1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. جناں تیری مرضی نچا بیلیا

جناں تیری مرضی نچا بیلیا

بدھ کی صبح اُٹھا ہوں تو علم ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک اور عمران خان صاحب کے معتمد ترین شمار ہوتے نعیم الحق صاحب نے منیب فاروق کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران دانیال عزیز کے منہ پر طیش میں آکر تھپڑدے مارا۔

منیب سے میری دو یا تین اتفاقیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اینکروں والی رعونت موصوف میں ہرگز نظر نہیں آئی۔ مہذب، عاجز اور انکسار محسوس ہوئے۔ دوسرے کی بات کو تحمل سے سن کر اندر کی بات ڈھونڈنے کے خواہش مند۔ بہتر ہوتا کہ وہ اس پروگرام کو نشر نہ ہونے دیتے۔ نعیم الحق اور دانیال عزیز کے مابین ہوئے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے متبادل پروگرام میں سیاسی مباحثوں کے معیار اور ٹی وی ٹاک شوز میں مختلف جماعتوں کی نمائندگی کرنے والوں کے عمومی رویوں پر گفتگو کی جاسکتی تھی۔

ٹیلی وژن مگر Ratings کا غلام ہے۔ منیب کو جو بھی تنخواہ ملتی ہوگی اس کی باقاعدہ فراہمی ان ریٹنگز کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اینکر خواتین وحضرات تو محض کارندے ہیں۔ خود کو بھلے کتنا ہی سٹار سمجھتے رہیں۔ جس ٹی وی کی سکرین پر نمودار ہوتے ہیں اس کی انتظامیہ نے تو فقط یہ دیکھنا ہے کہ اینکر کتنے Eyeballs کو Engage کرتا ہے۔ دیکھنے والی آنکھوں کی تعداد اشتہارات دینے والوں کے روبرو رکھی جاتی ہے۔ اس کے سوا سب کہانیاں ہیں۔

ریکارڈنگ کے دوران نعیم الحق نے دانیال عزیز کو تھپڑدے مارا تو جس ادارے سے ان دنوں منیب وابستہ ہیں اس کے ہاں گویا تیل دریافت ہوگیا۔ غالباََ دوپہر کے کسی لمحے ہوئی اس ریکارڈنگ میں سے تھپڑوالے Segment کو نکال کر Breaking News بنادیا گیا۔ خبرنامے میں اسے دکھاکر Hype Building ہوئی۔ مجھے یقین ہے کہ جب منیب کا شو وقتِ مقررہ پر آن ایئر ہوا ہوگا تو زبردستRatingsآئی ہوگی۔ رونق لگ گئی۔ بھانڈوں کی زبان میں ’’بھاگ‘‘ جن کے ’’لگے رہنے‘‘ کی دُعا مانگی جاتی ہے۔ منیب فاروق کی ذاتی شائستگی گئی بھاڑ میں۔

یہ لکھنے کے بعد میں یہ اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے بھی کسی ٹی وی پروگرام میں ایسا ہی کوئی واقعہ ہوتا تو جس ٹی وی چینل کا میں ’’اینکر‘‘ کے لاحقے والا کارندہ ہوتا وہ بھی اس واقعہ کو اسی طرح Cash کروانے کی کوشش کرتا جس انداز میں منیب کے چینل نے کیا ہے۔ ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے۔ منہ پر سرخی پائوڈر لگواکر جب سکرین پر براجمان ہوتے ہیں تو صحافی نہیں رہتے۔ ایکٹر بن جاتے ہیں۔ ہماری ’’فن کارانہ‘‘ صلاحیتوں کو Eyeballs کی تسلی کرنا ہوتی ہے۔

کافی نامور ہدایت کار بھی جو فلم سازی کے حوالے سے گرو سمجھے جاتے ہیں آخر ’’بارہ آنے‘‘ کا ٹکٹ خریدنے والوں کی تسلی کے لئے Item Songs کسی نہ کسی طرح اپنی فلم میں ڈالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ گلزار جیسا بے پناہ شاعر’’چل چھیاں چھیاں چھیاں‘‘ لکھتا ہے۔ شاہ رخ خان اس دور میں Method اداکاری والے سکول کا بھرپور نمائندہ ہوتے ہوئے بھی غالباََ ملائیکہ نامی کسی رقاصہ کے ساتھ کولہے مٹکاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

نعیم الحق ہمارے ٹی وی ٹاک شوز کے لئے ایٹم Item ثابت ہوچکے۔ بھانڈوں کی زبان میں ایک بار پھر دہراتا ہوں ’’بھاگ لگے رہین‘‘ اور مجھ ایسے کلاکاروں کا رزق چلتا رہے۔ نعیم الحق کی ہر شو کے لئے ڈیمانڈ اب آسمانوں کو چھولے گی۔

ٹویٹر اکائونٹ کو یہ کالم لکھنے سے قبل دیکھا تو اس پر کئی لوگ انتہائی خلوص سے یہ درخواست کرتے نظر آئے کہ منیب کے شو میں ہوئے واقعے کے بعد تمام اینکروں کو یکجا ہوکر فیصلہ کرلینا چاہیے کہ وہ آئندہ اپنے شوز میں نعیم الحق صاحب کو مدعو نہیں کریں گے۔ مجھے ان پیغامات لکھنے والوں کی سادہ لوحی پر بہت پیار آیا۔ یہ نیک طینت لوگ ہرگز نہیں سمجھتے کہ ٹی وی سکرینوں پر رونق لگانے والوں کی مجبوریاں کیا ہیں۔

آج سے چند برس قبل میں ایک نیٹ ورک پر اچھی تنخواہ کے لالچ میں چند دنوں کے لئے وابستہ ہوا تھا۔ مجھے Hire کرنے سے پہلے بہت عہدوپیماںہوئے کہ’’میری صحافت‘‘ کا احترام ہوگا۔ میری شمولیت کے چند ہی روز بعد لیکن مجھے ایک ٹی وی شو کلپ بھیجی گئی۔ اس پروگرام کے اینکر نے اس میں مدعو کئے سیاست دان سے چند سوالات کئے تو وہ مائیک اُتار کر غصے میں واک آئوٹ کرگیا۔ اس کلپ کے ذریعے درحقیقت ’’میری صحافت‘‘ کو خوش حالی کا راستہ دکھانے کی کوشش ہوئی تھی۔

مزید حیرت اس حوالے سے مجھے اس لئے بھی ہوئی کہ اس کلپ میں میرے لئے قابلِ تقلید بنائے اینکر صحافت کے شعبے میں مجھ سے کئی سال جونیئر تھے۔ بخدا میں صحافت میں سینئر اور جونیئر والی تقسیم پر اعتبار نہیں کرتا۔ اصل بات Talentہے۔ مجھ سے کئی برس جونیئر شخص میں بھی اگر پیشہ وارانہ تجسس جنون کی حد تک پایا جاتا ہے۔ رپورٹنگ کا ہنر اس کی جبلت ہے۔ اسے بات کہنے کا ڈھنگ آتا ہے تو مجھے انتہائی خلوص کے ساتھ اس کے ہنر کو تسلیم کرنا چاہیے۔ میرے کئی جونیئر ساتھی گواہی دیں گے کہ میں نے ان کے Talent کو ہمیشہ دل سے سراہا۔ منافقانہ چاپلوسی نہیں کی۔

مجھے دُکھ مگر یہ ہوا کہ میرے لئے قابلِ تقلید بنائے صحافی جنہوں نے مذکورہ کلپ میں ’’جارحانہ سوالات‘‘ سے مہمان سیاستدان کو مائیک اتار کر ’’بھاگ جانے‘‘ پر مجبور کردیا تھا۔ صحافت کے شعبے سے متعلق مختلف NGOs کے زیر اہتمام نوجوان صحافیوں کو ’’اصل سماجی مسائل‘‘ کے بارے میں "Sensitize" کرنے کی خاطرمنعقد ہوئی ورکشاپس میں بہت تواتر کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔

میں ذاتی طورپر ایسی ورکشاپس میں حصہ لینے سے انکار کردیتا ہوں۔ بہت اصرار ہو تو صرف سامعین میں شریک ہونے پر آمادہ ہونا مجبوری بن جاتا ہے۔ میں سامعین میں موجود ہوں تو اس ورکشاپ کے منتظمین کو گماں ہوتا ہے کہ شاید سوال جواب کے سیشن میں Moderator مجھے ’’سینئر صحافی‘‘ پکارتے ہوئے کچھ نہ کچھ کہہ دینے پر اُکسالے گا۔ اگرچہ اس امید کے ضمن میں شاذ ہی کارآمد ثابت ہوا۔

میرے لئے قابلِ تقلید بنائے ’’صحافی‘‘ مگر ایسی ورکشاپس میں اپنے لیپ ٹاپ کیساتھ نمودار ہوا کرتے تھے۔ Microsoft Power Point والی Presentation۔ بہت محنت سے اپنایا امریکی لہجہ۔ اُردو بولتے ہوئے بھی درباری رکھ رکھائو۔ اپنے لیکچر میں اکثر وہ صاحب ہم لوگوں کو ’’اصل صحافت‘‘ سمجھاتے پائے جاتے۔ ان کی ’’قابلِ تقلید‘‘ بنائی کلپ دیکھی تو اپنا سرپکڑ لیا۔ خون کھول رہا تھا تو خیال آیاکہ میں اور وہ ایک ہی سیٹھ کے ملازم ہیں۔ اچھی تنخواہ کے لالچ میں اس کے لئے کام کرنے آئے ہیں اور نورجہاں کا گانا ہے:’’جناں تیری مرضی نچا بیلیا‘‘۔