1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ہماری فوج نے بھی اب جان لیا ہے

ہماری فوج نے بھی اب جان لیا ہے

ہم لوگ بھی خوب ہیں۔ وہ خبریں بھی ہمیں اداس اور پریشان کردیتی ہیں جن کا کھلے دل سے جائزہ ہمارے اطمینان وفخر کا باعث ہونا چاہیے۔ یہ خبر کہ جنرل راحیل شریف بطور آرمی چیف اپنی تین سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد 29 نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے، ایسی ہی ایک خبر ہے۔

اصولی طورپر کسی بھی باقاعدہ ملک میں وقتِ معینہ پر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ ’’خبر‘‘ کہلانے کی مستحق ہی نہیں ہوتی۔بطور رپورٹر میں کئی برسوں تک مختلف ممالک میں جاتا رہا ہوں۔ کئی جمہوری ممالک میں اپنے قیام کے دوران میں نے ریستوران وغیرہ میں اچانک ملے عام لوگوں سے جان بوجھ کر ان کی عسکری قیادت کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اکثریت کو اپنے آرمی چیف کا نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد عسکری قیادت کی ’’اپنی سوچ‘‘اور اس میں کون کیا ہے جیسی تفصیلات کے بارے میں سوالات کا موقعہ ہی نہیں ملتا۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان مگر اپنی ترکیب میں خاص ہے۔ اپنے قیام کے روز اوّل ہی سے اسے اپنی بقاء کی فکر لاحق ہوگئی تھی۔ قائد اعظم ہمارے لئے ایک جدا وطن حاصل کرنے کے ایک سال بعد ہی انتقال فرماگئے۔ ان کے بعد لیاقت علی خان کو مناسب وقت مل جاتا تو ہمیں جمہوریت اور اس کی روایات کو مستحکم کرنے میں زیادہ دِقت پیش نہ آتی۔ اکتوبر 1951 میں لیکن انہیں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قتل کردیا گیا۔ قاتل کو موقعہ پر ہی گولی ماردی گئی۔ اس کے بعد سے آج تک ہماری ریاست نے پوری لگن سے اس قتل کے محرکات اور اس کے اصل ذمہ داروں کا سراغ لگانے کی سنجیدہ کوشش ہرگز نہیں کی۔

لیاقت علی خان کے قتل نے مگر انگریز کی سدھائی افسرشاہی کو ریاستی معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی سہولت فراہم کردی۔ انگریزی کی سدھائی اس افسرشاہی کی نظرمیں عوام جاہل تھے اور ان کے منتخب کردہ سیاست دان’’نااہل‘‘۔ ان’’نااہلوں‘‘کو جان بوجھ کر ریاستی سرپرستی کے مختلف ہتھکنڈوں سے روشناس کرواکر ناجائز دولت اکٹھی کرنے کے راستے دکھائے گئے۔ افسر شاہی کے محتاج ہوئے سیاست دان اپنی ساکھ مکمل طورپر کھوبیٹھے تو ریاست کے منظم ترین ادارے فوج سے دیدہ وروں کی تلاش شروع ہوگئی۔ امریکی سامراج اور اس کے حواریوں نے کمیونسٹ بلاک سے حتمی معرکے کے لئے تیار ہونے کے لئے ان دیدہ وروں کی مکمل پشت پناہی بھی کی۔

کچھ دن اکیلے میں بیٹھ کر چند کتابوں کے بغور مطالعے کے بعد آپ بخوبی جان سکتے ہیں کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف جیسے آمروں کے طویل ادوارنے بنیادی طورپر امریکہ کی عالمی بالادستی کے جنون کوممکن بنایا۔ ہماری ’’خدمات‘‘ کا عوضانہ ورلڈ بینک اور IMF کے قرضوں کی صورت ملا۔ اخلاقی اور علمی اعتبار سے قطعی بددیانت ’’ماہرینِ معیشت‘‘ البتہ ہمیں یہ بتاتے رہے کہ فوجی آمروں کے دور میں نظر آنے والی ’’خوش حالی‘‘ درحقیقت ان دیدہ وروں اور ان کے اُجرتی ماہرین کی تخلیقی ذہانتوں کا نتیجہ تھی۔

افغان جہاد کی بدولت سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد واشنگٹن اور اس کے حواریوں کو اب’’دیدہ وروں‘‘ کی ہرگز ضرورت نہیں رہی۔ قرضوں اور ’’امداد‘‘کی عادی بنائی معیشتوں کو اب ’’مارکیٹ‘‘ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ سامراجی سرپرستی سے محروم ہوجانے کے بعد پسماندہ ممالک اور خاص کر کثیر آبادی اور قلیل وسائل والے مسلم ملکوں کو قطعاََ سمجھ نہیں آرہی کہ اب وہ اپنا وجود کیسے برقرار رکھیں۔ اسی لئے لیبیا سے لے کر افغانستان تک ہر جگہ خانہ جنگی،انتشار اور ہیجان کی کیفیات نظر آرہی ہیں۔

پاکستان اس حوالے سے ایک خوش نصیب جزیرہ ہے۔ غربت وبے روزگاری ہمارے ہاں بھی بے تحاشہ ہے۔ آبادی ہماری خرگوشوں کی طرح بڑھی ہے۔ وسائل ہمارے محدود سے محدود ترہورہے ہیں۔ امیر اور غریب میں فرق بے تحاشہ بڑھ رہا ہے۔ مختلف نسلی گروہوں کے مابین اختلاف بھی نمایاں تر ہورہے ہیں۔

ان سب مسائل کے باوجود قوم کی اجتماعی نفسیات شکست خوردہ نہیں ہوئی۔ ہم حکمرانوں کی حرکتوں پر بلاخوف وخطر سوالات اٹھاتے ہیں۔ انہیں جواب دہ ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ خوب سوچ بچار کے بعد ہمارے سامنے قوم وملک کو بچانے اور سنوارنے کا بیانیہ رکھیں۔ ہمیں وہ بیانیہ پسند آئے تو ہم انہیں ووٹ کی طاقت سے حکومت میں بٹھانے کو تیار ہیں۔ وہ حکومت میں بیٹھ جائیں تو ان کی حرکتوں سے اپنی تمام تر مایوسی کے باوجود ہم سڑکوں پر آکر انہیں وقت سے پہلے گھر نہیں بھجتے۔ 2008ء کے انتخابات میں منتخب ہوئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے دی گئی۔

2013ء کے انتخابات کے ذریعے ان اداروں میں بیٹھے افراد کو کماحقہ’’سزا‘‘ مل گئی تھی۔ اب جو لوگ قومی اور صوبائی حکومتوں میں بیٹھے ہیں، انہیں بھی 2018ء میں حساب دینا ہوگا۔ معاملات کو اجتماعی حکمت اور بردباری کے ذریعے سنوارنے کا عزم میری قوم کی عظمت ہے۔ ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے اور منتخب اداروں کو پوری دیانت داری اور تن دہی سے اس امرپر مجبور بھی کہ وہ پاکستان کے بنیادی مسائل پر مسلسل توجہ دیتے ہوئے ہماری بقاء اور خوش حالی کی راہیں تلاش کرتے رہیں۔

وطن کی محبت میں اپنے تئیں مبتلا ہونے کے دعوے دار سیاپہ فروشوں کا مگر ایک غول ہے جو دن رات ماتم کنائی کے ذریعے ’’دیدہ وروں‘‘ کے انتظار کی فضاء بنائے رکھتا ہے۔ اس غول کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی ہے کہ ریاست کا منظم ترین ادارہ ہوتے ہوئے ہماری فوج نے اب جان لیا ہے کہ ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘کا انجام ہرگز بہتر نہیں ہوتا۔ قومی مشکلات میں یہ بالآخرمزید اضافے کا ذریعہ ہی بنتا ہے۔

ریاست کا سب سے منظم اور طاقت ور ادارہ ہوتے ہوئے ہماری عسکری قیادت کے پاس وہ Leverage ہر صورت موجود ہے جسے استعمال میں لاکر معاملات کوبہتر بنایا جاتا ہے۔

میرے اس دعوے کو رد کرنے سے پہلے صرف کراچی کے معاملات پر غور کرلیجئے۔ ایوب خان نے پاکستان کے دارلخلافے کو کراچی سے منتقل کرنے کی وجہ سے اُردو بولنے والے مہاجرین کے ذہنو ں میں ’’آگے سمند رہے‘‘والی مایوسی پیدا کی تھی۔ اس مایوسی نے ایم کیو ایم کو جنم دیا تو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی پھانسی کی وجہ سے سندھ میں پھیلتی بے چینی کے تدارک کے لئے اس جماعت کی سرپرستی شروع کردی۔ یہ جماعت جب ’’سب پر بھاری‘‘ہوگئی تو مشرف نے بھی اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے اس کا سہارا لیا۔

ایم کیو ایم کی طاقت اپنی انتہائوں کو پہنچی تو اس شہر میں مقیم دیگر گروہوں نے بھی منظم ہوکر بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اپنی Turfs بنانے کی کاوشیں شروع کردیں۔ 2013ء کے بعد Enough is Enough والی فضاء بنی تو عسکری قیادت نے Apex کمیٹی کے ذریعے اپنا کردار ادا کیا۔ جمہوری بندوبست چاہے دکھاوے کی حد تک ہی سہی سندھ میں اب بھی موجود ہے۔ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ مگر اب قصہ پارینہ ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایم کیو ایم مختلف گروہوں میں بٹ کر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کہنے پر مجبور ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی اپنا وزیر اعلیٰ بدلنا پڑا اور مراد علی شاہ کو اب ترقیاتی کاموں پر توجہ دینا پڑرہی ہے۔

اقتدار پر براہِ راست قابض ہوئے بغیر ریاست کے منظم ترین ادارے نے اپنے Leverage کو استعمال کرنے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے۔ اس Leverage کے استعمال کے دوران کئی ناخوش گوارواقعات بھی ہوئے ہیں۔ کھلے دل کے ساتھ ہوئے مباحثوں کے ذریعے ان کا مداوا مگر ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی وقتِ معینہ پر رخصت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کو اب اپنے اداروں کے باہمی اشتراک کے ذریعے پاکستان کی بقاء کو یقینی بنانے اور اسے خوش حالی اور استحکام کے راستوں پر چلانا ہوگا۔ تھینک یو رراحیل شریف‘‘ کہتے ہوئے ہمیں اپنی تاریخ کے حوالے کے اس اہم ترین اور تقریباََ انقلابی مرحلے کا خیرمقدم کرنا ہوگا۔ الوداعیہ ماتم کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔