1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. کمان سنبھالنے کے بعد چیف احسان مند نہیں رہتا

کمان سنبھالنے کے بعد چیف احسان مند نہیں رہتا

”ذرائع “ کے بنائے ”صحافیوں“ کی بدولت ہمارے عوام کی اکثریت کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی ہے کہ صرف سیاسی حکمران ہی آرمی چیف کی تعیناتی کرتے وقت”سینیارٹی“ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ”ان کا بنایا“چیف ریاستی یا ادارتی مفاد کے بجائے صرف ان کا وفادار رہے۔ ایسا اگرچہ ہماری تاریخ میں کبھی ہوا نہیں۔جنرل ضیاءالحق اور مشرف نے اپنے ”محسنوں“کے ساتھ بلکہ عبرت ناک سلوک کیا تھا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے ضمن میں نام نہاد سینیارٹی کو البتہ بے دریغ انداز میں ہرگز نظرانداز نہیں کیا گیا۔ راحیل شریف صاحب کی رخصت کے بعد تعیناتی کے اہل سمجھے گئے چاروں جرنل ایک ہی سال آرمی میں بھرتی ہوئے تھے۔جب کوئی نوجوان فوج میں بھرتی ہوتا ہے تو اسے کاکول اکیڈمی میں داخلے کے وقت کیڈٹ نمبرالاٹ ہوتا ہے۔ یہ سویلین سکولوں کے طالب علموں کے رول نمبر کی مانند ہوتا ہے۔

کاکول میں دو سال مکمل کرلینے کے بعد ان کیڈٹوں کو پاس آﺅٹ کرتے وقت ان کی اکیڈمی میں کارکردگی کی بدولت PA نمبر الاٹ ہوتا ہے۔ اس نمبر کے ذریعے ”سنیارٹی“ طے ہوجاتی ہے مگر یہ ہرگز حتمی نہیں گردانی جاتی ہے۔ مثال کے طورپر ایک ہی بیچ میں شامل ہوکر اکادمی سے فارغ ہونے والے دو طلباءکو میجر سے کرنل بنانے کا مرحلہ آئے تو PA نمبر کے حوالے سے ”جونیئر“ فرد بھی چند مخصوص وجوہات کی وجہ سے،جوسراسر پروفیشنل بنیادوں پر مبنی ہوتی ہیں،اپنے ”سینئر“ سے بازی لے جاسکتا ہے۔ جنرل باجوہ کا اپنے ہم عصروں کے ساتھ آرمی چیف کی تعیناتی کے مرحلے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ LOC کے تقریباََ تمام تر مقامات پر ان کی مختلف Posting نے بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں فیصلہ کن اہمیت حاصل کرلی۔

آرمی چیف کی تعیناتی کے ذکرنے مجھے یاد کرنے پر مجبور کردیا کہ جنوری 1993ء میں جنرل آصف نواز جنجوعہ کی بطور آرمی چیف ناگہانی مگر ایک حوالے سے بے وقت وفات کے بعد غلام اسحاق خان بھی ایک ”جونیئر“ کو ترجیح دینے پر مجبور ہوئے تھے۔ اس امر کے باوجود کہ بیوروکریسی کی حتمی علامت سمجھے جانے والے صدر اسحاق ہمیشہ ترقی اورتبادلے سے جڑے فیصلے کرتے ہوئے میرٹ کو ترجیح دینے کے عادی تھے۔

آئین میں ہوئی آٹھویں ترمیم کی بدولت ان دنوں آرمی چیف کی تعیناتی کرتے وقت صدرِ پاکستان،وزیر اعظم کے مشورے کا پابند نہیں ہوا کرتا تھا۔ اپنی وفات سے قبل جنرل جنجوعہ کی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ بدگمانیوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ کئی سازشیوں نے ان بدگمانیوں کو بلکہ جنرل صاحب کی بے وقت موت کا باعث ٹھہرانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی تھی۔

ان کے انتقال کے بعد نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا سوال اٹھا تو نظر بظاہر”ادارے“کی پسند واہ کے مشہور حیات خاندان کے جنرل فرخ تھے۔نواز شریف کی پسنددواور جنرل تھے۔ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان کسی ایک نام پر اتفاق ہوتا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ اسلام آباد کا ہررپورٹر ممکنہ نام کی تلاش میں خجل خوار ہورہا تھا۔

صحافیوں کی طرح چند بہت کائیاں اور اہم گردانے سیاست دان بھی پریشان ہوئے۔نئے شخص کا کھوج لگانے میں مصروف تھے۔ کرک کے جہاندیدہ سیاست دان اسلم خٹک صاحب کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا تھا۔خٹک صاحب ویسے تو بہت مرنجان مرنج آدمی تھے مگر صحافیوں کو فاصلے پر رکھتے ۔ان دنوں کے ایک بہت ہی متحرک رپورٹر اظہر سہیل مرحوم سے تو وہ خاص کر بہت چڑتے تھے۔ مجھے مگر وہ نہ جانے کیوں برداشت کرلیتے۔

مرحوم اظہر سہیل میرے بہت قریبی دوست تھے۔ اگرچہ ان کی وفات سے قبل آصف علی زرداری سے ان کی قربت نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کردیا تھا۔بہرحال مرحوم ضرورت سے کہیں زیادہ متجسس اور بے چین رپورٹر تھے۔ انہیں پورا اعتماد تھا کہ صدر اسحاق نے جنرل فرخ کا انتخاب کرلیا ہے۔ وہ بضد رہے کہ میں اپنے سسر مرحوم کے ذرائع جو صدر اسحاق کے بہت قریب تھے، استعمال کرتے ہوئے ان کی ”خبر“کنفرم کروادوں۔میں ٹالتا رہا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ اسلم خٹک صاحب کے گھر بن بلائے پہنچا جائے۔ اپنے تجربے اور واسطوں کی وجہ سے کرک سے تعلق رکھنے والے بزرگِ باخبر کو ہر صورت علم ہوچکا ہوگا کہ نیا آرمی چیف کون ہوسکتا ہے۔

ہم دونوں خٹک صاحب کے گھر پہنچے تو انہوں نے کمال شفقت سے ہمیں اپنے سٹنگ روم میں بلالیا۔اظہر سہیل مرحوم کو دیکھ کر البتہ وہ تھوڑا جزبزہوئے کیونکہ پی ایس نے انہیں صرف میرے آنے کی خبر دی تھی۔ خٹک صاحب سورج ڈھلنے کے بعد گھڑی رکھ کر اپنا ”شغل“ فرمانے کے عادی تھے۔ان کے سونے کے اوقات ایک حد تک اٹل تھے۔ اس شام مگر وہ بہت بے چین نظر آئے۔ ہماری باتیں نظرانداز کرتے ہوئے وقفے وقفے سے فون اُٹھاکر اپنے پی ایس پر دھاڑتے رہتے کہ وہ مرحوم جنرل مجیب الرحمن سے ان کی بات کیوں نہیں کرواپارہا ہے۔ بالآخر طویل انتظار کے بعد ان کی مجیب صاحب سے بات ہوگئی اور انہوں نے انہیں فوراََ اپنے گھر آنے پرآمادہ کرلیا۔

جیسے ہی جنرل مجیب الرحمن،اسلم خٹک کے ہاں پہنچے تو نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا ذکر شروع ہوگیا۔ میں نے بڑی ایمان داری اور عاجزی سے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرلیا۔ مرحوم اظہر سہیل البتہ اس دعویٰ پر بضد رہے کہ جنرل فرخ کا ”فیصلہ ہوچکا ہے“۔اظہر سہیل کی تکرار سے تنگ آکر خٹک صاحب نے انتہائی بے زاری سے انہیں یاد دلایا کہ وہ فی الوقت جنرل مجیب کی رائے معلوم کرنا چاہ رہے ہیں۔ بزرگانہ انداز میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ خدا نے ہمیں دوکان اور دوآنکھیں مگر ایک زبان دی ہے۔ اس کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ کم بولو اور زیادہ سنو وغیرہ وغیرہ۔

جنرل مجیب الرحمن مرحوم کو”مائیک“ملا تو انہوں نے اعتماد بھرے اطمینان کے ساتھ انکشاف کیا کہ جنرل وحید کاکڑ نئے آرمی چیف ہوں گے۔ اس وقت تک کم از کم ہم صحافیوں میں سے کسی ایک نے بھی کاکڑ صاحب کا نام تک نہیں سنا تھا۔خٹک صاحب بھی یہ نام سن کر حیران ہوگئے۔ اظہر سہیل مگر اپنی بات پر بضد رہے۔ایک دن بعد جنرل کاکڑکی تعیناتی ہوگئی۔

ان کی تعیناتی کا اعلان ہوگیا تو میں بہت حیران ہوا۔جنرل مجیب الرحمن میری ”حرکتوں“ کے باوجود میرے ساتھ شفقت فرماتے تھے۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ اور میرے سرپرائمری سکول میں ایک ساتھ داخل ہوئے تھے اور دونوں نے ٹاٹ پر بیٹھ کر تختی پر لکھنا سیکھا تھا۔ میں نے فون کیا تو انہوں نے فوراََ رات کے کھانے پر بلالیا۔ ان کے ہاں پہنچنے کے بعد میں نے اعتراف کیا کہ میں صرف یہ سمجھنے کے لئے ان کے ہاں حاضر ہوا ہوں کہ وہ جنرل وحید کی تعیناتی کے بارے میں اتنے پراعتماد کیوں تھے۔

جنرل مجیب الرحمن نے اپنے اعتماد کی وجہ بتانے سے پہلے مجھے سمجھایا کہ ”بادشاہ“ جب کسی مشیر سے کسی مسئلے پر رائے مانگے تو مشورہ دینے والے کو یہ بات ہر صورت اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ”بادشاہ“ کے اپنے من میں کیا ہے۔جنرل مجیب سے بھی اس وقت کے چیف آف جوائنٹس سٹاف جنرل شمیم عالم کے ذریعے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے ضمن میں مشورہ طلب کیا گیا تھا۔

مجیب صاحب سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے یہ بات اپنے ذہن رکھی کہ نواز شریف کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے صدر اسحاق کو ایک ایسا آرمی چیف درکار ہے جو ان کا تحفظ یقینی بناسکے۔اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجیب الرحمن مرحوم کو جنرل وحید کاکڑ موزوں ترین امیدوارنظر آئے جبکہ ”سینیارٹی“کے حوالے سے وہ باقی امیدواروں سے کافی جونیئر تھے۔وحید کاکڑ کا نام سنتے ہی لیکن صدر اسحاق نے ان کی فائل منگوالی۔مجیب الرحمن کو بھی ”ہاں“ کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ اسلم خٹک صاحب کے ہاں وہ یہ ”ہاں“سننے کے بعد ہی تشریف لائے تھے۔

جنرل وحید کاکڑ بالآخر آرمی چیف بن گئے۔ تاریخ مگر یہ بھی بتاتی ہے کہ جب نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے درمیان Either/Or والا مرحلہ آیا تو کاکڑ صاحب نے دونوں سے استعفیٰ لے کر نئے انتخابات کروادیے تھے۔”ادارے“کی اجتماعی سوچ ان کی ذاتی ترجیحات اور پسندیا ناپسند پر حاوی رہی۔آرمی کی کمان سنبھالنے کے بعد ”چیف“کسی کا ”احسان مند“نہیں رہتا۔والہانہ وابستگی اسی ادارے کے ساتھ برقرار رکھتا ہے جس کا وہ کماں دار ہوتا ہے۔