1. ہوم
  2. کالمز
  3. نصرت جاوید
  4. ٹرمپ سے ”جپھیوں“ کے بعد مودی کی اسرائیل یاترا

ٹرمپ سے ”جپھیوں“ کے بعد مودی کی اسرائیل یاترا

مسلمانوں کو ان ہی کے دین کی گمراہ کن تعبیر وتشریح کے ذریعے پھیلائی دہشت گردی سے ”نجات“ دلانے کا ذمہ امریکی صدر ٹرمپ نے اب اپنے سر لے لیا ہے۔ اسی باعث موصوف نے چند ہفتے قبل ریاض کا ایک ”تاریخی“ دورہ بھی کیا۔ سعودی اشرافیہ کے ساتھ تلواریں لہرانے والے روایتی رقص میں حصہ لیا اور 50 سے زائد اسلامی ممالک سے آئے حکمرانوں کوایک طویل خطاب کے ذریعے ”راہِ راست“ پر آنے کے مشورے دئیے۔

ہمارے دین کے نام پر پھیلائی دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لئے سعودی عرب نے مختلف اسلامی ممالک کے فوجی وسائل کو یکجا کرکے ایک ”مسلم نیٹو“ بنانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ کوئی غیر نہیں بلکہ ہماری اپنی افواج کے حال ہی میں ریٹائر ہوئے کمان دار، جناب راحیل شریف صاحب اس کے سربراہ ہوں گے۔ ریاض میں قیام کے دوران ٹرمپ کے اعزاز میں جو عشائیہ دیا گیا تھا، وہاں ایک میز پر ہمارے جنرل صاحب شاہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر کے داماد کے ساتھ بٹھائے گئے تھے۔

”عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی قوت“ کے ”چیف ایگزیکٹو“ کہلاتے اور ووٹ کی طاقت سے تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے نواز شریف صاحب بھی ”ریاض کانفرنس“ میں موجو تھے۔ انہیں اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کا موقعہ نہیں ملا۔ صدر ٹرمپ نے بھی ان سے اکیلے میں ملاقات کرنا گوارا نہ کیا۔ ہمارے وزیر اعظم مگر یہ سب صوفیانہ قناعت کے ساتھ برداشت کر گئے۔ شاید یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے رہے ہوں گے کہ جنرل راحیل شریف صاحب کی ”مسلم نیٹو“ کی کمان سنبھالنے کا بندوبست ان ہی کی ”منظوری“ سے ہوا ہے۔ سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا۔

پچاس سے زائد اسلامی ممالک سے آئے اور ریاض میں جمع ہوئے فیصلہ سازوں کو اپنے گرانقدر خیالات سے نوازنے کے بعد ٹرمپ سعودی عرب سے براہِ راست اسرائیل پرواز کر گیا۔ صیہونیت کے نام پر قائم ہوئے اسرائیل کے خادمینِ حرمین شریفین کے ملک کے ساتھ براہِ راست فضائی روابط موجود نہیں ہیں۔ ٹرمپ کا طیارہ مگر ریاض سے پرواز کرکے براہِ راست اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہوگیا۔ اسرائیل پہنچنے کے بعد اس نے یہودی ٹوپی پہن کر دیوارگریہ کے سامنے سرہلاتے ہوئے مناجاتوں کا وِرد بھی کیا۔ اس دیوار کی سوراخوں میں دعاﺅں والا رقعہ بھی ڈالا۔ مسلمانوں کا دل رکھنے کے لئے اس نے دیوار گریہ سے ملحق مسجدِ اقصیٰ کا ”سیاحتی دورہ“ کرنے کا بھی تردد نہیں کیا۔

ٹرمپ کے امریکہ لوٹتے ہی سعودی عرب نے قطر کے مقاطعے کا اعلان کردیا۔ شاہ سلیمان نے اپنے 31 سالہ فرزند محمد بن سلمان کو اپنا ولی عہد بھی مقرر کر دیا۔ ”دہشت گردی“ کے خلاف بھرپور تیاری کے لئے قطر کو لائن پر لانا اولین ترجیح سمجھا گیا۔ ایران کی اس فیصلے کے بعد قطر کے ساتھ اُبلتی محبت تو سمجھ میں آتی ہے مگر ترکی کا ”سلطان اردوان“ بھی اس گیم میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہے۔ 20 کروڑ سے زائد آبادی والا اسلامی جمہوریہ پاکستان جو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت بھی کہلاتا ہے اس قضیے میں کیا کردار ادا کرے گا۔ اس کے بارے میں ہم عامیوں کو بالکل خبر نہیں۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب اور قطر کے درمیان ”غلط فہمیاں“ دور کروانے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب کچھ کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ دونوں سعودی عرب گئے مگر اس کے بعد قطر نہیں جاسکے۔ وزیر اعظم صاحب رمضان کا آخری عشرہ سعودی عرب میں صرف کرنے ایک بار پھر وہاں ضرور تشریف لے گئے تھے۔ وہ جب اپنے خاندان کے ہمراہ وہاں عبادات میں مصروف تھے تو جنرل باجوہ صاحب تنہا ترکی تشریف لے گئے۔ وہاں ان کی صدر اردوان سے بھی ایک طویل ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں کیا طے ہوا، اس کے بارے میں ہمیں قطعاََ کوئی علم نہیں۔

ہمارے ازلی دشمن بھارت کا وزیر اعظم دریں اثناءواشنگٹن کا دورہ کر آیا ہے۔ موصوف کو اس دورے کی ”سلامی“ کئی برسوں سے سری نگر چھوڑ کرمظفر آباد آئے یوسف شاہ کو بین الاقوامی دہشت گرد ٹھہراکر دی گئی ہے۔ آپ کو یہ سمجھانے کے لئے کہ یوسف شاہ جنہیں دنیا صلاح الدین کے نام سے جانتی ہے، کتنے ”خوفناک دہشت گرد“ ہیں، میرے پاس بہت کہانیاں ہیں۔ میں انہیں دہرانے کی جرا¿ت سے مگر محروم ہوں۔

مستقل خوف سے منجمد ہوا میرا ذہن البتہ جولائی2000ء کے وہ ایام یاد کرنے کو ضرور مجبور ہوا جب صلاح الدین صاحب کی ”گوریلاتنظیم“ کے ایک اہم کمانڈر مجید ڈار”اچانک“ سری نگر میں نمودار ہوگئے تھے۔ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اس کمانڈر نے قابض افواج کے خلاف ”جنگ بندی“ کا اعلان کیا۔ کشمیر کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے دلّی سرکار سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا۔

کمانڈر ڈار کو ”کشمیرکا یاسر عرفات“ بنانے کا منصوبہ منصور اعجاز نامی ایک پاکستانی نژاد امریکی نے بنایا تھا۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کا تذکرہ ”میموگیٹ“ کے شوروغوغا میں تواتر کے ساتھ رہا۔ ان دنوں یہ صاحب کہاں ہوتے ہیں مجھے ہرگز خبر نہیں۔ سن 2000ء میں اگرچہ ان کی پاکستان اور بھارت میں آنیوں جانیوں سے میں بخوبی واقف ہوں۔ مجھے خود ان دنوں بہت کثرت کے ساتھ طویل قیام کے لئے بھارت جانا ہوتا تھا۔ میں جس اخبار کے لئے کام کرتا تھا اس کے کرتا دھرتا صاحبان کو یقین تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بہت بڑا ”بریک تھرو“ ہونے والا ہے۔ نئی دلّی میں عام کشمیری نوجوانوں سے مگر ملاقاتیں ہوتیں تو کسی بریک تھرو کی گنجائش ہی نظر نہ آتی۔ ان میں سے سیاسی ذہن والے جذباتی بچے بلکہ مجھ سے طنزیہ انداز میں یہ استفسارکرتے کہ پاکستان کو ”منصور اعجاز جیسے“ شخص کو کشمیر کا مسئلہ سلجھانے کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ان کی بدولت یہ دریافت اگرچہ کرلیا کہ مجید ڈار ”کشمیر کا یاسر عرفات“ نہیں بن پائے گا۔ یہ اعتراف کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ بالآخر درست ثابت ہوئے۔ صلاح الدین اور ان کی ”حزب المجاہدین“ کے بارے میں یہ نوجوان کیا محسوس کرتے تھے؟یہ کہانی پھر سہی۔

بہرحال ٹرمپ سے جپھیاںڈالنے کے بعد نریندرمودی اب 4 جولائی کے دن اسرائیل پہنچ رہا ہے۔ وہ بھارت کا-جو کسی زمانے میں خود کو ”غیر جانب دار“ کہلاتے ہوئے عرب قوم پرستوں کا بہت لاڈلا ہوا کرتا تھا-پہلا وزیر اعظم ہوگا جو اسرائیل کا دورہ کرے گا۔ اسرائیل میں اپنے قیام کے لئے مودی نے اسی ہوٹل King David اور وہاں موجود اسی کمرے میں رہنے پر اصرار کیا ہے جہاں ٹرمپ نے دورئہ اسرائیل کے دوران قیام کیا تھا۔ مجھے خبر نہیں کہ ٹرمپ کے اس کمرے سے جانے کے بعد وہاں لگائے بستر کو بدلاگیا ہے یا نہیں۔ نہیں بدلا گیا تو شاید مودی، ٹرمپ کی چھوڑی خوشبو کی پناہ میں ہوگا۔

مودی کے ہمراہ اسی کا ایک خاص الخاص ملازم بھی اسرائیل کے اس ہوٹل میں موجود ہوگا جہاں بھارتی وزیر اعظم نے قیام پذیر ہونا ہے۔ یہ ملازم، مودی کے لئے صرف چائے بناتا ہے۔ اس کی بنائی چائے کو Teapot میں مستقل گرم رکھنے کے لئے بھارت سے ایک ٹی کوزی بھی خصوصاََ منگوائی گئی ہے۔

واشنگٹن میں اپنے قیام کے دوران مودی نے ٹرمپ انتظامیہ سے صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دلوایا ہے۔ میرے پاس ٹھوس اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد مودی اس ملک سے وہ تمام Tactics اور ہتھیار بھی حاصل کرے گا جو مقبوضہ کشمیر کو جنوبی ایشیاءکے ”غزہ“ میں تبدیل کرنے میں مدد گار ہوسکتے ہیں۔ ہمارے پاس مگر ان سب چیزوں کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں۔ نواز شریف کی ”تلاشی“ ہورہی ہے۔ آئیے اس سے لطف اندوز ہوں۔