1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. کچی مٹی کا بنا ہوا ’’مادھو‘‘

کچی مٹی کا بنا ہوا ’’مادھو‘‘

اپنے عزیزوں اور ہمسایوں کو بہت ہی معصوم، بے ضرر اور عموماََ ضرورت سے زیادہ نیک پاک نظر آنے والے چند شیطان صفت لوگ ہی بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کا ارتکاب کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان درندوں کی شناخت تقریباََ ناممکن ہوتی ہے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ جیسے شہرئہ آفاق ادارے سے متعلق تفتیش کار بھی نفسیاتی الجھنوں کا شکار مگر ذہنی اعتبارسے بہت ہی ہوشیار Serial Killers کا سراغ لگانے میں کئی برس لگانے کے باوجود کئی بار ناکام ہوجاتے ہیں۔

مذکورہ بالا حقائق کے تناظر میں شہباز شریف کی اندھی نفرت میں مبتلا کوئی متعصب شخص ہی پنجاب حکومت اور اس کے اداروں کی جانب سے قصور کی بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنانے والے وحشی کی گرفتاری کے بارے میں نظر آئی سرعت کو نہیں سراہے گا۔

تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ 2015 میں ہمارے The Nation نے قصور ہی کے بارے میں ایک دل دہلا دینے والی تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی۔ درندہ صفت لوگوں پر مشتمل ایک گروہ کی داستان جو بچوں کو نہ صرف جنسی تشدد کا نشانہ بناتا بلکہ ان کے ساتھ ہوئے ظلم کو وڈیوز پر ریکارڈ کرتے ہوئے دنیا بھر میں Sadist افراد کی لذت کے لئے انٹرنیٹ پر چڑھادیتا۔ پنجاب حکومت نے شترمرغ کی طرح اس واقعے کے بارے میں ریت میں سرچھالیا۔ کئی ’’معتبر‘‘ اہلیانِ قصور بھی اس کہانی کو بہتان طرازی کہتے ہوئے جھٹلاتے رہے۔

دل دہلا دینے والا سچ یہ بھی ہے کہ اس سال کے آغاز میں مکروہ صفت وحشی کا نشانہ بنی زینب گرفتار شخص کا آٹھواں شکار تھی۔ یہ ایک درندہ گزشتہ کئی مہینوں سے قصور کے دو تھانوں کی حدود میں ہوئی ایک جیسی واراتوں میں ملوث تھا۔ اگر جنسی درندگی کے پہلے واقع کے بعد ہی مقامی پولیس اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ یکسو ہوکر مجرم کا سراغ لگانے پر تل جاتی تو زینب شاید آج بھی زندہ ہوتی۔

پنجاب کی فرانزک لیب، قصور میں لگائے CCTV کیمروں اور فون Tapping کے ذریعے مجرموں کی Location دریافت کرنے والی سہولتیں وحشی عمران تک پہنچ پائیں تو بنیادی وجہ اس کی یہ تھی کہ زینب کے ساتھ ہوئے دلخراش قصے کے بعد قصور کے شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ حکومت مخالف سیاست دانوں نے ان کے غصے کو Cash کروانے کے لئے اس شہر کے دورے کئے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا یکسو ہوکر اس قصے کو رپورٹ کرتا رہا۔ عدلیہ نے نوٹس لیا۔ شہری تنگ آکرآرمی چیف سے انصاف کی فریاد کرتے پائے گئے۔

یہ سب ہوگیا تو شہباز شریف صاحب نے مجرم کا سراغ لگوانا اپنی ضد بنالیا۔ ربّ کریم کی مہربانی سے وہ اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ہماری تحسین کے ہر حوالے سے مستحق۔

اپنی تحسین کو یقینی بنانے کے لئے لیکن ملزم کی گرفتاری کے بعد ہوئی پریس کانفرنس کے دوران جو رویہ انہوں نے اختیار کیا وہ ہرگز مناسب نہیں تھا۔ مجھے واقعتا بہت دُکھ ہوا کہ مجرم کی نشان دہی کے بعد وہ قطعی نامناسب دکھتی Point Scoring میں مصروف ہوگئے۔ بنیادی طورپر ایک بہت ہی گھمبیر مسئلہ حل کروالینے کے بعد وہ کئی مقامات پر اپنے مرتبے سے گری باتیں کرتے نظر آئے۔

جھوٹ لکھنا مجھے آتا نہیں۔ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ ان کی پریس کانفرنس کے دوران بارہا مجھے اپنے غصے پر قابو پانے کے لئے پانی کے کئی گلاس ختم کرنا پڑے۔ ان کی پریس کانفرنس کے آغاز سے قبل میرا ٹی وی شو Live جارہا تھا۔ وہ شو روک کرکیمرہ ان پر Cut کرنا پڑا۔ میں مائیک لگائے سٹوڈیوز میں اپنی نشست پر بیٹھا رہا۔ گماں تھا کہ ان کے ابتدائی کلمات کے بعد مجھے ان کی پریس کانفرنس پر تبصرہ آرائی کی مہلت نصیب ہوجائے گی۔ ربّ کا لاکھ لاکھ شکر کہ موقعہ ہی نہ ملا۔ وگرنہ مشتعل ہوا منہ میں جو آتا کہہ ڈالتا۔

شب گزرنے کے بعد صبح یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو شہباز صاحب پر غصے کے بجائے رحم آنا شروع ہوگیا ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ پیر کے روز احتساب کے دفتر جانے کے بعد سے وہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر Insecure محسوس کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کے مخالفین کو امید تھی کہ ’’گاڈفادر‘‘ کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعدحدیبیہ پیپرز ملزکی پٹاری کھلے گی اور ’’گاڈفادرII‘‘ کی بھی چھٹی ہوجائے گی۔ شریف برادران احتساب کے شکنجے میں جکڑے گئے تو نون کے لاحقے والی مسلم لیگ تتر بتر ہوجائے گی۔ ’’مرزا یار‘‘ ان میں اتراتا پھرے گا۔ سپریم کورٹ کے ایک معزز بنچ نے مگر انصاف کے کڑے معیار کو برتتے ہوئے حدیبیہ کیس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ بات چل نکلی کہ آئندہ انتخابات بروقت ہوں گے۔ نوازشریف کی نااہلی کے باوجود بروقت انتخاب نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کو واضح Edge دیتے نظر آرہے تھے۔ ان کے نتائج شہباز صاحب کو وزیر اعظم کے دفتر بھیجتے بھی نظر آئے۔ ’’خادم اعلیٰ‘‘ نے اپنی ممکنہUpward Mobilityکو Taken for Granted لے لیا۔

محکمہ احتساب کی جانب سے آشیانہ سکیم کے حوالے سے اٹھائے چند سوالات نے میری دانست میں شہباز شریف کو مگر ہلا کررکھ دیا ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ اس ضمن میں کسی واضح بدعنوانی کے مرتکب ہوئے۔ میرا اندازہ فقط یہ ہے کہ حدیبیہ والے قضیے کے سپریم کورٹ کے ایک بنچ کے ہاتھوں اختتام کے بعد شہباز شریف اپنے لئے ’’ستے خیراں‘‘ والا ماحول محسوس کررہے تھے۔ احتساب بیورو کی جانب سے جاری ہوئے نوٹس نے انہیں چونکا دیا ہے۔ وہ غالباََ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ریاست کے چند ستونوں میں موجود کئی طاقت ور افراد کو نوازشریف کے بعد ان کا محاسبہ بھی مقصود ہے۔

شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی طرح گہرے سمندروں میں سفر کے عادی نہیں۔ ان کی طبیعت بہت اتاولی ہے۔ کسی زمانے میں بائیں بازو کے مہا مفکر مانے پروفیسر مبارک حیدر نے مادھولال حسین پر ایک نظم لکھی تھی۔ اس میں بتایا ’’مادھو‘‘کچی مٹی کا بنا ہوا تھاجو ’’ذرا سے پانی‘‘ سے بہہ گیا تھا۔ احتساب بیورو کی جانب سے جاری ہوئے نوٹس نے شہباز شریف کو یقینا اس مادھو کی طرح Unnerve کردیا ہے۔ اس کے بعد سے اٹھا اضطراب مجھے ان کی منگل ہی کے دن لیہ کے ایک جلسے میں ہوئی تقریر کے دوران بھی نظر آیا۔ زینب کے قاتل کی گرفتاری کی تصدیق کرتی پریس کانفرنس کے دوران بھی اضطرابی کیفیت ان پر حاوی رہی۔ وہ اب خود کو کسی گہری سازش کا شکار سمجھتے نظر آئے۔ بھنور سے بخیریت اور بہت ہی سرعت کے ساتھ باہر نکلنے کو بے تاب۔ یہ بے تابی اور بے چینی ان کے سیاسی مخالفین کو قادری کے لاہورمیں لگائے شو کی وجہ سے ملی مایوسی سے باہر نکل کر دوبارہ گرجنے اوربرسنے کی مناسب Space فراہم کردے گی۔