1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. بے رحم نسل پرست ٹرمپ مگر منافق نہیں

بے رحم نسل پرست ٹرمپ مگر منافق نہیں

کالم نگار کے پاس اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئے رپورٹر کے مقابلے میں بہت زیادہ وقت ہوتا ہے۔ اصولی طورپر بدھ کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے بھی اس سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ طبیعت مگر حماقت کی طرف مائل ہوچکی ہے۔

امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج بہت تیزی کے ساتھ وصول ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں بدھ کی صبح کے آٹھ بجے تھے جب میں نے یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھالیا۔ مقابلہ ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈٹرمپ کے درمیان ابھی تک کانٹے دار نظر آرہا تھا۔ مجھ سے مگر صبر نہیں ہوپارہا۔ خدا کرے کہ چند ہی گھنٹوں کے بعد میں غلط ثابت ہوں۔ امریکی سیاست کی البتہ جو تھوڑی بہت سمجھ مجھے ہے ،وہ یہ بات لکھنے پر مجبور کررہی ہے کہ ڈونلڈٹرمپ یہ مقابلہ جیت چکا ہے۔

پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کے لئے ڈونلڈٹرمپ کی جیت ہرگز خوش گوار خبر نہیں ہوگی۔ ٹرمپ اپنے ملک میں آئے غیر ملکی تارکینِ وطن کا دشمن ہی نہیں مسلمانوں کے بارے میں بھی نفرت انگیز خیالات رکھتا ہے۔ ہیلری ہماری جانی پہچانی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی فین تھی۔ اپنی بیٹی کے ساتھ انہیں خصوصی طورپر پاکستان ملنے آئی تھی۔ اس نے پاکستان کی وزیر اعظم کے ساتھ کھانے کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے شلوار کُرتا بھی پہنا تھا۔

ہیلری کے شوہر کلنٹن نے پاکستان کو نواز شریف کی وجہ سے کارگل کی چوٹیوں پر ہوئی ندامت سے بچایا تھا۔ جنرل مشرف کو یہ بات مگر پسند نہیں آئی تھی۔ وہ بضد رہا کہ کارگل کی چوٹیوں سے نیچے اُتر کر سری نگر کو آزاد کروایا جاسکتا تھا۔کمانڈو کو کلنٹن اور نواز شریف نے مل کر روکا تو موصوف نے بالآخر12 اکتوبر 1999 کرڈالا۔ اس کے بعد بھارت جاتے ہوئے امریکی صدر کلنٹن پانچ گھنٹے کو اسلام آباد بھی رُکا تھا۔کمانڈو سے اس نے کیمروں کے سامنے ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہ کیا۔ ہماری قوم سے ہمارے ہی سرکاری ٹیلی وژن کے ذریعے خطاب کیا اور اپنے تئیں ایک پُرخلوص دوست بن کر ہمیں اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے کی ہدایات دیتا رہا۔ وائٹ ہاﺅس چھوڑنے سے قبل اس نے نواز شریف کو جنرل مشرف کے عتاب سے بچاکر سعودی عرب بھجوانے کا اہتمام بھی کیا تھا۔

ہیلری کو اوبامہ نے پہلے دور صدارت میں اپنا وزیر خارجہ بنایا تھا۔ اس حیثیت میں بھی وہ پاکستان آئی تھی۔ ہمارے میڈیا اور مختلف تعلیمی اداروںکے نوجوانوں سے مل کر اس نے ہمیں افغانستان اور بھارت کے بارے میں اپنے خیالات کوایک”مخلص دوست“ کی طرح تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ اپنے اس سفر کو وہ دل سے ناکام سمجھتی رہی۔ اس ناکامی کا اظہار اس نے اپنی حالیہ کتاب میں بھی کافی پرکار زبان میں کیا ہے۔ کلنٹن خاندان کے ساتھ جڑی چند تلخ یادوں کے باوجود پاکستانیوں کی اکثریت مگر ہیلری کی کامیابی کے لئے دُعا گو تھی۔ ہمیں گماں تھا کہ ہمارے ساتھ اس کی دیرینہ شناسائی شاید پاکستان کے لئے مشکلات کو اگر کم نہ بھی کرے تو ان میں اضافے کا سبب نہیں بنے گی۔

ذاتی طورپر البتہ میں کبھی اس خوش گمانی میں مبتلا نہیں رہا۔ شیکسپیئر کا اصرار تھا کہ شناسائی دو فریقین کے مابین نفرت کی طرف لے جاتی ہے۔ ہیلری کلنٹن پاکستان کے ساتھ ضرورت سے زیادہ شناساتھی اور میں اس شناسائی سے گھبرایا ہوا تھا۔ اپنی اس گھبراہٹ کے باوجود مجھے ڈونلڈٹرمپ سے بے تحاشہ خوف آتا رہا۔

سفاک سرمایہ دارانہ نظام کا یہ نمائندہ جبلی طورپر ایک بے رحم نسل پرست ہے۔ اس کی خوبی مگر یہ بھی ہے کہ وہ منافق نہیں۔ جو دل میں ہوتا ہے پھٹ سے بغیر سوچے سمجھے کہہ ڈالتا ہے۔ پاکستان سے مگر وہ زیادہ شناسا نہیں۔ توجہ بنیادی طورپر اس کی اپنے ملک کی سفید فام اکثریت کو یہ اعتماد دلانے تک محدود ہے کہ وہ ربّ کریم کی خاص پسندیدہ مخلوق ہیں۔ انہیں باقی دُنیا پر راج کرنا ہے۔

ڈونلڈٹرمپ کو سرمایہ داروں کی نمائندہ سمجھے جانے والی ری پبلکن پارٹی سے گلہ یہ رہا کہ اس نے امریکہ میں ایجاد ہوئی اشیاءکو منڈی کے لئے تیار کرنے کے لئے چین جیسے ملکوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی۔ دوسرے ملکوں میں ہوئی اس سرمایہ کاری کی وجہ سے امریکہ میں بے روزگاری پھیلی۔ متوسط طبقہ سکڑنا شروع ہوگیا۔ سرمایہ کاری کے بغیر پھیلی بیروزگاری نے امریکہ کے چھوٹے قصبات کو ویران کردیا۔ بڑے شہروں میں دولت محض چند خاندانوں تک محدود رہی۔ طاقت اور دولت کے نشے میں مست ہوئی امریکہ کی حکمران اشرافیہ نے خواہ اس کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے رہا ہو یا ری پبلکن پارٹی سے، چھوٹے موٹے کمی کمینوںسے وابستہ کام کروانے کے لئے لاطینی امریکہ کے غریب ملکوں سے لوگوں کو امریکہ میں آکر بسنے کے مواقع فراہم کرنا شروع کردئیے۔ غیر ملکی مزدوروں نے امریکہ میں جرائم بڑھائے، منشیات کے استعمال کو فروغ دیا۔ امریکہ کی نام نہاد”عظمت“ کو تباہ وبرباد کردیا۔

ٹرمپ نے ”امریکی زوال“ کے جو اسباب گنوائے ہیں وہ حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔اس کی منہ پھٹ زبان نے مگر ایک عام سفید فام امریکی کے دل میں کئی دہائیوں سے موجود رعونت بھرے تعصبات کو بغیر کسی رورعایت کے بیان کرنا شروع کردیا۔ ہیلری کلنٹن اس کے مقابلے میں امریکی سفید فام اکثریت کو روایتی اشرافیہ ہی کی ایک طاقت ور نمائندہ نظر آتی رہی جو چرب زبان منافقت سے کا م لیتی ہے۔ عام سفید فام امریکی کی زندگی میں اطمینان بخش تبدیلیاں لانے کے لئے ٹھوس پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کے بجائے جھوٹی تسلیوں سے ڈنگ ٹپانے والی عادت میں مبتلا۔

طبیعت چونکہ حماقت کی طرف مائل ہوچکی ہے۔ اس لئے یہ کالم لکھتے ہوئے میں نے کچھ دیر کو رک کر ٹیلی وژن کے ذریعے ہرگز یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ امریکی انتخاب کی تازہ ترین صورتِ حال کیا ہے۔9 بجے تک شاید صورتِ حال ہیلری کیلئے بہتر ہوتی بھی نظر آسکتی تھی۔ مجھے اگرچہ بالکل امید نہیں۔ خود کو ڈونلڈٹرمپ کی صدارت کے لئے ذہنی طورپر تیار کر بیٹھا ہوں اور آنے والے چند دنوں تک بہت جستجو سے اب یہ معلوم کرنا ہوگا کہ یہ تبدیلی دنیا کے لئے کیسی تباہی کا موجب بن سکتی ہے۔