میرا پاسپورٹ اپنے قبضے میں رکھ لیا۔ شہزادہ کہلوانے والا اپنے گھر کی سلطنت پر راج کرنے والا اب بیت الخلا صاف کرنے پر مامور تھا۔ رات کو سونے کے لیے ایک کنٹینر نما کمرے میں چند فٹ جگہ نصیب ہوئی۔ سرد اور سخت فرش پر لیٹتے ہی گرم بستر کی یاد بہت ستاتی۔ گرم لحاف میں دھنی روئی کی کمی کا احساس مجھے اور سکڑ جانے پر مجبور کر دیتا۔ اماں کی یاد رہ رہ کر ستاتی۔ اس وقت احساس ہوا کہ میرے والدین نے کیسے مجھے ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا تھا۔ جب احساس گناہ ہوا تو گستاخیوں کے انبار تھے اور میلوں کے فاصلے۔

جیسے ہی کچھ رقم ہاتھ آئی تو اماں کو فون کیا۔ اماں کو جب جب حال دل سنانا چاہ تو زبان ساکن ہو جاتی۔ میں اماں سے خوش ہونے کا ڈرامہ کرتا اور اماں میرے ڈرامہ پر خوشی کا ناٹک۔ اماں حال دل سے خوب واقف تھیں مگر وہ مجھے شرمندہ ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ جب کبھی اماں سے یہ پوچھا کہ انہیں کچھ چاہیے تو بتائیں۔ تو ہمیشہ اس جملے کے بدلے میں دعائیں دیتی۔ ہر بار میں واری میں صدقے اور جگ جگ جینے کی دعا دے کر فون بند کر دیتی۔

وقت گزرتا گیا حالات میں کچھ تبدیل آئی تو ہر ہفتے اماں سے رابطہ کرتا۔ اماں ہر بار بس ایک سوال کرتیں کہ تو کب آئے گا؟ ان کو کو ہر بار یہ تسلی دیتا کہ جیسے ہی پاسپورٹ واپس ملے گا میں آ جاؤں گا اور پھر کبھی نہ جاؤں گا۔ پاسپورٹ کا تین برس سے پہلے ملنا ممکن نہیں تھا۔ جب بھی بات ہوتی تو دل کرتا کہ گڑگڑاتے ہوئے اماں کے پیروں کو تھام کر معافی مانگ لوں۔ اسی طرح رو رو کر ہلکان ہو جاؤں جیسے اماں میرے پیروں میں پڑی تڑپی تھیں۔ لیکن اماں سے فاصلوں کی دوری بہت تھی۔ معافی مانگنے کی تمنا میں گھر واپس لوٹ جانے کی جلدی تھی

اماں سے ہر بار معافی تلافی کرتا تو ہر بار وہ آگے سے ہنس دیتی۔ ہنستے ہنستے بات کا رخ کس اور طرف موڑ دیتی۔ پر میں پچھتاوے کے بھنور میں غوطے کھاتا رہتا۔

اس رات جب اماں سے بات ہوئی تو ان کی آواز میں بہت نقاہت تھی۔

فون پر مختصر بات کے بعد اماں خواب میں چلی آئیں۔ خواب کچھ یوں تھا

تنگ گلیاں۔ گلیوں میں تاریک گھر۔ اماں کے گھر کے پیچھے کھنڈر نما ایک مندر دکھائی دیا۔

گھر میں اماں بھی مندر کی طرح کھنڈر نظر آ رہی تھیں۔ گھر میں کوئی ویرانی سی ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ شام کا آخری پہر تھا۔ اماں دکھتے رکتے قدموں کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھی۔ دروازے سے اماں ڈوبتے سورج کو تکے جا رہی تھی۔ کھنڈر مندر، اماں کا لاغر جسم اور سورج مجھے سب ہی ڈوبتے دکھائی دے رہے تھے۔

سورج کے ڈوبتے ہی گھر میں ایک خوفناک تاریکی چھا گئی۔ میں خواب کے دوران ہی اماں اماں کہتا ہوا نیند سے اٹھ بیٹھا۔ ہڑبڑا کر فون کیا تو خبر ملی کہ اماں چند لمحے پہلے ہی چل بسی ہے۔

بہ شکریہ: ہم سب