1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نورالعین/
  4. خدا اور اسکے بندہ کی چاہت (2)

خدا اور اسکے بندہ کی چاہت (2)

عمر: میری بات مت کاٹا کرو۔

معاذ: ہاں یہی میں کہہ رہا ہوں کسی کی بھی بات اس طرح نہیں کاٹتے اگر بانو باجی نے کھانا بنایا تھا تو ہم سب ساتھ کھا لیتے۔ تم 10 سال بعد آے ہو انکے ساتھ وقت گزارو اگر تم مجھے نہیں بتا سکتے ہو اپنی پریشانی۔ تو اس طرح دوسروں پر بھی غصہ مت کرو۔

(عمر اپنے گھر آیا اور کمرہ میں بیٹھ کر یہی سوچ رہا تھا آخر مجھے اتنا غصہ کیوں آتا ہےکیا ابراہیم کی باتیں ٹھیک تھی؟ میرے پاس سب کچھ ہے عزت شہرت پیسہ بنگلہ گاڑی مگر سکون کیوں نہیں ہے؟ کیا بے چینی ہے؟ وہ اٹھ کر باہر پانی پینے آتا ہے اسکی نظر دیوار پر لگی ہوی تصویر پر پڑتی ہے وہ ایک دم کہتا ہے یہ تو میں اور سلیم ہیں۔

بانو: ہاں تم دونوں ہو شروع سے تم دونوں ساتھ ہی تھے۔

عمر: ارے آپ ابھی تک جاگ رہی ہیں؟

بانو: نہیں میں فجر کے لیے اٹھی تھی۔ تم بھی آؤ نماز کے لیے۔۔۔ سردی بہت ہے اس لیے میں نے گرم پانی کردیا تھا تم وہ وضو کے لیےاستمعال کرلو۔ (عمر بات کاٹتے ہوے) جی میں آتا مگر نیند آرہی ہے پوری رات نہیں سویا۔

بانو: ٹھیک ہے آرام کرلو۔ مگر ایک بات یاد رکھنا جس سکون کو تم تلاش کر رہے ہو وہ سکون تمھارے قلب میں چھپا ہوا ہے۔

عمر: میری زندگی میں سکون ہے آپ سے کس نے کہہ دیا کہ میں پریشان ہوں؟

بانوباجی: تمھارے چہرے نے۔ کہا ہے سکون تمھارے غصہ میں؟ کہا ہے کامیابی تمھارے پیسہ میں؟ یہ کامیابی نہیں ہوتی عمر۔

عمر: ایک منٹ رکیں میری بات کا جواب دیں کیا میں کامیاب نہیں؟ آپ نہیں جانتی مجھے۔۔۔۔ میرے پاس سب کچھ ہے آپ معاذ سے پوچھیں ںساری یونیورسٹی مجھے جانتی ہے۔ اور آپ کہہ رہی ہیں میں کامیاب نہیں ہوں۔۔۔

بانو: خدا تمھیں جانتا ہے؟ جب میرا رب آواز دیتا ہے تم جاتے ہو؟ عمر اللہ سے محبت ہمیں نماز کی طرف لے جاتی ہے انسان خود نہیں اٹھاتا محبت اٹھاتی ہے۔

عمر: میں نماز پڑھتا ہوں۔ (گھبراتے ہوے)

بانو باجی: تم پریشان کیوں ہورہے ہو(مسکراتے ہوے) تم ایک کام کرو جاکر استاد جی سے ملو وہ تمھیں بتایں گے اصل کامیابی کہا چھپی ہے۔

عمر: استاد جی(حیرت سے)؟ ؟ ؟

بانو: ہاں بیٹا انھوں نے تمھیں قرآن پاک پڑھایا تھا اب کا تو پتہ نہیں کہ تمھیں یاد ہے کہ نہیں مگر تم نے 14 سال کی عمر میں آدھا(نصف) قرآن پاک حفظ کر لیا تھا اس وقت تم ذہین بھی تھے۔ اسکے بعد تم پاکستان چلے گے اور کھبی پیچھے مڑ کر ہی نہیں دیکھا۔

عمر: آپ سلیم سے کہیں کہ وہ مجھے ابھی استاد جی کے پاس لے کر جاے۔

سلیم: استاد جی آپ سے ملنے عمر آیا ہے(عمر کا حوالہ دے کر وہ اسکو پہچان گے)

استاد جی: کیسے آنا ہوا؟

عمر: کامیابی ڈھونڈ رہا ہوں؟

استاد جی: کامیابی تو میرے رب کے ذکر میں ہے۔ (مسکراتے ہوے)

عمر: میرے ذہن میں بہت سارے سوال ہیں۔۔۔

استاد جی: پوچھو۔

عمر: میں ایک کامیاب انسان ہوں مگر میری زندگی میں سکون نہیں ہے۔ میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں مگر سستی آجاتی ہے۔ میرا دل کیوں نہی لگتا نماز میں؟ میرے دل میں کیا بےچینی ہے؟ میرا دل ایک پتھر بن چکا ہے مجھے خدا کی چاہت حاصل کرنی ہے مجھے نہیں چاہیے اپنی چاہت۔ (عمر کے جملے گواہی دے رہے تھے جیسے وہ ہار گیا ہو زندگی سے)

استاد جی: تم کامیاب ہو؟ ؟ (مسکراتے ہوے)

عمر: جی۔۔۔

استاں جی: پتر تمھاری نظر میں کامیابی کیا ہے؟ ساری دنیا تمھیں جانے پہچانے یہ ہے کامیابی۔۔۔۔؟

عمر: جی۔۔۔

استاد جی:جس کامیابی کی تلاش میں تم یہاں تک آگے ہو وہ کامیابی تو تمھارے قلب میں چھپی ہے۔ خدا سے دوستی کرلو کامیابی تمھارے قدم چومے گی۔

عمر: میں جب اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ہر جگہ اندھیرا محسوس ہوتا ہے۔ کچھ وقت پہلے ہی کی بات ہے میں بہت مطمعین تھا اپنے آپ سے اپنی زندگی سے مگر اب ایسا لگتا ہے جیسے میرے پاس سکون ہی نہ ہو۔

استاد جی: مایوسی کا علاج تو اسکی مقدس کتاب میں ہے اور جہاں تک بات تمھارے سکون کی بات رہی تو سورۃ رحمن سن لیا کرو میں نے محسوس کیا ہے اس میں غمگین دلوں کی تسکین پوشیدہ ہے۔

ہم لوگوں کا یہی تو مسلہ ہے جب میرا رب بلاوا دیتا ہے تو ہم جاتے ہی نہیں بار بار وہ کہتا ہے آؤ بھلای کی طرف آؤ کامیابی کی طرف۔ جب ہم کہاں اسکے بلاوے کو سنتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہم کامیاب نہیں۔۔۔ اذان کے وقت تو جنت کے دروازہ کھل جاتے ہیں میرا رب کہتا ہے جو دعا کرو گے میں اس وقت قبول فرماوں گا۔ اور پھر میرا رب راضی ہوجاے تو مقدر بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ (بےشک)

عمر: آپکی باتیں صحیح ہیں۔۔۔ پتا نہیں میرے کتنے گناہ ہیں میں ان سب گناہ کا بوجھ کیسے اٹھاوں گا؟

استاد جی: میرا خدا تو رحیم ہے رحمن ہے اس نے تو ہمارے لیے توبہ کے دروازے کھول رکھیں ہیں جب تم اسکی طرف لوٹ کر جاتے ہو وہ تمھیں مسکرا کر دیکھتا ہے۔ (جو کوی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا اور جو برای کرے گا وہ آپ ہی اسکا خمیازہ بھگتے گا۔ پھر جانا تو سب کو اپنے رب ہی کی طرف ہے) الجاثیہ: ١٥

عمر اس گہری سوچ میں اس قدر مصروف تھا کہ اسے اپنے فون کی آواز ہی نہیں آئ۔

استاد جی: تمھارا فون بج رہا ہے۔

عمر: اووو جی! ہاں معاذ بولو؟

معاذ: تم کہاں ہو ہم سب تمھارا انتظار کر رہے ہیں؟

عمر: آج دیر ہوجاے گی تم لوگ انتظار نہیں کرو اور بانو باجی کو کہنا کہ وہ میرے لیے پریشان نہیں ہوں آج میں ہر سوال کا جواب ڈھونڈ کر ہی آؤ گا۔

استاد جی: تم گھر جاؤ کافی دیر ہوگی ہے۔

عمر: آپ مجھے ایک بات بتایں نماز کا مطلب ہے اللہ کے سامنے کھڑے ہونا۔۔۔ ہم نماز کسی ڈر یا خوف سے پڑھتے ہیں؟

استاد جی: نہیں بلکل نہیں۔ پتر نماز ایک محبت ہے جو خدا اور اسکے بندہ کے درمیان ہوتی ہے۔ تمھاری بات بلکل صحیح ہے ہم نماز میں خدا کے سامنے حاضری لگواتے ہیں۔ تم نماز کو محبت سمجھ کر ادا کرو گے تو میرا رب اگلی نماز کے لیے خود بلاے گا۔

یہ مت سوچو کہ میں نماز کیوں نہیں پڑھتا کیا میرے پاس وقت نہیں؟ کیا مجھے سستی آجاتی ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہےبلکہ تم یہ سوچو مجھ سے ایسا کونسا گناہ ہوگیا ہے جو میرا رب مجھے اپنے سامنے کھڑا کرنا پسند نہیں فرما رہا۔

عمر: پھر تو ایسا بہت بار ہوا مجھ سے تو نہ جانے کتنے گناہ ہوے ہیں۔ (مایوسی سے)۔۔۔

استاد جی: تم کیوں اتنے مایوس ہو تمھاری مایوسی کا علاج اسکی مقدس کتاب میں ہے جو ہم زندگی میں ایک بار پڑھ کر اپنی الماری میں رکھ دیتے ہیں۔ (عمر اپنے استاد کی باتیں غور سے سن رہا تھا اور اسی طرح اسکو ایک ہفتہ ہوگیا تھا وہ روز ظہر کی نماز کے بعد آتا اور دیر تک استاد جی سے باتیں کرتا)

30مارچ۔۔۔۔۔ دوپہر کا وقت۔۔

عمر: میرے جانے کے بعد آپ کیا کریں گے؟

استاد جی: (مسکراتے ہوے) ہماری تو ساری زندگی اللہ کی کتاب لکھنے میں لگ گی ہے بس آج سورۃ فاطر مکمل کروں گا۔ تمھیں یاد ہے تم چھوٹے تھے تو میرے برابر میں بیٹھ کر ضد کرتے تھے کہ میں نے بھی اللہ کی کتاب لکھنی ہے۔

عمر:(مسکراتے ہوے) اپنے ہاتھوں کی طرف نظر ڈالتے ہوے کہتا ہے خدا ان ہاتھوں میں اتنی طاقت دے کہ میں لکھ سکوں۔

استاد جی: تم پاکستان کب جاؤ گے؟

عمر: شاید اگلے ہفتے مگر کیوں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟

استاد جی: مجھے جانا ہے کیونکہ میرے نواسے کی طبعیت کافی خراب ہے۔

عمر: او اچھا! آپ سے ایک سوال کروں جو سوال شاید مجھے یہاں تک کھینچ لایا۔۔

استاد جی: ہاں ضرور پوچھو؟

عمر: یہ خدا اور اسکے بندہ کی چاہت کیا ہوتی ہے؟

استاد جی: میری ایک بات یاد رکھنا ہم سب کہی نہ کہی بھٹک جاتے ہیں ہم اس راہ پر نکل جاتے ہیں جس پر ہمارا رب راضی نہیں ہوتا۔ کامیابی بس خدا کی چاہت میں ہی ہے۔ تم اپنے معملات خدا کے سپرد کر کہ تو دیکھو جہاں سے تمھیں گماں نہیں ہوگا میرا رب وہاں سے تمھارے لیے راستہ بناے گا۔ میرے رب نے بار بار کہا ہے(تم مجھے پکارو، میں تمھاری دعایں قبول کروں گا)۔ ہم جو چاہتے ہیں ضروری نہیں ہوتا وہ ہمارے لیے صحیح ہو مگر ہم کہا سنتے ہیں ہم اسی راہ پر واپس نکل جاتے ہیں جس پر ہمارا رب راضی نہیں ہوتا پھر اس چوٹ سے ٹھوکر کھا کر ہم اپنے رب کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ (پھر جانا تو سب کو اپنے رب ہی کی طرف ہے) بندہ کتنا بھی کچھ چاہ لے اسکی چاہت سے کچھ نہیں ہوگا جب تک اسکا رب نہیں چاہے گا۔۔" اور تمھارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ نہ چاہے" القرآن۔

(عمر انکی بات غور سے سن رہا تھا اور جب گھر جانے کا وقت آیا تو اسکی نظر ایک معزور پر پڑتی ہے جو اپنے آپکو گھسیٹھ گھسیٹھ کر مسجد کی طرف لے کر جارہا ہوتا عمر کے دل میں ایک دم خیال آیا میں تو بلکل صحیح ہوں پھر بھی کھبی مسجد نہیں گیا ابراہیم کی باتیں ٹھیک ہی تو تھی میں کہا کسی کا محتاج ہوں میں پھر بھی اپنے رب کی نعمتوں کا شکر نہیں کرتا )۔۔۔ (عمر اس وقت بہت مایوس تھا گھر آیا اور فوراً ہی کمرہ میں چلا گیا اسکے ذہن میں سب کی باتیں گھوم رہی تھی وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا اسے اور وہ سو گیا۔ اسکی آنکھ رات کے 2۔ 30 بجے کھلی اس وقت سرد موسم تھااور بستر گرم۔۔ عمر نے نیت تہجد کے لیے کی نماز پڑھنے کے بعد جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا تو اسکی آنکھوں میں بہت آنسؤ تھے عمر کچھ نہیں کہتا اور بس رو رہا ہوتا ہے اسکے ذہن میں ایک دم ابراہیم کی بات آتی ہے" تہجد کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں اس وقت میرا رب آخری آسمان پر آجاتا ہے اور کہتا ہے کوی ہے جو مجھ سے اس رات کے وقت مانگے گا"۔۔

عمر: "میرے رب مجھے سیدھی راہ دکھا۔ مجھے اس راہ پر چلا جس پر تو راضی ہے۔ یا میرے رب مجھے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما میرے قلب کو سکون دے مجھ سے ناراض نہیں ہو بے شک تو رحمن ہے رحیم ہے۔ اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو مجھ پر آسان کردے اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں۔۔۔۔

عمر ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد روز استاد جی کے پاس جاتا ہے اور ان سے بہت ساری باتیں کرتا ہے۔۔۔

(شام کا وقت ا اپریل)

معاذ: عمر تمھیں یاد ہے نہ کل ہم پاکستان جارہے ہیں۔

عمر: نہیں یار میں تو بھول گیا۔۔ تم لوگ جاؤ میں بعد میں آؤں گا۔۔

معاذ: مجھے یہ بدلتا چہرہ حیرت میں نہیں ڈال رہا بلکہ بہت خوشی ہوی ہے۔

عمر: ( مسکراتے ہوے) اچھا چلو میں چلتا ہوں تم بھی ساتھ چلو عصر کی نماز ساتھ ہی پڑھ لیتے ہیں۔

اگلے دن بروز پیر ۲ اپریل۔۔۔۔۔

عمر: معاذ یہ خط جاکر ابراہیم کو دینا یاد سے اور ہاں اسکو کہنا مجھے میرے ہر سوال کا جواب مل گیا۔

معاذ: ارے تو کال(call)کرلو۔

عمر: اسکا فون خراب ہے کل میں نے اسکے گھر کے نمبر پر بھی کال کی تھی مگر کسی نے نہیں اٹھای۔۔ بس تم جاکر اسے سارے خط دینا۔ اور میں مسجد جارہا ہوں استاد جی کے پاس۔۔۔

(عمر مسجد جاتا ہے تو وہاں اسے پتا چلتا ہے استاد جی کے نواسے کی طبعیت کافی خراب تھی اسلیے وہ کل رات ہی پاکستان چلے گے)

بانو باجی: عمر آگہے تم آج اتنی جلدی۔

عمر: جی وہ استاد جی پاکستان گہے ہیں انکے نواسے کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی۔

بانو باجی: اچھا پھر تم ہاتھ منہ دھو لو میں کھانا لگا دیتی ہوں۔

روز عمر عشا کی نماز کے بعد قرآن کو پڑھتا اور اسکا ترجمعہ سمجھنے کی کوشش کرتا۔

بدھ 4اپریل۔۔۔۔

عمر رات میں نماز پڑھنے کے بعد اپنے کمرہ کی کھڑکی سے اپنے شہر کا خوبصورت منظر دیکھ رہا ہوتا ہے اتنے میں معاذ کی کال آتی ہے۔۔

عمر: ہاں معاذ تم پہنچ گے خیریت سےاور میرے خط ابراہیم کو دیے؟ کب سے تمھاری کال کا انتظار کرہا ہوں۔

معاذ: ہاں ہم پہنچ گیا تم بھی بس پاکستان آجاو

عمر: میں پوچھ رہا ہوں تم نے میرے خط ابراہیم تک پہنچاے یہ راستے میں ہی پھینک دیے؟

معاذ: ارے نہیں یار وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر:کیا؟ ؟ ؟ امی ٹھیک ہیں؟ ؟ ؟

معاذ: ہاں یار۔۔

عمر: کیا ہوا ہے؟ ؟

معاذ: یار ابراہیم کا انتقال ہوگیا۔۔۔

عمر:کیا!(حیرت سے) مذاق مت کرو۔۔

معاذ: میں مذاق نہیں کررہا میں فوراً ہی تمھارے خط دینے کے لیےابراہیم کے گھر گیا تو مجھے وہاں پتہ چلا۔۔۔ اسکو (Brain Cancer) تھا۔۔۔

یہ سن کر ہی عمر فون کاٹ دیتا ہے اور فوراً ہی سلیم کے پاس جاکر کہتا ہے: سلیم کل مجھے پاکستان جانا ہے جلد سے جلد میری فلاٹ کروادو بہت ضروری ہے جانا۔

بانو: عمر بیٹا خیریت تو ہے امی ابو ٹھیک ہیں؟

عمر: جی بانو باجی مجھے میرے دوست کے پاس جانا ہے۔

اگلے دن۔۔۔۔

فرحانہ بیگم: رحمت تم ابھی تک گھر ہو اۂیرپورٹ نہیں گے؟

رحمت: چھوٹے صاحب آگے ہیں وہ Direct ہی اپنے دوست ابراہیم کے گھر چلے گےمعاذ کے ساتھ۔۔ اور سامان یہ رہا انکا۔

فرحانہ بیگم: اچھا جاؤ اسکے کمرہ میں رکھ دو۔

ابراہیم کے گھر میں داخل ہوتے وقت عمر کے ذہن میں وہ ساری باتیں گھوم رہی تھی جو اسنے ابراہیم سے کری تھی اسی دوران عمر کی نظر ایک بوڑھے سے شخص پر پڑتی ہے جو اس وقت سورۃالبقرہ کی تلاوت کرہے تھے۔

عمر: استاد جی آپ! میں نے کتنا انتظار کیا آپکا۔۔ آپ کے ساتھ جو آپکے شاگرد تھے انھوں نے بتایا کہ آپ پاکستان ہیں آپکے نواسے کی طبعیت کافی خراب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( عمر ایک دم چپ ہوجاتا ہے)

استاد جی: ہاں میں نے تمھیں بتایا تھا کہ میرا نواسہ کافی بیمار ہے بس وہ اپنی بیماری سے خود لڑتا رہا اور ہم سب کو چھوڑ کر چلا گیا ابراہیم۔

عمر: ابراہیم آپکا نواسہ تھا۔۔۔۔۔۔۔؟ ؟ ؟ (حیرت سے)

استاد جی: ہاں پتر اس کو ہم نے ہی پالا چھوٹی سی ہی عمر میں ماں باپ کا سایہ چلا گیا اسکے سر پر سے۔۔ پھر میں اسکو اسلام آباد لےآیا اپنے ساتھ۔۔ میں تو زیادہ تر ترکی ہی ہوتا ہوں ابراہیم یہاں اپنی نانی کے ساتھ رہتا تھا۔ بہت نیک اور شریف لڑکا تھا۔

(عمر کے ذہن میں ابراہیم کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ یاد آرہا تھا اور وہ خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا جاتا ہے)

معاذ: عمر کہا جارہے ہو؟

عمر: مجھے یقین نہیں آرہا ابراہیم ( اور عمر آگے کچھ نہیں کہہ پاتا اور معاذ کے گلے لگ کر رونے لگ جاتا ہے)

ایک ہفتے بعد۔۔۔۔

رحمت: عمر آپ سے ملنے ابراہیم کے نانا آے ہیں

عمر: استاد جی(حیرت سے)

رحمت: جی اور معاذ بھی انکے ساتھ ہے۔۔

عمر: اچھا میں آتا ہوں۔۔

(عمر پہلی مرتبہ اپنے استادجی سے ملتے وقت ڈر رہا تھا)

عمر: استاد جی۔۔۔

استادجی: آؤ بیٹا مجھے معاذ نے بتایا تمھارے اور ابراہیم کے تعلاقات کا۔۔ تم شرمندہ نہیں ہو۔۔ مجھے خوشی اس چیز کی ہے کہ تمھیں ابراہیم نے ہلکی سی روشنی دکھای۔۔ اب تم ابراہیم کا ادھورا کام مکمل کرو۔۔

عمر: ادھورا کام کونسا (حیرت سے)

معاذ: ابراہیم سورۃ الانعام لکھ رہا تھا اب تم اسکو مکمل کردو۔۔

عمر: یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔۔۔

استاد جی: خدا تمھیں موقع دے رہا اپنی کتاب لکھنے کا۔۔

کچھ ماہ بعد۔

معاذ: عمر ہوگئ سورۃ ختم؟

عمر: ہاں بس۔۔۔۔ بڑی خوبصورت سورۃ ہے۔۔

معاذ: اس آیت کا کیا مطلب ہے؟

عمر: "اور وہی ہے جو رات کے وقت(نیند میں ) تمھاری روح (ایک حد تک قبض کرلیتا ہے) اور دن بھر تم نے جو کچھ کیا ہوتا ہے، اسے خوب جانتا ہے، پھر اسے (نۂے دن) میں تمھیں زندگی دیتا ہے تاکہ (تمھاری عمر) مقررہ مدت پوری ہوجاے۔۔ پھر اسی کے پاس تم کو لوٹ کر جانا ہے اس وقت وہ تمھیں بتاے گا کہ تم کیا کیا کرتے تھے"۔

(سورۃ الانعام آیت نمبر 60)