1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. منزل ابھی نہیں آئی!

منزل ابھی نہیں آئی!

93 برس کا ہوجانے کے باوجود زمبابوے کا موگابے بہت کائیاں ثابت ہوا ہے۔ کرنل قذافی جیسے انجام سے دوچار نہیں ہوا۔ فارغ اپنے عہدے سے حسنی مبارک کی طرح بھی نہیں ہوا۔ ہمارے جنرل مشرف جیسا ہوشیار ثابت ہوا۔

اپنی فوج کے دباﺅ میں آکر اس نے فوری استعفیٰ نہیں دیا۔ اسے چکر د ے کر اپنی سیاسی جماعت کو مجبور کیا کہ وہ اسمبلی میں اس کے مواخذے کی قرارداد پیش کرے۔ اس قرارداد پر رائے شماری سے قبل ہی لیکن مستعفی ہونے کو تیار ہوگیا۔

استعفیٰ پر رضا مند ہونے سے قبل اس نے تقریباََ ایک ہفتہ لگاکر حکمران اشرافیہ کو قائل کیا کہ اسے مستعفی ہونے کے بعد جلاوطنی کا محفوظ راستہ فراہم کیا جائے۔ اس کی بیوی ملک میں پہلے ہی سے موجود نہیں۔ بیٹے بھی غیر ممالک میں بیٹھے عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ اپنی دولت اور اثاثوں کو محفوظ بناکر اب وہ کسی غیر ملک جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگا۔ زمبابوے کے عام انسان مگر اس گماں میں مبتلاہوکر لڈیاں ڈال رہے ہوں گے کہ ان کے ملک میں بالآخر ”حقیقی جمہوری حکومت“ آگئی ہے۔ اب صاف، شفاف اور آزادانہ انتخابات ہوں گے۔ ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کرپشن کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔ بدعنوانوں کا احتساب ہوگا۔ میڈیا آزاد ہوجائے گا اور ”نئی“ سیاسی جماعتوں کو بنانے اور چلانے کا ماحول میسر آجائے گا جو اس ملک کو برطانیہ اور سفید فام نسل پرست حکومت سے نجات دلانے والے ”حریت پسندوں“ کی بنائی جماعت کی آمریت کے متبادل اور مثبت جمہوری نظام کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔

39 سال تک پھیلی مطلق العنان آمریت کے ذریعے بادشاہوں جیسے اختیارات سے لطف اندوز ہونے کے بعد رابرٹ موگابے کی اقتدار سے رخصتی انگریزی شاعری میں بیان کردہ False Dawn ہے جسے ہمارے فیض احمد فیض نے ”شب گزیدہ سحر“ کہا تھا۔ ایک صبحِ کاذب بھی ہوتی ہے۔ جس کی ہوا میں ریل کی سیٹی بجی تو منیر نیازی کا دل لہو سے بھرگیا تھا۔

وطنِ عزیز میں ایسی ”شب گزیدہ“ صبحیں ہم نے کئی بار دیکھی ہیں۔ ایوب خان کے دس سالہ اقتدار کے آخری سال میں ہر روز جلسے جلوس نکلاکرتے تھے۔ لاٹھی چارج، آنسوگیس اور بالآخر کرفیو روزمرہّ کا معمول بن گئے تھے۔ اقتدار ایوب خان نے مگر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کیا۔ اس نے انتخابات کروائے تو ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ نتیجاََ پاکستان دولخت ہوگیا۔ مغربی پاکستان ”نیا پاکستان“ ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اسے متفقہ دستور بھی فراہم کردیا۔ 1974 میں ”نوے سال پرانا مسئلہ“ بھی ”حل“ ہوگیا۔ جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ٹرکوں کے پیچھے مگر ایوب خان کی تصاویر نظر آنا شروع ہوگئیں جن کے نیچے ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“ لکھا ہوتا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی نوستاروں والی ایک تحریک چلی تھی۔ 1977 میں ہوئے انتخابات کو اس نے دھاندلی زدہ قرار دے کر نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے بالآخر ”نظام مصطفےٰﷺ“ کا قیام اپنی منزل ٹھہرادی۔ غالباََ وہاں تک پہنچنے کا شارٹ کٹ فراہم کرنے جنرل ضیاءالحق تشریف لے آئے۔ ”مثبت نتائج“ دینے والے انتخابات کروانے سے قبل انہوں نے ”احتساب“ کرنا ضروری سمجھا۔ بھٹو کو قاتل ٹھہراکر تارا مسیح کے ہاتھوں پھانسی لگوادیا اورپھر افغانستان کو سوویت یونین سے آزاد کروانے کے جہاد میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے عوام میں سیاسی جدوجہد کی تڑپ کو ریاستی قوت کے وحشیانہ استعمال سے ختم کردیا گیا۔

سیاسی عمل کی موت ہی کے سبب فضائی حادثے میں جنرل ضیاءکی ہلاکت کے بعد اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کا ڈرامہ رچانا ممکن ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھوانے سے پہلے یہ عہد لیا گیا کہ وہ افغانستان پالیسی میں دخل نہیں دیں گی۔ ایٹمی پروگرام جس کے حقیقی خالق ان کے والد تھے، ان کی دسترس میں نہ تھا۔ ملکی معیشت چلانے کے لئے بھی ورلڈ بینک اور IMF کو مطمئن رکھنے کے لئے فنانس منسٹری کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ وی اے جعفری کو مشیر خزانہ بنایا گیا۔ اشرافیہ کے مابین ہوئے اس بندوبست کی بدولت وزیر عظم ہوئی محترمہ بے نظیر بھٹو خلقِ خدا کے لئے کچھ بھی Deliver نہ کر پائیں۔ مایوس ہوئے عوام نے ان کے خلاف پھیلی جھوٹی سچی کرپشن کہانیوں کو دل وجان سے قبول کیا۔ وطنِ عزیز کے مقدر کو طے کرنے والے حتمی فیصلے دائمی اداروں میں موجود اشرافیہ کے پاس ہی رہے۔ ان سے جواب طلبی کا کوئی نظام وضع نہ ہوپایا۔

اشرافیہ کے مابین Turf کے جھگڑوں کی بنیاد پر ریاستی اقتدار کو بانٹتا بندوبست جنرل مشرف کے دور تک برقرار رہا۔ مشرف آئے تو ہمیں ایک بار پھر نئی صبح کا جھانسہ دیا گیا۔ اس کے نو سالہ دور کے اختتام پر لیکن ”افتخار چودھری“ ہوگیا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کئی مہینوں تک جاری رہی۔ اس کے نتیجے میں انتخابات ضروری ہوئے۔ ان کے نتائج نے حکمران اشرافیہ کو جنرل مشرف سے استعفیٰ لینے پر آمادہ بھی کیا۔ ان کے چلے جانے کے بعد بھی اقتدار مگر ریاست کے دائمی اداروں ہی کے پاس رہا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کی بدولت البتہ عسکری اور سول بیوروکریسی کے ساتھ ”آزاد عدلیہ“ بھی حتمی اقتدار کی اہم ترین شراکت دار ہوگئی۔ اس شراکت داری ہی کی وجہ سے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم اپنے عہدے کے لئے اقامہ کی بنیاد پر نااہل ہوئے۔ ان دنوں احتساب عدالت کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم مگر ان ہی کا نامزد کردہ ہے۔ ان کے نام سے منسوب سیاسی جماعت بھی اپنی جگہ موجود اور بظاہرIntact ہے۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوئے شخص کو پارٹی قیادت پر فائز رہنے کا قانونی حق بھی حاصل کرچکی ہے۔ ہمارے میڈیا میں اگرچہ شور برپا ہے کہ ”نیا پاکستان“ بن رہا ہے جہاں کرپشن ہرگز برداشت نہیں ہوگی۔ صاحب ِ اقتدار افراد اور اداروں سے جواب طلبی کی روایت چل نکلی ہے اب صرف بڑھے چلو کہ ”وہ منزل“ ابھی نہیں آئی۔

زمبابوے کے حالیہ واقعات ایک بار پھر ہمیں یہ سمجھانے کے لئے کافی ہونے چاہیے کہ ہمارے جیسے ملکوں میں اشرافیہ کی اقتدار پر گرفت بہت مضبوط ہے۔ یہ اشرافیہ اجتماعی اعتبار سے بدنیت ہے۔ راشی ہے۔ قبضہ گیر ہے۔ ناجائز دولت جمع کرنے کی ہوس میں مبتلا ہے اور اسے اپنے احتساب کا ہرگز کوئی خوف نہیں ہے۔

خلقِ خدا کے لئے جب اس اشرافیہ کی اجتماعی بدعملیاں ناقابلِ برداشت ہونا شروع ہوجاتی ہیں تو یہ اشرافیہ اپنے ہی میں سے کسی ایک فرد کو تمام برائیوں کی جڑ ثابت کرتے ہوئے اس سے نجات پانے کے بعد سب ٹھیک کردینے کے دعوے کرنا شروع کردیتی ہیں۔

نواز شریف ہمارا حالیہ ”موگابے“ تھا۔ اسے نااہل کردیا گیا ہے۔ موگابے زمبابوے کا ”جنرل مشرف“ ثابت ہوا ہے۔ اسے رخصت دے کر وہاں بھی سب ٹھیک کرنے کے دعوے ہوں گے۔ زمبابوے ہو یا پاکستان ان ممالک میں آئیں تمام ”صبحیں“ کاذب ہیں جن کی ہواﺅں میں سفر کو تیار ریل کی سیٹی بجے تو منیرنیازی کا دل لہو سے بھر جاتا تھا۔