1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. انکار و مزاحمت کی زندہ تصویر

انکار و مزاحمت کی زندہ تصویر

آفتوں کے دور میں ہمت نہ ہارنے کے عزم کا اظہار بھی لازمی ہو جاتا ہے۔ شہباز قلندر کے متوالوں کو سلام۔ گزشتہ جمعرات کی شام قلندر کے مزار کو خودکش بمباری کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 100 کے قریب بچے، بوڑھے، جوان اور عورتیں لقمہ اجل بنے۔ دھمال کے وجد میں سرمست ہوئے دیوانوں کے اعضائے جسمانی فضاءمیں اُچھلے۔ چند ٹکڑے کوڑے کے ڈھیر پر بھی گرے جہاں مردار خور پرندوں نے انہیں نوچنا شروع کردیا۔ قیامت کا سماں جو دلوں کو دہلادیتا ہے۔ ذہنوں کو احساسِ شکست سے مفلوج بنا ڈالتا ہے۔

خوف وملال کے اس ماحول میں بھی لیکن دیوانوں نے ہمت نہیں ہاری۔ خودکش دھماکے کے عین دوسرے روز مزار کے اس گوشے میں جہاں نماز عصر کے بعد نوبت بجنا شروع ہوجاتی ہے، 800 سال پرانی روایت کو زندہ رکھنے کے عزم کے ساتھ دہرایا گیا۔ دھمال ہوئی اور گج وج کے ہوئی۔

افغانستان سے آئے سید عثمان مروند شاعر بھی تھے۔ان کا ایک مصرعہ ہے کہ ”میں زیرِ خنجر خونخوار“ بھی رقص میں مبتلا رہنے کا عادی ہوں۔ان کے عقیدت مندوں نے دھمال کی روایت کو ایک دن کے لئے بھی موخر نہ کرتے ہوئے،اس مصرعے کو زندہ کردیا۔انکار اور مزاحمت کا نعرہ بناڈالا۔ہمارے دین کامل کی چند مبادیات کی وحشیانہ تعبیر کے ذریعے درندہ بنائے دہشت گردوں کو پیغام مل گیا کہ سچل سرمت ،بلھے شاہ اور شہباز قلندر نے ہمارے دلوں میں زندہ رہنے کی جو تڑپ اجاگر کی تھی اسے خودکش دھماکوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ نوبت بجتی رہے گی۔ دھمال جاری رہے گا۔

دھمال کی روایت کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کسی سیاسی جماعت نے نہیں کیا تھا۔ وہ جنہیں ”موم بتی مافیا“ پکار کر اکثر تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس روایت کو ہر صورت جاری رکھنے کے فیصلے کا باعث بھی نہ تھے۔ یہ فیصلہ قطعاً بے ساختہ تھا۔ نسل، مذہب، زبان اور مسلک کی تقسیم سے بے نیاز جو لوگ بھی اس وقت مزار میں موجود تھے اجتماعی طورپر ازخود وجد میں آئے۔ پاﺅں زمین پر پٹخے اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے انکار ومزاحمت کی ایک زندہ تصویر بنا ڈالی۔ ایک جیتا جاگتا Mural جس کا تخیل شاید کسی Genius مصور کے ذہن میں بھی نہ آیا ہوگا۔

ٹی وی پروڈکشن کے تمام تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے خالصتاً پیشہ ورانہ ذہن سے سوچیں تو خودکش دھماکے کے بعد ہوئی پہلی دھمال وہ تھی جسے Perfect TV کہا جاسکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ”ہر جگہ بروقت“ پہنچنے کا دعوے دار ہمارا میڈیا Live Cut کے ذریعے اسے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پھیلے ناظرین کو دکھانے کا بندوبست کرتا۔ 24گھنے نیوز اینڈکرنٹ افیئرز پر فوکس رکھنے کے دعوے دار مگر یہ کرنہ پائے۔ ان کا اصل دھندا ٹی وی نہیں سیاپا فروشی ہے۔ حادثے کا شکار ہوئے بدنصیبوں کے لواحقین کو بین کرتے ہوئے دکھانا ہے۔ اپنی ”بے باکی“ کو چلا کر یہ سوال اٹھاتے ہوئے ثابت کرنا ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ کے آبائی شہر میں ایسا ہسپتال موجود کیوں نہیں تھا جہاں کئی زخمیوں کو بروقت طبی امداد پہنچا کر لقمہ اجل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ ایمرجنسی صورتوں سے نبردآزما ہونے کے قابل سہولتوں کے فقدان کا تقابل مبینہ طورپر ان خطیر رقوم سے ہوا جو ”بھٹو کو زندہ“ رکھنے کی خاطر اس کے مزار اور برسی کی تقریبات پر خرچ ہوتی ہیں۔ یہ سوالات اٹھانا بالکل ضروری تھا۔ اگرچہ یہ سوالات سہیون میں ہوئے خوفناک دھماکے سے کئی ماہ قبل بھی مسلسل اٹھائے جا سکتے تھے۔

جمعرات کے روز ہوا دھماکہ محض کوئی عام حادثہ نہیں۔ ایک خون آلود پیغام تھا۔ ذمہ داری اس کی داعش نے قبول کی ہے جو کئی برسوں سے عراق اور شام کے کئی شہروں اور قصبات میں صوفیوں کی درگاہوں ہی کو نہیں چند صحابیوں کے مزارات کو بھی نشانہ بناچکی ہے۔ اپنی دہشت گردی کو وہ ”انسدادِ بدعت“ کی بنیاد پر گھڑے دلائل سے مذہبی جواز فراہم کرتے ہیں۔ ہم جیسے گنہگاروں کے پاس ان کی سوچ کا مقابلہ کرنے کے لئے جوابی دلائل موجود نہیں ہیں۔ خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔

پاکستان داعش کے زیر تسلط آئے علاقوں کے مقابلے میں لیکن خوش نصیب ہے۔ یہاں اسلام پھیلانے والوں نے ”علموں بس کریں اویار“ کا نعرئہ مستانہ بلند کرکے عقل کو ”محوِ تماشہ“ بنا کر رد کیا اور ”بے خطر آتشِ نمرود“ میں کود جانے کی تلقین کی۔ منطق کو جوابی منطق سے نہیں انسانی جذبات کی آتش سے بھسم کیا۔ انسانی جذبات کی یہ جولانی آپ کو ”آئی صورتوں سچا“ رہنے کو تیار کرتی ہے۔ ربّ سے عشق کی نعمت عطاءکرتی ہے۔ عبادت اس تناظر میں آخرت کے بعد اجر کے حصول کا محض ایک وسیلہ نہیں وجودِ ربّ کا ہر دم احساس رکھنے والی عادت بن جاتی ہے۔

سہیون شریف میں دھماکے کے عین ایک روز بعد جو دھمال ہوا وہ دہشت گردوں کے لئے ایک طاقت ور جوابی پیغام سمجھا جانا چاہیے تھا۔ ہم نے اس جوابی پیغام کی قدر ہی نہیں جانی۔ سوشل میڈیا پر بلکہ اس وقت بظاہر پڑھے لکھے لوگوں کی جانب سے ایک فروعی بحث شروع کردی گئی ہے۔ شیما کرمانی لال لباس پہن کر مزار کے احاطے میں دھمال ڈال رہی تھی۔ دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ رقص کرتی شیما کرمانی کی تصویر ”خلافِ اسلام“ ہے۔

مجھے پورا یقین ہے کہ سہیون کے لئے خودکش بمبار بھیجنے والے سوشل میڈیا پر چھڑی اس فروعی بحث سے بہت شاد ہورہے ہوں گے۔ شہباز قلندر کے مزار کو انہوں نے اپنے تئیں ”بدعت کی علامت“ سمجھتے ہوئے نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے اپنی کارروائی کے ذریعے جس بیانیے کو اجاگر کرنا تھا وہ شیما کرمانی کے رقص کے حوالے سے چھڑی بحث کے ذریعے لوگوں کی بھرپور توجہ حاصل کررہا ہے۔ اس بیانیے کا Comments کے ذریعے جواب دینے کی کوشش کرنے والے حواس باختہ اور گھبرائے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ داعش نے ہمارے نام نہاد پڑھے لکھے شہری طبقات کے ایک موثر حصے کو گویا اپنا ہم نوا بنا لیا ہے۔

گھروں میں بیٹھ کر سمار ٹ فونوں کے ذریعے ”پارسائی“ کی جنگ میں مصروف لوگوں کی مگر میری نظر میں کوئی وقعت نہیں۔ ہمارے لوگوں کی اجتماعی سوچ کا اصل اظہار دھماکے کے عین ایک روز بعد قلندر کے مزار پر نوبت بجنے کے ذریعے ہوا ہے۔ اس سوچ کو ”لب بام“ بیٹھی عقل کبھی شکست دے ہی نہیں سکتی۔