1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نیاز احمد ڈیال/
  4. روزہ کے مقاصد اور صحت پر اثرات

روزہ کے مقاصد اور صحت پر اثرات

جب انسانی معدہ خالی ہوتا ہے تو وہ جسم میں پائی جانے والی اضافی چربیوں کو پگھلا کر مفید بنا دیتا ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، یہ اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر پہلو بارے مکمل آگاہی فراہم کرتا ہے۔ معاشرت، معیشت، تجارت، سیاست، حکومت اور صحت سے متعلق رہنمائی مہیا کرتا ہے۔
ارکانِ اسلام جہاں ہمیں روحانی طور پر راحت و سرور پہنچاتے ہیں وہیں جسمانی لحاظ سے بھی صحت وتندرستی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ پنجگانہ نماز ہو یا ماہِ رمضان کے روزے یہ ہمارے لیے روحانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ جسمانی آسودگی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی نہ صرف برائیوں سے روکتی ہے بلکہ جسمانی ورزش کا بہترین مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔
خاص کر موجودہ مصروف دور میں مصروف زندگی گزارنے والوں کے لیے تو جسمانی فٹنس کے حوالے سے نعمتِ بے بہا ہے۔ اسی طرح روزہ بھی اپنے اندر صبر واستقامت، تزکیہ نفس اور ایثار وہمدردی کے جذبات پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ بدنِ انسانی سے ان گنت بیماریوں کو دور کرنے کا قدرتی ذریعہ بھی ہے۔ انسانی جسم کو کئی ایک آلائشوں سے پاک کرنے کا بہترین سبب اور جسم سے زہریلے مادوں کو خارج کرنے کا باعث بھی ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے ہماری زندگی میں ایک بار پھر ماہِ رمضان کی برکتوں رحمتوں، اور مغفرتوں کی برسات کی آمد آمدہے۔ یہ ماہِ مقدس اللہ کی خوشنودی و رضا اور مغفرتِ بے بہا کا پیغام بر تو ہے ہی لیکن صحت و تندرستی کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ رمضان الکریم میں عام طور پر لوگوں کا عبادات کی طرف رجحان قدرتی طور پر بڑھ جاتا ہے۔ جوان، بچے اور بوڑھے سبھی ہی بڑے شوق و ذوق سے دن میں روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں تو راتوں میں نمازِ تراویح کے ذریعے قیام بھی کرتے ہیں۔ پنجگانہ نماز کی ادائیگی باقاعدہ کی جاتی ہے۔
حصول ثواب اور قربِ ذات کے لیے ہر مسلمان وفورِ جذبات کے ہاتھوں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ اگر چہ نماز و روزہ اللہ کی خوشنودی کا صدیوں سے ذریعہ چلا آرہا ہے لیکن جدید سائنسی اور طبی تحقیقات نے ان عبادات کی بدنی افادیت کو بھی ثابت کردیا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسانی جسم اور روح دونوں ہی شامل ہو تے ہیں۔ روزہ محض بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ فطرت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی عملی مشق ہے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سائنسی ارتقاء اور اسبابِ دنیوی کی فراوانی سے انسان کے روحانی و جسمانی مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ روپے پیسے کی ریل پیل سے اس نے اپنے طرزِ رہن سہن اور لباس و خوراک میں غیر فطری عوامل کو شامل کرکے اپنے جسمانی اور صحت و تن درستی کے کئی ایک عوارض کو دعوت دے رکھی ہے۔ ذہنی انتشار اور بدنی خلفشار کی بہتات کے اس دور میں روزے سے بڑی کوئی نعمت ہو ہی نہیں سکتی۔ روزہ صرف روحانی عبادت کا نام ہی نہیں ہے بلکہ یہ بدنی کسرت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ روزے کی مددسے موجودہ دور کے کئی خطرناک امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً بلڈ پریشر، یورک ایسڈ، کولیسٹرول، موٹاپا، جوڑوں کا درد، بواسیر اور شوگر جیسے موذی اور خطرناک امراض۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میں فرمایاہے کہ "اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بے شک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ " (الاعراف 31) شارع اسلام اور حکیم ِاعظم حضرت محمدﷺ نے بھی اپنے پیروکارو ں کو بتایا ہے کہ "معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز ہر دوا کی بنیاد ہے اور ہر جسم کو وہی کچھ دو جس کا وہ عادی ہے"۔ روزہ پرہیز کے حوالے سے ہمیں بہترین مواقع فراہم کرتا ہے۔ روزے جہاں رحمت و مغفرت کی برسات لاتے ہیں وہیں صحت و تن درستی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ سارا دن بھوک و پیاس معدے میں جمع ہونے والے فاضل مادوں کو جلا کر جسم کو ان کے نقصانات سے محفوظ کردیتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان میں ضبطِ نفس کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ صبر، استقامت اور حوصلے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ روزے سے نفسانی و شہوانی خواہشات کمزور پڑ جاتی ہیں یوں انسان غلبہ شہوت کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ جس طرح مالی زکوٰۃ مال کو آلائشوں سے پاک کرتی ہے با لکل اسی طرح روزہ جسم کو غیر ضروری اور مضر مادوں سے پاک و صاف کرتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر خون کے بڑھے ہوئے دباؤ کا نتیجہ ہو تا ہے۔ جب انسانی معدہ خالی ہوتا ہے تو وہ جسم میں پائی جانے والی اضافی چربیوں کو پگھلا کر مفید بنا دیتا ہے۔ جگر میں جمع شدہ گلائیکوجن جس کی اضافی مقدار ٹرائیگلائسائیڈ کی شکل میں نقصان دہ ثابت ہو تی ہے بحالتِ روزہ توانائی کی شکل میں جسم کو توانائی مہیا کرنے کا باعث بن جا تی ہے۔
دورانِ ماہِ صیام دھیان رکھیں! غذا کے حوالے سے یہ بات ہر گز اہم نہیں ہوتی کہ ہم کتنا کھا رہے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم کیا کھا رہے ہیں۔ ہمارے بدن کی نشوو نما اور طبعی تبدیلیوں کا دارو مدارغذا پر ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی جسمانی ضروریات، فطری رجحانات اور طبعی میلان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یومیہ غذا ؤں کا استعمال کریں تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہم 50% بیماریوں کے خطرات سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اپنے ماحول کو آلودگی اور پرا گندگی سے بچا کر مزید 20% امراض کے حملوں سے بچا جا سکتا ہے۔
اگر ہم ہر حال میں راضی بہ رضائے خدا رہنا سیکھ لیں یعنی خود ساختہ پریشانیوں سے سے خود کو بچا لیں تو ہم90% مختلف امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ بیماریوں کے حملوں اور اثراتِ بد سے بچنے کے لیے فطری غذائیں بہترین ہتھیار ہیں۔ فطری غذاؤں میں ہمارے لیے بیماریوں سے حفاظت اور شفا یابی کی مکمل صلاحیت پائی جاتی ہے۔ متوازن اور مناسب غذائیں ہمیں خاطر خواہ حد تک ضدی اور موذی امراض سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ متوازن اور مناسب غذائیں ایسے غذائی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں جو ہمارے بدن کی بنیادی اورلازمی ضرورت ہوتے ہیں۔ ان بنیادی اور لازمی غذائی اجزاء میں کیلیشیم، پوٹاشیم، فاسفورس، گندھک، جست، فولاد، کیراٹین، آیوڈین، کاربوہائڈریٹس، وٹامنز اور پرو ٹینز وغیرہ شامل ہیں۔ سحر و افطار کے اوقات میں منتخب غذائی اجزا کے استعمال سے ہم روزے کے فلسفے اور روح سے خاطر خواہ روشناس ہو سکتے ہیں۔
ہمارے یہاں ماہِ رمضان میں دن بھر روزہ رکھنے کے بعد خوب تلی غذاؤں کا دستر خوان پہ سجانا فیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سموسے، پکوڑے، کچوریاں اور دوسری بھنی ہوئی ڈشیں افطاری میں بڑے شوق سے شامل کی جاتی ہیں۔ لذت، مزے اور چسکے کے چکر میں روزے کی بدنی افا دیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے اور روزے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ روزے کا مقصد تو جسم کو فاضل مادوں اور آلائشوں سے پاک کرنا ہے جبکہ بسیار خوری اور غیر متواز ن خوراک کا بے دریغ استعمال فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ اگر ہم اپنے بدن کی غذائی ضرورت سے زیادہ چکنائیاں وغیرہ استعمال کرتے ہیں تو وہ جسم کے مختلف حصوں میں جمع ہو کر کئی ایک امراض پیدا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں۔
ایسے تمام غذائی اجزاء جو جسم کی ضرورت سے زیادہ ہوتے ہیں وہ چربیلے ذرات کی شکل میں جوڑوں میں جمع ہو کر جوڑوں کے درد، گنٹھیا، نقرص، موٹاپا اور کمر درد جیسے امراض پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح یہی چربی خون میں شامل ہو کر خون کو گاڑھا کر کے کو لیسٹرول، شوگر اور بلڈ پریشر جیسے موذی عوارض کا باعث بنتی ہیں۔ بعد ازاں یہی فاضل مادے گردوں پر اثر انداز ہو کر یوریا اور یورک ایسڈ کی زیادتی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یوں وہ خوراک جسے ہم اپنی صحت مندی اور تن درستی کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ کئی ایک موذی امراض کو ہم پر مسلط کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو دنیا بھر میں اتنے لوگ بھوک اور افلاس سے نہیں مر رہے جتنے بسیار خوری سے مر رہے ہیں۔ لہٰذا اب یہ ہماری اپنی انفرادی ذمے داری ہے کہ ہم اپنی خوراک میں توازن پیدا کریں۔ کھانے کے درمیانی وقفے کو مناسب رکھیں اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ایک خوشگوار، خوشحال اور آسودہ زندگی گزارنے والے بن جائیں۔
ہر انسان کی جسمانی غذائی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔ ایک تندرست انسانی جسم کوعام طور پر یومیہ 2600 کیلوریزدرکار ہوتی ہیں۔ ہاں البتہ مختلف عمروں اور مختلف ماحول کے افراد میں اس ضرورت میں کمی و بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاََ زیادہ تر خواتین اور بوڑھے افراد کو روزانہ 1600 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بچوں اور نو جوان لڑکیوں کی یومیہ جسمانی ضرورت 2200 کیلوریز تک ہوتی ہے۔ ایسے مرد اور نو جوان افراد جو محنت و مشقت کے کام کرتے ہیں انہیں روزانہ 2800 کیلوریز درکار ہوتی ہیں۔ مذکورہ کیلوریز یا غذائی حرارے ہم اپنی روز مرہ خوراک سے حاصل کرتے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ طویل عمر، صحت مند جسم اور آسودہ حال زندگی کے مالک بن جائیں تو روزہ رکھنا لازمی کرلیں کیونکہ سال بھر میں ایک مہینہ ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی صحت و تن درستی کے حوالے سے اپنی عادات و معمولات پر نظر ثانی کر یں۔ رواں موسم میں روزہ ہمیں فطری طور پر 14 سے 16گھنٹوں کا وقفہ مہیا کرتا ہے۔ یوں مندرجہ بالادی گئی کیلوریز اور انسانی جسم کی ضررویات میں توازن قائم کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہی بن سکتا ہے۔ سحر و افطار میں ہم اپنی جسمانی ضرورت کے مطابق غذا کا انتخاب کرکے سال بھر کی بے اعتدالیوں کا تدارک کر سکتے ہیں۔ غیر ضروری خور ونوش کی قبیح عادات سے چھٹکارا پانے میں کامیاب بھی ہوسکتے ہیں۔
اگر ہم روزے کی روح کو سمجھتے ہوئے اور اس کو تقاضوں کو نبھاتے ہوئے روزے رکھیں تو ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ آپ درج ذیل فوائد اور مقاصد کے حصول میں یقینی طور کامیاب ہوں گے۔ آپ کا جسم اضافی چربی اور فاسد مادوں سے پاک ہو گا۔ موٹاپے کا شکار خواتین و حضرات وزن میں خاطر خواہ کمی کرسکتے ہیں۔ کولیسٹرول اور کولیسٹرول کے نقصانات سے نجات ملے گی۔ خون کا گاڑھا پن ختم ہو کر کئی دیگر امراضِ خون سے جڑے عوارض سے چھٹکارا ملے گا۔ بلڈ پریشر جیسے خاموش قاتل پر قابو پانے کی ہمت اور سبیل پیدا ہوگی۔ ذیابیطس جیسے موذی مرض سے نجات حاصل ہوگی۔ یورک ایسڈ کے عوارض سے جان چھو ٹ جائے گی۔
سگر یٹ، چائے اور شراب نوشی کی صحت دشمن عادات سے بہ آسانی پیچھا چھوٹ جائے گا۔ روزہ رکھنے سے جسم کو فرحت وتازگی ملے گی۔ روزے سے ذہنی امراض ڈپریشن، سٹریس اور اینگزائیٹی سے نجات ملتی ہے۔ روزے سے بے خوابی دور ہو کر پر سکون نیند میسر آتی ہے اور خواب آور ادویات سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔ روزہ رکھنے سے انتڑیاں اور معدہ فاسد رطوبات سے پاک ہو جاتے ہیں اور یوں ان کی کارکردگی اور افعال میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے۔ روزے سے انسانی خد وخال اور ڈیل ڈول میں خوبصورتی اور دلکشی پیدا ہوتی ہے۔ چہرے کی کیل، مہاسے اور گرمی دانوں سے نجات ملتی ہے۔ روزہ رکھنے سے اعصابی اور جسمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ 16 گھنٹے تو روزے کا دورانیہ ہے، 6گھنٹے سونے کیلئے درکار ہوتے ہیں، باقی بچے 4گھنٹے ان 4گھنٹوں میں اپنے نفس اور خواہش پر قابو پانا ہی اصل مجاہدہ ہے۔ ایسے افراد جو سگریٹ نوشی کی علت میں بری طرح گرفتار ہوں اگر تھوڑی سی ہمت کا مظاہرہ کریں تو اس عادت سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح چائے، پان، نسوار اور دیگر نشے والی کسی بھی عادت میں گرفتار ہو نے والے افراد بھی اپنی ان قبیح عادات سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں ذرا سی ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرکے ان عادات اور ان کے اثراتِ بد سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ سگریٹ نوشی کے عادی افراد روزانہ ایک، ایک سگریٹ کم کرتے جائیں تو مہینے بعد عادت چھوٹ جائے گی۔ عام طور پر 30 سگریٹ روزانہ کم لوگ ہی پیتے ہیں۔
رمضان کے بعد عید کی خوشیوں بھری ساعتیں آتی ہیں۔ مہینے بھر کی پابندیوں کا سامنا کرنے کے بعد کھا نے پینے کی آزادی ملتی ہے تو ہم اکثر و بیشتر افراط و تفریط کا شکار ہو کر مختلف امراض کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں۔ عید کے روز تو اور بھی زیادہ احتیاط اور پرہیز کی ضرورت ہوگی کیونکہ روزوں کی برکت سے حاصل کی جانے والی صحت اکثر لوگ عید کے اگلے دن ہی اپنے ہاتھوں سے کھو دیتے ہیں۔ زیادہ مرغن اور تیز مصالحہ جات والے کھانوں سے دور ہی رہا جائے تو بہتر ہے، اگر چٹخارے دار اشیاء کا کھانا بہت زیادہ ضروری ہو تو ان کے ساتھ کو لا مشروبات سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح کھا نے پینے کے معمول میں بھی احتیاط کا دامن ہر گز نہ چھوڑیں۔ کم از کم6گھنٹے کے وقفے سے کھانا کھائیں ورنہ معدہ جو مہینہ بھر 16 گھنٹے خالی رہنے کا عادی ہو چکا تھا ردِ عمل کے طور پر غذائی بد پر ہیزی میں مبتلا ہو کر آپ کو اور آپ سے جڑے افراد کو پریشانی لاحق کرنے کا باعث بن جائے گا۔
علاوہ ازیں روزے کے حوالے سے ایک اہم بات وہ یہ کہ روزہ رکھنے کا مقصد ہمیں سال بھر کے لیے اپنے معمولات متعین کرنا ہو تا ہے۔ جسمانی اور روحانی طور پر پاکیزگی کا حصول ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں روزے کو نام ونمود اور شہرت و ناموری کے لیے استعمال کیے جانے لگا ہے۔ انوا ع واقسام کے کھانوں سے مزین افطار پارٹیاں سجا کر ہم نے روزے کی اصلی روح کو ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔ مرغن و متنو ع کھانو ں سے سجی ان افطار پارٹیوں میں شریک افراد جس طرح خور و نوش کا مظا ہرہ کرتے ہیں، دکھائی یوں دیتا ہے کہ شاید کھانے پینے کا یہ پہلا اور آخری موقع ہے۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بعد اس قدر زیادہ کھانا با لکل بھی صحت مندانہ طرزِ عمل کو ظاہر نہیں کرتا۔
سحر و افطار کے اوقات میں بس اتنا سا فرق ملحوظ رہے کہ آ پ کے کھانے پینے کے طرزِ عمل سے"زندہ رہنے کے لیے کھانا"جھلکے اور نہ کہ "کھانے کے لیے زندہ رہنا"ظاہر ہو۔ پیٹ بھر کے ضرور کھائیں لیکن جی بھر کے کھانے کی کوشش نہ کریں۔ یہی روزے کا مقصد اور تقاضا ہے، اور جب تک ہم روزے کی روح، مقصد اور تقاضے کو پورا نہ کریں گے تو ہمیں ما سوائے بھو کا اور پیاسا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔