1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ایسے جرنیل کی شدت سے ضرورت تھی

ایسے جرنیل کی شدت سے ضرورت تھی

تین ہفتے قبل جب جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایمان پر سوالات اٹھانے والی گھنائونی مگرمنظم مہم شروع ہوئی تو مجھے سمجھ آ گئی۔ یہ بات عیاں ہوگئی کہ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیراعظم کسی سازشی گروہ کی دھونس میں نہیں آ رہے۔

2014ء کے اختتامی ایام میں ایک اہم ترین اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں موجود کئی وزراء جنرل راحیل شریف کے انتہائی شکرگزار نظر آئے وہ بضد رہے کہ عمران خان کا دھرنا آرمی چیف کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی طرف راغب نہیں کرپایا۔ وزیر اعظم نے ان وزراء کی سوچ سے ہرگز اختلاف نہیں کیا۔ ایک بات مگر دھیمے انداز میں کھول کر بیان کردی کہ وہ جنرل راحیل شریف کے ’’احسان‘‘ کا بدلہ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی صورت ادا نہیں کریں گے۔ انہیں وقتِ معینہ پر ریٹائرہونا ہے۔

نواز شریف اپنے دل کی بات شاذہی زبان پر لاتے ہیں۔ ان کی اس بات کی اہمیت کو سمجھے بغیر 2015ء کا پورا سال ہم نے ’’تھینک یو راحیل شریف‘‘ کی نذر کردیا۔ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے کہیں بڑھ کر جنرل راحیل شریف کو ’’فیلڈ مارشل ‘‘ بنانے کی بات بھی شروع ہوگئی۔

اپنے مستقبل کے بارے میں برپا شور سے تنگ آکر جنرل راحیل شریف نے 2016ء کے آغاز ہی میں باقاعدہ اعلان کردیا تھا کہ وہ اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کے ہرگز خواہاں نہیں۔ ریاست کے استحکام کے لئے افراد نہیں ادارے اہم ہوا کرتے ہیں اور پاکستان آرمی اس ملک کا طاقت ور ترین ادارہ ہے۔ اس ادارے کا نظم اور اجتماعی سوچ ان کی نظر میں اہم ترین ہے۔

لاہور کی گلیوں میں لیکن کہا جاتا ہے کہ نوجوان بیوہ اپنی بیوگی کو کسی ویران کونے میں دبک کر خاموشی سے گزارنا چاہے تو بھی محلے کے اوباش لونڈے اسے چین سے رہنے نہیں دیتے۔ نواز شریف کے طرز حکمرانی پر مجھے بھی شدید اعتراضات ہیں۔ سب سے زیادہ گلہ اس حقیقت کی وجہ سے کہ ووٹ کی طاقت سے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم نے اپنی جماعت اور پارلیمان کو متحرک رکھتے ہوئے جمہوری اقداروروایات کو مستحکم نہیں بنایا ہے۔ ریاستِ پاکستان کے بارے میں بنیادی فیصلے کرنے کا اختیار مسلسل ریاست کے غیر منتخب اداروں کی طرف منتقل ہوجاتا چلا جارہا ہے۔ وہ اس بارے میں قطعاََ بے نیاز نظر آتے ہیں ان کی فیصلہ سازی، سازشیوں کے گروہوں میں گرفتار دربار میں تخت پر بیٹھے شاہ کے احکامات کی صورت ہمارے سامنے آتی ہے۔

نواز شریف مگر خوش نصیب اس لئے بھی ہیں کہ ان کی اصلی تے وڈی اپوزیشن یعنی عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کوبھی متحرک اور توانا سیاسی عمل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی وہ اس گماں میں مبتلا ہیں کہ قلعہ بنی گالہ کی فصیل پر چند پش اپس لگاکر دکھائی جائیں تو ’’ایمپائر‘‘ اُنگلی کھڑی کردے گا۔ نواز شریف کو سیاسی میدان سے باہر نکال کر نئے انتخابات کچھ اس انداز میں ہوتے نظر آئیں گے جو عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کی راہ بنائیں۔

لاہور کے ایک ملامتی فقیر شاہ حسین نے صدیوں پہلے سمجھا دیا تھا کہ تخت مانگنے سے نہیں ملا کرتے۔ اسے جدوجہد کے ذریعے چھینا جاتا ہے۔ ویسے بھی نواز شریف کو ریاست کا دائمی اور منظم ادارہ عمران خان کی سہولت کے لئے کیوں ہٹائے گا؟’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کہنے کے بعد ریاستی معاملات کو خود ہی سنبھالنا پڑتا ہے۔

جنرل کیانی کے 6 سالوں کے دوران ویسے بھی یہ ادارہ اپنے Leverage کی خوب شناخت کرچکا ہے۔ مشرف کے انجام کے بعد اسے سمجھ آچکی ہے کہ اس ملک کی سیاست کوایک خاص سمت پر رواں رکھنے کے لئے صبر اور وقت درکار ہے۔ خود سامنے آنا بھی ہرگز ضروری نہیں۔ سیاست دان اگر بنیادی فیصلے کرنے کی صلاحیت وجرأت سے محروم ہیں تو ان کی نااہلی خلقِ خدا کے سامنے پوری طرح عیاں ہونی چاہیے وہ مسلسل تنقید کی زد میں رہتے ہوئے ہی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ پائیں گے اور شاید بالآخر انہیں وہ اختیار استعمال کرنے کا ہنر بھی آجائے جو ان کا حق ہوا کرتا ہے۔

ہماری سیاست اور میڈیا پر حاوی’’اوباش لونڈوں‘‘ کا گروہ مگر ان حقیقتوں کا ادراک کرنے میں قطعاََ ناکام رہا۔ جنرل راحیل شریف میں ’’دیدہ ور‘‘ ڈھونڈنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر بات بنتی نظر نہ آئی تو ایک نئی گیم لگادی گئی۔ نواز شریف کو بے بس ومعطل ثابت کرنے کے لئے بڑے اعتماد سے اپنی پسند کے حق گو صحافیوں کو سمجھ دیا گیا کہ فلاں شخص کو ’’ادارے‘‘ نے اس ملک کے اہم ترین عہدے کے لئے ’’چن‘‘ لیا ہے۔ اس فلاں کی متوقع ٹیم کے اسماء اور ان کے لئے ممکنہ عہدوں کا ذکر بھی شروع ہوگیا۔

مجھے وحشت ناک حیرت مگر اس وقت ہونا شروع ہوئی جب بہت ہی جہاندیدہ صحافی اور مبصرین نے بھی ’’فیصلہ ہوچکا ہے‘‘والی داستان پھیلانا شروع کردی۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں اس بنیادی حقیقت کا احساس تک نہیں ہوا کہ پاکستان میں آئین نام کی بھی ایک شے ہوا کرتی ہے۔ یہ دستاویز وزیر اعظم کو آرمی چیف کا نام طے کرنے کا ’’کلی اختیار‘‘ فراہم کرتی ہے۔

’’فیصلہ ہوچکا ہے‘‘ کی گردان کرتے غلامانہ ذہنوں کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ جنرل کیانی بھی اپنی رخصت کو یقینی ہوتا دیکھ کر ایک ’’ٹیم‘‘ تیار کرچکے تھے اس کے قائد اور اہم اراکین کا ’’تعین‘‘ بھی ہوچکا تھا۔ نواز شریف نے مگر جنرل راحیل شریف کو چن کر ہم سب کو حیران کردیا تھا۔ ان کی تعیناتی کے چند ہی ہفتے بعد ’’تھینک یو راحیل شریف‘‘ کی دھن الاپنے والوں کو یاد ہی نہ رہا کہ 2013 کے وسط میں جب جنرل کیانی کے ممکنہ جانشینوں کے نام اخبارات میں زیر بحث تھے تو جنرل راحیل شریف کو "Mediocre General" پکارکرریس سے باہر گردانا گیا تھا۔

چند ٹھوس اشاروں کی بنیاد پر تقریباََ تین ماہ قبل مجھے اندازہ ہوگیاتھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ جنرل راحیل شریف کے بعد پاک فوج کی کمان سنبھالیں گے۔ وجہ ان کے انتخاب کی صرف وہ کردار نہیں تھا جو راولپنڈی کا کور کمانڈر ہوتے ہوئے انہوں نے دھرنے کے دنوں میں ادا کیا تھا۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ اپنے ملک کو عالمی اور علاقائی سطح کا تھانے دار بنانے کے جنون میں مبتلا نریندر مودی لائن آف کنٹرول کو مسلسل حالتِ جنگ میں رکھنا چاہ رہا ہے۔ اسے یقین ہے کہ گلگت سے پنجاب کے قلب تک پہنچتی طویل ترین سرحد پر مسلسل کشیدگی کو برقرار رکھنا شاید پاکستان کے لئے معاشی اعتبار سے طویل عرصے تک ممکن نہیں ہوگا۔

ہمیں ایک ایسے جنرل کی شدید ضرورت تھی جو لائن آف کنٹرول سے جڑی حقیقتوں سے بخوبی آشنا ہو۔ جسے سفارت کاری کے ہنر کی بھی خوب سمجھ ہو۔ قمر جاوید باجوہ اس حوالے سے ایک انتہائی تجربہ کار شخص ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک امن مشن کے لئے فوجی خدمات سرانجام دیتے ہوئے وہ نام نہاد عالمی برادری کی ترجیحات اوربھارتی عسکری قیادت کے ذہن کو بھی خوب جانتے ہیں لائن آف کنٹرول پر جس نوعیت کا دبائو بھارت اپنے جنون میں بڑھاسکتا ہے، اسے جنرل باجوہ وقت سے کہیں پہلے بھانپ سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے ذہن میں کچھ ایسی چالیں بھی ضرور ہوں گی جو بھارت کو لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بڑھاتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام بناسکیں۔

ان کے انتخاب کو مشکل بنانے والی سازش مگر بہت گھنائونی تھی۔ اپنے مفادات کی تکمیل کی خاطر اندھے ہوئے سازشیوں کو یہ احساس بھی نہ ہوا کہ جنرل باجوہ کے ایمان پر سوالات اٹھاتے ہوئے درحقیقت پاکستان کے منظم ترین ادارے کی ساکھ کو نقصان پہچایا جارہا ہے۔ یہ ادارہ جب سیاسی گند میں دانستہ یا نادانستہ طورپر درآتا ہے تو میں ہمیشہ معترض ہوتا ہوں۔ پاک آرمی کا متعصب ترین نقاد بھی لیکن یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اس ادارے میں بھرتی کے پہلے دن سے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچنے کے تمام تر مراحل شفاف ترین انداز میں صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔

جنرل باجوہ ان تمام مراحل کی چھلنی سے گزرکر لیفٹیننٹ جنرل بنے تھے۔ ان کے کیرئیر کے حتمی مرحلے پر ان کے ایمان پر سوالات اٹھانا ایک سفاکانہ عمل تھا۔ اس عمل کے ذمہ داروں کی نشاندہی ضروری ہے۔ انہیں بے نقاب کرتے ہوئے سزا کے عمل سے نہ گزارا گیا تو آئندہ ہونے والی سازشیں کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں۔