1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. عمران خان کی رقم کی گئی تاریخ اور پرویز خٹک کا امتحان

عمران خان کی رقم کی گئی تاریخ اور پرویز خٹک کا امتحان

عمران خان صاحب نے خیبرپختونخواہ اسمبلی کے 20 اراکین کے نام طشت ازبام کردئیے ہیں۔ ان لوگوں پر سینٹ کے انتخابات کے دوران اپنے ووٹ بیچنے کا الزام ہے۔ خود کو موصول ہوئے شوکاز نوٹسز کے جواب میں اب وہ جو بھی کہتے رہیں بدنام تو ہوگئے۔ تحریک انصاف نے مگران کے نام دے کر تاریخ بنادی۔ میڈیا میں موجود عمران خان کے شدید ترین ناقدین بھی Naming and Shaming کے اس اقدام کو سراہنے پر مجبور ہوگئے۔

رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لئے کچھ دل جلے افراد نے اگرچہ تحریک انصاف کے چودھری سرور کو بھی یاد کرنا شروع کردیا۔ موصوف اپنی جماعت کی پنجاب اسمبلی میں موجود اراکین کی اجتماعی قوت سے تقریباََ دُگنے نمبر جمع کرکے سینٹ پہنچ گئے تھے۔ سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ عمران خان صاحب اس سینیٹر سے جوپنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے تگڑے امیدار بھی سمجھے جاتے ہیں نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے ان اراکین کے نام معلوم کریں جنہو ں نے نظر بظاہر اپنے ووٹ ”بیچے“۔

چودھری صاحب کے مداحوں کا اگرچہ اصرار ہے کہ برطانوی پارلیمان کے اس سابق رکن نے اپنی مقناطیسی کشش سے نواز کیمپ میں سے باغی اکٹھے کئے۔ ان لوگوں نے اس امیدپر انہیں سینیٹر بنوایا ہوگاکہ چودھری صاحب آئندہ انتخابات میں انہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹ دلواکر پنجاب اسمبلی میں واپس لے آئیں گے۔ ذاتی کشش اور نقدرقوم کے ذریعے پارٹی وفاداری تبدیل کروانے میں فرق ملحوظ رکھنا ہوگا۔ کچھ وفاداریاں فقط سیاسی تقاضوں کی وجہ سے تبدیل ہوتی ہیں۔ جمہوری عمل میں اسے معمول سمجھا جانا چاہیے۔ ووٹ بیچنا قطعاََ مختلف عمل ہے۔ اس کی مذمت ضروری ہے۔

سیاست کو میں بدنصیب مگر اقتدار کا کھیل ہی سمجھتا ہوں۔ اس کھیل میں ”اخلاقی برتری“ تلاش کرنا مجھ خبطی کے لئے ممکن ہی نہیں۔ سیاست کو اس کھیل کے بندھے ٹکے قواعد کے مطابق ہی سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان قواعد کو ذہن میں رکھیں تو یاد آتاہے کہ 2013 کے انتخابات کے ذریعے تحریک انصاف خیبرپختون خواہ میں واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھری تھی۔ صوبائی حکومت بنانے کے لئے اسے دیگر جماعتوں اور چند آزاد امیدواروں سے رجوع کرنا پڑا۔ خود سے وابستہ 20 اراکین کے نام لے کر انہیں شرمندہ کرنے کے بعد اب یہ جماعتKPK اسمبلی میں اکثریتی جماعت نہیں رہی۔ پرویز خٹک کو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر قائم رہنے کے لئے جو نمبردرکار ہیں وہ ہرگز ان کے پاس نہیں رہے۔ اپوزیشن جماعتیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے لانے کا شاید تردد نہ کریں کیونکہ صوبائی اسمبلی کی پانچ سالہ آئینی مدت ختم ہونے میں صرف 6 ہفتے رہ گئے ہیں۔ اپوزیشن پرویز خٹک کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے بغیر بھی لیکن گورنر کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو ایوان میں اپنی اکثریت دکھانے پر مجبور کرے۔

اس متوقع اور ممکنہ Move کو ذہن میں رکھتے ہوئے پرویز خٹک ازخود صوبائی اسمبلی کی تحلیل کی Adviceبھی دے سکتے ہیں۔ انہیں یہ قدم اٹھانے سے پہلے مگر اپنی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف سے عبوری وزیر اعظم کے نام پر اتفاق حاصل کرنے کی خاطر رجوع کرنا ہوگا۔ وہ یہ تردد کئے بغیر ہی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی ایڈوائس دے دیں تو عبوری وزیر اعلیٰ کون چنے گا؟۔ نظر بظاہر الیکشن کمیشن۔ اس ادارے کا دیا نام بھی لیکن متنازعہ ہوسکتا ہے اور حتمی فیصلے کے لئے شاید بالآخر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑے۔

کوئی وزیر اعلیٰ ازخود اپنی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس کرے تو آئینی مدت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس اسمبلی کے آئندہ انتخابات 60 دنوں کے بجائے 90 دنوں میں کروانے کا جواز مل جاتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ نئے انتخابات کے لئے 60 کے بجائے 90 دن مانگنے کے لئے 20 اراکین سے لاتعلقی کا اعلان تو نہیں ہوا؟

اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ پرویز خٹک موجودہ اسمبلی کی تحلیل سے پہلے اس ایوان سے آئندہ سال کا بجٹ پاس کروانے کے قابل نہیں رہے۔ بدھ کے روز ہوئے اعلان سے قبل ہی وہ یہ عندیہ دیناشروع ہوگئے تھے کہ وہ اپنے صوبے کے لئے نئے انتخابات سے قبل پورے سال کا بجٹ تیار کرنے اور اسے پاس کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی خواہش ہوگی کہ صرف اتنا بندوبست ہوجائے کہ نئی صوبائی حکومت کے قیام سے قبل چند ماہ کے مالی معاملات چلانے کے لئے رقوم مختص کردی جائیں۔ یہ رقوم مختص کرنے کے لئے صوبائی اسمبلی کی معاونت ہی سے کوئی انتظام ضروری ہے۔

پرویز خٹک نے اپنے صوبے کے لئے آئندہ سال کا بجٹ نہ بنایا۔ اسے بناکر بھی اسمبلی سے منظور نہ کرواپائے۔ پورے سال کے بجٹ کے بجائے کم از کم آئندہ چار ماہ کے لئے سرکاری محکموں اور کاموں کے لئے رقوم کو باقاعدہ طورپر مختص نہ کر پا ئے تو ان کے صوبے میں فقط مالی ہی نہیں آئینی بحران پیدا ہوجائے گا۔ اس بحران کو حل کئے بغیر نئے انتخابات کروانا ممکن نہیں ہوگا۔

ممکنہ آئینی اور مالی بحران مگر KPK تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ اس کی وجہ سے کم از کم قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے میں بھی دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔ شاید ان دشواریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی عمران خان صاحب کے سیاسی گرو اور راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے تواتر کے ساتھ یہ دعویٰ کرنا شروع کردیا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ا نتخابات جولائی 2018 کے کسی روز نہیںبلکہ نومبر2018 کے کسی دن ہوں گے۔ انتخابات کو بروقت کروانے کے بجائے انہیں چند مہینوں تک ملتوی کروانے کے ٹھوس جواز لہذاخیبرپختونخواہ اسمبلی کے 20 اراکین کو ”تاریخی“ طورپر ”بے نقاب“ کرنے کے ذریعے فراہم کردئیے گئے ہیں۔ بہت سوچ سمجھ کرچلائی ایکMove ہے۔ اس کی وجہ سے وقتی واہ واہ ہوگئی۔ عمران خان صاحب نے ”بکاﺅ“ لوگوں کو بے نقاب کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کردیا۔ اس فیصلے کی بدولت کچھ اور قوتوں نے کیا فائدہ اٹھانے کا سوچ رکھا ہے اس کی جانب نگاہ ڈالنے کا ہمارے پاس وقت نہیں۔