1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. اس ”جن“ کو اب بوتل میں واپس ڈالنا ممکن نہیں

اس ”جن“ کو اب بوتل میں واپس ڈالنا ممکن نہیں

دو روز قبل ہی نیویارک ٹائمز میں ایک طویل مضمون چھپا ہے۔ مقصد اس کا یہ انکشاف کرنا تھا کہ انٹرنیٹ پر ٹویٹر کے ذریعے پیغام پہنچانے والی حیرت انگیزAPP کا موجد Evan Williams اپنی اس ایجاد کے بارے میں ان دنوں بہت شرمندہ محسوس کررہا ہے۔

اسے گماں تھا کہ صرف 140حروف پر مبنی کسی بھی شخص کے دل میں آئی بات کو سرعت کے ساتھ پوری دُنیا کے سامنے رکھ دینے والی یہ سہولت خلقِ خدا کو ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے میں آسانیاں فراہم کرے گی۔ عقلی دلائل کے ساتھ مختلف النوع عقائد کے پیروکار ایک دوسرے سے بحث ومباحثہ کرتے ہوئے انسانوں کے دلوں میں فطری طورپر موجود برداشت کی صلاحیت کو توانا تر بنائیں گے۔ ایسامگر ہو نہیں پایا۔

ٹویٹر کی سہولت کو بالآخر بہت ہی متعصب خیالات کے حامل افراد نے اُچک لیا۔ وہ اسے اپنے مخالفین کو جھوٹی خبروں اور تہمتوں کے ذریعے بدنام کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کئی صورتوں میں ٹویٹر کے ذریعے چند لوگوں کے ”ناپسندیدہ خیالات“ ان کے مخالفین نے اس انداز میں پیش کئے کہ جنونی لوگ ان کی جان کے درپے ہوگئے۔ Williams کو سب سے بڑا دھچکہ اس حقیقت نے بھی پہنچایا کہ ٹویٹر کے بے دریغ استعمال نے ڈونلڈٹرمپ جیسے سفاک منافع پرست اور متعصب شخص کو امریکہ کا صدر منتخب کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

Williams ٹویٹر کے منفی نتائج سے اُکتا کر اپنی کمپنی کو چند برس پہلے بیچ چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر اپنے خیالات کو Blogs کی صورت بیان کرنے کے عمل کوفروغ دینے میں بھی اس نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ امریکہ کے ایک قصبے میں پیدا ہوکر بڑا ہوا تھا۔ اسے یہ دُکھ تھا کہ اس کے ساتھ رہنے والے لوگ اس کے خیالات کو نہیں سمجھتے۔ قصباتی زندگی کی کنوئیں میں مینڈک والی زندگی گزارنے میں مگن رہتے ہیں۔ اسے اپنے خیالات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچاکر انہیں اپنا دوست بنانے کا بے حد اشتیاق تھا۔ اپنے خیالات کو مگر وہ کسی اخبار یا جریدے میں کسی مضمون کی صورت چھپوانے کا اہل نہیں تھا۔ اس لئے Blogs لکھنے پر مجبور ہوگیا۔

ان بلاگس کو انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کے لئے خاص مہارت درکار تھی۔ اس نے یہ مہارت اپنے کمپیوٹر سے کھیلتے ہوئے دریافت کرلی۔ اسے دریافت کرنے کے بعد Williams نے یہ مہارت لوگوں تک منتقل کردی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے ایک کمپنی بنائی۔ اس کمپنی کے لئے کام کرنے والے چند افراد ہی نے لمبے چوڑے مضامین کے بجائے من کی بات کو صرف 140حروف کے ترنت استعمال کے ساتھ بیان کردینے کے لئے ٹویٹر والی سہولت کو دریافت کیا۔

ابلاغ کے ہنر سے کئی برس تک تجربے کرنے کے بعد Williams اب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ آزادی¿ اظہار کے حق کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے بھی ضروری ہے کہ لوگ اپنے خیالات کو تحریری صورت دیں توانہیں انٹریٹ کے ذریعے دُنیا بھر کے سامنے لانے سے پہلے کسی Gate سے گزارا جائے۔ روایتی اخبارات اور جرائد میں ایسے دروازے پر بیٹھا شخص مدیر(Editor) کہلاتا تھا۔ Williams کا خیال ہے کہ ٹویٹر کے ذریعے لوگوں کو دلو ںمیں نسلوں میں موجود تعصبات میں مزید شدت اس لئے آئی کہ اس کے ذریعے ادا کئے خیالات کو چیک کرنے کے لئے کوئی "Gate Keeper" موجود نہیں تھا۔

پاکستان میں 24/7ٹیلی وژن متعارف ہوا تو اس کے ساتھ بھی یہی بدقسمتی ہوئی۔ کسی بھی خبر کو سرعت کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے میں ”بازی“ لے جانے کے جنون نے موقعہ پر موجود رپورٹر کو ایڈیٹر سے زیادہ طاقت ور بنادیا۔ ہاتھ میں موبائل لئے وہ رپورٹر بولے چلاجاتا۔ واہی تباہی بکتے ہوئے خبر میں سنسنی خیزی کا درآنا ضرری تھا۔ اس کے بعد آگئی Ratings والی بلا۔ اس بلاکو شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ٹی وی پر براجمان Celebrity Anchors نے اپنے قابو میں کرلیا۔ دُنیا کے کسی بھی موضوع کی بابت خود کو عقل کل سمجھنے والے یہ اینکر خواتین وحضرات اپنے اداروں کے Starsبن گئے۔ ان میں سے اکثر نے کبھی کسی اخباری ادارے کے لئے کسی بھی حیثیت میں کام نہیں کیا تھا۔ یہ صرف مائیک اور کیمرے کے سامنے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ بولے چلے جانے کے اعتماد سے مالا مال تھے۔ پاکستان ایسے ملک میں جہاں ناخواندگی ہے،کتاب پڑھنے کی لوگوں کو عادت نہیں،سوچنے کی زحمت سے بچاجاتا ہے اور مختلف النوع واعظ حضرات کے خطبات سے ”ایمان تازہ“ کیا جاتا ہے،بے تکان بولے جانے والے لوگ کوئی نہ کوئی ”چورن“ بیچنے کے لئے مجمع اکٹھا کرلیا کرتے ہیں۔ ہمارے سیلبریٹی اینکرز بھی ایسے ہی مجمع باز ثابت ہوئے اور خوب رونق لگائی۔

2010ء کے بعد سے مگر ہماری ریاست کے چند دائمی اداروں اور ان میں سے طاقت ورترین ادارے کے کلیدی عہدے پر بیٹھے لوگوں کو احساس ہوا کہ معاملہ ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ ”ذرائع“ کے ذریعے کوشش ہوئی کہ عقل کل بنے اینکر خواتین وحضرات اپنی ”حق گوئی“ کا رُخ صرف ”بدعنوان اور نااہل سیاستدانوں“ تک محدود رکھیں۔ ٹی وی پر دکھائی دینے والے چند صحافیوں نے البتہ اشرافیہ کے ساتھ ”برابری کا سلوک“ برتنے پر اصرار کیا۔ 2014ء کے بعد سے ان کا مکو ٹھپنے کے لئے کیبل آپریٹرز کو استعمال کیا گیا۔ اسی دوران عمران خان اور ڈاکٹر قادری نے اسلام آباد میں 126 دن والا دھرنا بھی دے دیا مقصد جس کا اس ملک کو ”چوروں اور لٹیروں“ پر مبنی پارلیمان اور حکومت سے نجات دلانا تھا۔ ان سے نجات کے لئے ”امپائر کی اُنگلی“ کھڑی کروانا ضروری تھا۔ ”سیاست نہیں ریاست“ کو بچانا تھا اور یہ بات عیاں ہے کہ ”ریاست“ کو وہی بچاسکتا ہے جسے اس کے ”حتمی تحفظ“ کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔

ٹی وی سکرینوں پر عقل کل بنے ”حق گو“ افراد جب ”بندے کے پتر“ بن گئے تو چند لوگوں نے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کے ذریعے ”حق گوئی“ کے جہاد کو برقرار رکھنا چاہا۔ ان میں سے اکثر کا تعلق ابتدائی دنوں میں عمران خان صاحب کے متوالوں پر مشتمل Social Media ٹیم سے تھا۔ ایک بہت ہی منظم انداز میں اس ٹیم نے مجھ سمیت اس ملک کے تمام ایسے صحافیوں کو جو عمران خان صاحب کی اندھی عقیدت میں مبتلا نہ ہو پائے تھے ”لفافہ“ صحافیوں کی صورت دے کر بدنام کیا۔ میری ”غیر اخلاقی“ حرکتیں تصویری ثبوتوں کے ساتھ دُنیا کے سامنے آئیں۔ ایک ایسی ”دستاویز“ بھی دریافت ہوگئی جس کے ذریعے ”ثابت“ ہوا کہ ملک ریاض نے مجھے اپنے بحریہ ٹاﺅن میں ایک پلاٹ دیا ہے اور ایک خاص بینک کے مخصوص نمبر سے لاکھوں روپے میرے اکاﺅنٹ میں منتقل کئے۔ میں بدنصیب آج بھی اس پلاٹ کی ملکیت حاصل کرنے کو مرا جا رہا ہوں اور مجھے ”منتقل“ ہوئی رقم کا سراغ تک نہیں مل پا رہا۔

انگریزی میں ایک فقرہ ہے جو متنبہ کرتا ہے کہWhat Goes Around Comes Around یعنی جیسی کرنی ویسے بھرنی۔ ٹویٹر اور فیس بک وغیرہ کو جس بے دریغ انداز میں ”ذرائع“ اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے استعمال کیا اس کا جواب بھی ٹویٹر اورفیس بک سے آنا تھا۔ وہ جوابات آنا شروع ہوئے تو ریاست بوکھلا گئی۔ FIA اب متحرک ہوئی ہے۔ لوگ اٹھائے جا رہے ہیں۔ جن مگر بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ اس جن کو بوتل میں واپس ڈالنا ممکن ہی نہیں رہا۔ کسی ایرانی،ترک یا چینی بھائی سے پوچھ لیں۔ وہ آپ کو گمنام رہ کر من کی بات انٹرنیٹ کے ذریعے کہہ دینے کے سو طریقے بتا دے گا اور انٹرنیٹ کو مکمل طور پر بند کردینا اس دور میں کسی بھی ریاست کے لئے ممکن نہیں رہا۔ پنجابی محاورے والی گدھی سے گرکر کمہار پر غصہ اتارنے سے پرہیز ہی بہتر ہوگا۔