1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نورالعین/
  4. سانحہ پشاور‎

سانحہ پشاور‎

استاد کی اہمیت کا اندازہ لگایا جائے تو ہمارے نبی کو "معلم اول" کہا جاتا ہے۔ کیونکہ خدا پاک نے ہمارے نبی کو گمراہ انسانیت کو تعلیم دینےکے لیے معبوث فرمایا۔ ایک بہت پیاری سی روایت ہے حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ: اگر علما یعنی استاد نہیں ہوتے تو لوگ جانور ہوتے کیونکہ استاد ہی تعلیم کے ذریعے انہیں حیوانیت سے نکال کر انسانیت کی سطح تک پہنچاتے ہیں۔

16 دسمبر کو ہمارے ملک میں ایک سانحہ پیش آیا جو ایک درناک واقعہ ہے اور ہمیشہ ہمیں یاد رہے گا۔ اس سانحہ میں ہمارے بہادر اساتذہ اور اس ملک کے بیٹے ہیرو بن چکے ہیں۔ جنہوں نے ایثار و قربانی کے مقام و مرتبہ کو بلند کیا۔ آرمی پبلک اسکول کے اساتذہ نے اپنی جان کی فکر کرنے کے بجائے۔ بچوں کی جانیں بچانے کو اپنا مقدم فریضہ سمجھا۔ اُس دسمبر کی صبح تو کسی کو نہیں پتا تھا ہم اسکول تو جارہے ہیں مگراب لوٹ کر گھر نہیں پہنچے گے۔ اب جو وعدے ہم نے کرلیے ہیں انہیں تو ہمارے بہن بھائی پورا کریں گے۔ اس صبح کا آغاز بھی باقی سب صبح کی طرح ہی ہوا سب لوگ اپنے کام پر گئے، بچے اسکول کے لیے تیار ہوے، اسکول جانے سے پہلے اپنے ماں باپ سے ملے لیکن خبر کسی کو نہیں تھی کہ اب لوٹ کر گھر نہیں آنا۔ دہشت گرد اس صبح کو اس طرح منا رہے تھے جیسے وہ بہت حسین کارنامے کو سر انجام دینے جارہے ہیں۔ وہ اس پیٹھ پیچھے حملہ کو اپنی بہادری سمجھ رہے تھے۔ ایک طرف بچے اپنے کاندھوں پر اسکول کا بستہ لے کر گھر سے پڑھنے کے لیے نکل رہے تھے تو دوسری طرف بزدل دہشت گرد اپنے کاندھوں پر بندوق ٹانگ کر حملہ کرنے کے لیے تیار تھے۔

اس صبح بھی آرمی پبلک کا نظام ایسے ہی چل رہا تھا جیسے ہر صبح ہوتا ہے مگر 10:00 بج کر کچھ ہی وقت پر اس اسکول کو دہشت گردوں نےخون میں بہا دیا۔ بچے چیخ رہے تھے ہر جگہ قیامت کا سماں تھا۔ 5 منٹ پہلے تک تو یہاں ہر پچہ مسکرا رہا تھا مگر وقت گزرتے ہی یہ کیسی دہشت چھا گی؟ کسی بچے کی کتاب خون میں بھری ہوی ہے تو کسی کا بستہ۔ یہ سوچ کر ان لوگوں نے حملہ کیا تھا کہ ہم تو اس قوم کا مستقبل تباہ کرنے جارہے ہیں اب یہ قوم آگے کیسے بڑھے گی اب تو اس سانحہ کے بعد ہر بچہ اسکول جانے سے ڈرے گا۔ وہ تو اس سوچ کو ساتھ لے کر چل رہے تھے کہ جس سے ہم حملہ کر رہے ہیں (بندوق) وہ تو قلم سےبھی زیادہ طاقتور ہے۔ مگر وہ یہ بات بھول گے ہم تو اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس ماں کا بیٹا شہید ہوتا ہے وہ تو فخر سے بتاتی ہے کہ وہ ایک شہید کی ماں ہے۔ وہ بزدل لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اس حملہ سے اس قوم کا مستقبل ختم کردیا بے شک وہ بہادر ہیرو ہمارا آنے والا مستقبل تھے مگر ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ڈر گے ہیں۔ ابھی تو ہم نے اپنے قلم کی طاقت سے ان سے بدلہ لینا ہے۔

انھوں نے بندوق سے پیٹھ پیچھے سے حملہ کیا ہم ان بزدل لوگوں سے قلم کی طاقت سے حملہ کریں گے تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ بزدل لوگ اس کارنامے کو اپنی بہادری کا نام دے رہے تھے ان لوگوں کا نام تک بھی باقی نہیں ہے۔ مگر ہمارے بہادر اساتذہ اور اس ملک کے نوجوان بیٹے ہیرو بن چکے ہیں۔ جو خواب ان لوگوں نے اس ملک کہ لیے دیکھا تھا اب ہم اسے پورا کرے گیں اب ہم اپنی تعلیم کے ذریعے اپنے ملک کو ایک مظبوط ریاست بناے گیں تاکہ کوئی بھی قوم پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔

مجھے ماں اس سے بدلہ لینے جانا ہے

مجھے دشمن کہ بچوں کو پڑھنا ہے