1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نورالعین/
  4. لوگ کیا کہیں گے؟

لوگ کیا کہیں گے؟

آج ہم بات کرتے ہیں ہمت کی۔ ہم پڑھ لکھ کر اپنے آپ کو معاشرے کا بہت طاقتور انسان سمجھتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں واقعی ہم بہت طاقتور ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس طاقت علم کی ہے۔ اور ان طاقتور لوگوں میں، میں اپنے آپ کو بھی شامل کرتی ہوں۔ لیکن جب میں اپنے معاشرے پر نظر ڈالتی ہوں تو مجھے اپنے معاشرے کی ہوا میں ایک ڈر، خوف نظر آتا ہے مجھے اس ہوا میں بچوں کی ناکامی کی چیخ سنائی دیتی ہے جو کسی وجہ سے اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر مار دیتے ہیں یا ان کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ تو میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کسی بھی قوم کا مستقبل اسکی نوجوان نسل سے ہوتا ہے اور ہماری نوجوان نسل کہاں جارہی ہے؟ میں اپنے آپکو ایک طاقتور شخص سمجھتی ہوں کیونکہ میرے پاس علم کی طاقت ہے۔ مگر اسی وقت یہ سوچ جنم لیتی ہے کہ کیا ہم واقعی ہمت رکھنے والے انسان ہیں؟

کیا ہم اس علم کی طاقت سے اپنے معاشرے میں بڑھتے ہوے ظلم و زیادتی کو روکتے ہیں؟ جب ایک معصوم کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو کیا ہم اس زیادتی کو روکنے کے لیے آواز اٹھاتے ہیں؟ کسی بے گناہ کی آواز بنتے ہیں؟ سب کچھ اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں اور پھر بھی چپ ہیں اور اندر ہی اندر چیخ رہے ہیں کیا یہ ہماری ہمت ہے۔ ذرا سوچیں کیا ہمارا شمار واقعی طاقتور لوگوں میں ہوتا ہے؟ یہ تو بات کرلی ہم نے اپنی ہمت کی۔ اب بات کرتے ہیں جب ہمت ہماری ٹوٹ جاتی ہے۔

ہم بہت محنت کرتے ہیں اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کچھ بن کر دکھانے کے لیے اور جب کسی امتحان میں بہت محنت کرنے کے بعد بھی ہم اپنی منزل تک پہنچ نہیں پاتے تو ہم اپنے آپکو دنیا کا سب سے کمزور ترین انسان سمجھتے ہیں۔ اور ہمیں بار بار یہ خیال آتا ہے اب لوگ کیا کہیں گے؟ جب ہم اپنے معاشرے میں بڑھتی ہوئی تنگ سوچ کو ختم کرنے کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو اس وقت یہ سوچ جنم لیتی ہے پتہ نہیں میرے بارے میں لوگ کیا کہیں گے؟ تو اس کا آسان سا ایک جواب یہ ہے کہ: یہ جو لوگ ہیں یہ جب تک چپ ہیں جب تک آپ بہادر ہیں۔ جب تک آپ اپنے لیے خود لڑسکتے ہیں۔ جب آپ خود اپنے لیے نہیں لڑسکتے تو یہ لوگ پھر بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اگر ہم کسی میدان میں ناکام ہوتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کمزور ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم ہمت کر کے واپس اٹھ کر اسی جنگ میں واپس شامل ہوسکتے ہیں جس جنگ میں ہمیں شکست ملی تھی۔

ناکامی کو ایک پہلو سے مت دیکھو کہ ہم ناکام شخص ہیں ہم نے محنت بھی کی اس کے باوجود بھی ہمیں جیت نہیں مل سکی۔ اس پہلو سے دیکھو کہ ہمارے لیے خدا نے اسی میں بہتر فیصلہ کیا ہوگا خدا کا بہتر فیصلہ سمجھ کر پھر اٹھو میدان میں پھر ہمت کرو پھر دیکھو خدا تمھیں تمھاری محنت کا پھل کتنا میٹھا دے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ محنت کرنی ہے کیونکہ خدا محنت کرنے والو کے ہی ساتھ ہے۔ ایک بار ناکامی ہوئی تو پھر کامیاب بھی ہم ہی ہوں گے یہ سوچ کر میدان میں اترو کیونکہ ایک ناکامی سو کامیابی کے دروازے کھولتی ہے۔

تو یہ جان لو کہ اس نظام کو جو ذات چلا رہی ہے وہ جانتا ہے کہ کب کس کو کیا دینا ہے لوگوں سے کیا ڈرنا یہ جو لوگ ہیں۔ نہ ہمارے گھر کا راشن دیتے ہیں نہ ہمیں تعلیم دلواتے ہیں تو ان سے کیا ڈرنا جب اپنی آنکھوں کے سامنے ظلم و زیادتی ہوتے دیکھو سب کچھ جانتے ہوے بھی چپ رہو اس سوچ سے کہ ہم نے کچھ کیا تو لوگ کیا کہیں گے۔ ہم اتنا پڑھنے لکھنے کے بعد بھی اپنے معاشرے کو نہیں بدل سکتے۔ ہم میں سے بہت تو ایسے لوگ ہیں جو آگے اس وجہ سے نہیں آتے میں نے اپنے معاشرے کے لیے کچھ کیا یہ پھر کسی بے گناہ کے حق کے لیے آواز اٹھای تو پتہ نہیں میرے بارے میں لوگ کیا کہیں گے؟ اور باقی کے لوگ اس وجہ سے آگے نہیں آتے کہ ہمارے ایک کے بڑھنے سے کیا ہوگا تو ذرا ایک بات جان لیں معاشرے میں تبدیلی کسی اور سے نہیں آپ سے آنی ہے۔ اگر آپ ہمت کر کے مقابلہ کر سکتے ہیں تو یہ بڑھتی ہوی بیماری "لوگ کیا کہیں گے"۔ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہمیں جو کرنا ہے اپنے لیے کرنے ہے لوگوں کے لیے نہیں۔

ہم ہمت سے مقابلہ کریں چاہے وہ کسی کے ظلم کی آواز بننی ہو ہمیں، چاہے کسی بے گناہ کو اسکا حق دلوانا ہو یا چاہے ہمیں اپنی جنگ قلم سے لڑنی ہو۔ ہمت سے میدان میں آو پھر دیکھو خدا تمھیں کتنا کامیاب کرتا ہے۔ اس سوچ سے مت گھبراو کہ لوگ کیا کہیں گے تمھیں اگر کسی جنگ میں شکست ملے تو یہ نا سمجھنا کہ تم دنیا کے کمزور انسان ہو ایک بار گرو گے پھر تم ہی میدان میں واپس اٹھو گے۔ بڑھتے ہوے ظلم کے لیے آواز بنو۔ یا لوگوں کے ڈر سے باہر نکلو۔ خود اپنے لیے لڑو کیونکہ خدا ان ہی کا ساتھ دیتا ہے جو اپنے لیے خود لڑنا جانتا ہوں۔ تو چلو آؤ پھر دل و جان سے محنت کرو یہ لوگو کے ڈر سے باہر نکلو پھر دیکھو خدا تمھیں کتنا کامیاب کرے گے۔

اٹھ باند کمر کیا ڈرتا ہے

پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے