1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. لینہ حاشر/
  4. طوبیٰ کچھ پوچھتی ہے ۔ کوئی جواب ہے؟

طوبیٰ کچھ پوچھتی ہے ۔ کوئی جواب ہے؟

جانتی ہوں دن گزر گئے ہیں۔ خبر اب پرانی ہے اس شہر برباد میں ایسی خبریں روز جنم لیتی ہیں۔ پھر چوبیس اڑتالیس گھنٹے بعد نئی کہانی۔ میں کتنے دن سے سوچتی تھی کہ کچھ لکھ سکوں۔ یقین مانیں میں بے حس نہیں ہوں، میں بے بس تھی، میں مجبور تھی۔ مجھے احساس ہے کہ دیر ہو چکی ہے مگر میں کیا کرتی جب بھی اس واقعے کے بارے میں لکھنے کا سوچتی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میرے ہاتھوں کی کلائیوں کو کسی تیز دھار آلے کے ساتھ کاٹ دیا گیا ہے ۔ میں منہ سے کچھ بولنا چاہتی تو کوئی تیز چھری لیے میرے گلے کو ایک سے دوسری طرف پھیرتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ خون تیزی سے بہتا ہوا دکھائی دیتا۔ نرخرے سے خوفناک آواز سنائی دینے لگتی ۔ کانوں سے سنائی دیتا پر منہ سے کچھ بھی کہنے کی ہمت کھو دیتی۔ جسم پر ایک کپکپی سی طاری ہو جاتی ویسی ہی کپکپی جیسی بکرے کے گلے پر چھری پھیرنے پر اس کے جسم پر طاری ہوتی ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی تمام کھایا پیا ابل کر منہ کی طرف آنے کو تیار ہو جاتا۔

سوچتی ہوں کہ طوبیٰ پر کیا گزری ہو گی جس کو موت اپنی آغوش میں لینے کے لیے بے قرار تھی مگر اس نے ہر بار ہمت کر کے زندگی کا ہاتھ ہی تھاما۔ سنا ہے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھائے جانے والی طوبی زندگی سے ملتے ہی مسکرا اٹھی۔ کتنی ہمت درکار ہو گی اس مسکراہٹ کے لیے۔ کیا ہم میں کوئی بھی ایسے سانحے کے بعد اتنے ہمت جتا پائے گا جیسی ہمت اس چھ سال کی بچی نے کی؟

چھ سال کی بچی سے ہم سب کا کسی نہ کسی روپ میں بہت گہرا رشتہ ہو گا۔ کسی کی پوتی بنی دالان میں بیٹھی اپنی گڑیا کے بالوں کو سنوارنے میں مصروف ہو گی۔ تو کہیں کسی کی لاڈلی نواسی بنی تصویروں میں رنگ بھر رہی ہو گی۔ کسی گھر میں ماں سے لپٹی سو رہی ہو گی۔ کسی گھر میں بیٹھی اپنے من پسند کارٹون دیکھنے میں محو ہو گی۔ کہیں کسی چچا سے فرمائش کر رہی ہو گی اور کہیں ضدی بھانجی کی طرح اپنی بات منوانے کے لیے رو رہی ہو گی۔ کسی بھی گھر کا دریچہ کھولا جائے تو چھ سال کی بچی کا ہنستا مسکراتا چہرہ آپ کو دکھائی دے گا۔

جانتے ہو نا کہ کتنی نازک ہوتی ہے یہ چھ سال کی بچی؟

کیسی ہوتی ہے چھ سال کی ننھی کلی؟ اس کے ننھے ننھے سے ہاتھ ہوتے ہیں اور چھوٹا سا دل۔ جو گڑیا کے گر جانے پر بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے دانتوں کے درمیان جگہ جگہ خلا دکھائی دیتا ہے جو اس کی معصومیت کو اور دلکش بنا دیتا ہے۔ روتے روتے ہنس دینا اور ہنستے ہنستے رو دینا اس عمر کی خاصیت ہوتی ہے۔ ضد کرتے کرتے باپ کے کاندھوں سے لٹک جانا اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ ان میں ایک ننھی سی جان طوبیٰ بھی اپنے گھر کے آنگن کی رونق ہو گی۔ آج ہم سب کے گھروں کی طوبیٰ محفوظ ہے اس لیے ہم سب کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طوبیٰ کو ریپ کرنے کے بعد قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیونکہ اس المناک حادثہ کا شکار ہونے والی طوبیٰ سے ہمارا خونی رشتہ نہ تھا۔ انسانیت کا رشتہ تو برسوں پہلے ہمارے معاشرے سے رخصت ہو چکا ہے۔

ہم سب اپنے اپنے دلوں اور سوچ کے در کو قفل لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ ہماری طوبیٰ ایسے لوگوں کی پہنچ سے دور ہمارے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے لیے یہ سانحہ ٹی وی چینلز پر دی ہوئی ایک چھوٹی سی خبر ہے۔ جس پر چند دن کا واویلا ہوا اور اس کے بعد ہم کسی اور نئی طوبیٰ کی خبر کے منتظر ٹی وی ریوٹ تھامے بیٹھے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ فرد بھی اس ہی معاشرے کا حصہ ہے جو طوبی کی گھات لگائے بیٹھا کسی ایک لمحے کی غفلت کا منتظر تھا۔ نجانے کتنے لوگوں کے دل و دماغ میں یہ خناس ہو گا جو بہت سی بچیوں کو برباد کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہوں گے۔ ہم جلسے، جلوسوں کے لیے تو پنڈال کے پنڈال بھر دیتے ہیں ۔دھرنے دیتے ہیں تو سفر کی مشقت بھی کاٹ لینے سے گریز نہیں کرتے۔ کسی بھی جماعت کے رہنماؤں کے طبع نازک پر کوئی بات گراں گزر جائے تو ان کے لیے سڑکوں پر آن کھڑے ہو جاتے ہیں مگر کسی بچی یا عورت کی عزت پر حرف آئے تو ہم خاموش رہتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ طوبیٰ کا قصور وار صرف وہ شخص ہے جس نے اس کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کھیلا؟ نہیں غلط۔۔ ہم سب اس واقعے کے بعد اپنے لبوں پر یہ جو خاموشی سجائے بیٹھے ہیں اس ظلم میں شریک ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جس نے اس کے انصاف کے لیے آواز بلند کی؟ اس کے جواب میں خاموشی کی بس سائیں سائیں سنائی دیتی ہے ۔ مجھے ڈر لگتا ہے جب حشر کے روز طوبیٰ اپنے رب سے پوچھے کی یااللہ اگر قیامت آج ہے تو پھر وہ کیا تھی جو اس پر گزری؟ وہ تمہارے اور میرے گریبان کو پکڑ کر ہم پر فرد جرم عائد کرے گی۔ اس دن کی شرمندگی سے بہتر ہے ہم مل کر طوبیٰ جیسی بےبس بچیوں کے لیے اپنے شہر اپنی گلی اپنے محلے میں آج سے ہی آواز بلند کریں۔ کتنے گھروں میں کتنی ہی چھ سال کی طوبیٰ ہیں۔ بیٹیاں تو یوں بھی سانجھی ہوتی ہیں۔ ایک قیامت گزری ہے اور قیامت نہیں گزرنی چاہیے۔ جو بھیڑیے ہماری گلیوں میں دانت نکوسے پھر رہے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ گھروں کی دہلیزپھلانگیں، کیا وقت نہیں کہ ان کی آنکھیں نکال دی جائیں، ان کے خون آشام جبڑے چیر دیے جائیں۔ ان کے نوکیلے پنجے کاٹ دیے جائیں۔ مجھے اپنی طوبیٰ کو بچانا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟


کریڈٹ: humsub.com.pk