1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. شریف خاندان تقسیم ہو چکا۔ ۔ ۔ ۔ مگر

شریف خاندان تقسیم ہو چکا۔ ۔ ۔ ۔ مگر

تجزیہ نگاروں اور ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ہماری سیاست کی باریکیاں سمجھانے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ عادتاََ صحافیوں سے فاصلہ رکھنے والے Cool نوعیت کے سیاست دان، چودھری نثار علی خان نے میرے دوست سلیم صافی کو ایک طویل انٹرویو دیا۔ یہ انٹرویو دو قسطوں تک پھیل گیا۔ اس کے نشر ہونے کے بعد سے سوالات کا ایک سیلاب اُمڈ آیا ہے۔ تجزیہ نگار اور ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ہماری سیاست کی باریکیاں سمجھانے والوں کی ان سوالات کے جوابات فراہم کرنے کی وجہ سے چاندی ہوگئی ہے۔

چودھری نثار علی خان نے یہ انٹرویو کیوں دیا۔ اس کا بنیادی مقصد کیا تھا۔ ان دو سوالات کے حوالے سے میرے بھی کچھ ”گراں قدر“ خیالات ہیں۔ چکری کے دبنگ راجپوت کی شخصیت کے چند اہم پہلو اور ان کی سیاست سے متعلق کچھ تاریخی واقعات کا مجھے Exclusive مارکہ علم بھی ہے۔ اس انٹرویو میں بتائی چند باتوں سے مجھے اختلاف ہے اور ان کے رد کے لئے میری دانست میں ”مصدقہ“ واقعات بیان کئے جاسکتے ہیں۔ فی الوقت ان سے اجتناب برتتے ہوئے میں لیکن ان سوالات پر توجہ دینا چاہتا ہوں جو اس انٹرویو کے نشر ہونے کے بعد سے ہمارے تجزیہ نگار اور ٹی وی کے ذریعے ملکی سیاست کی باریکیاں سمجھانے والے اٹھارہے ہیں۔

سب سے اہم اور تقریباََ بنیادی سوال یہ اٹھا ہے کہ نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعد نون کے لاحقے کے ساتھ اپنی پہچان بنانے والی پاکستان مسلم لیگ ”متحد“ رہ پائے گی یا نہیں۔ وہ متحد نہ رہی تو اس کی وجہ کیا نواز شریف کا مبینہ طورپر ”اداروں“ سے ٹکرانے والا رویہ ہوگا۔

مریم نواز شریف کی NA-120 کے لئے چلائی انتخابی مہم نظر بظاہر مبینہ رویے کی ترجمان تصور کی جارہی ہے۔ اس رویے سے مگر نواز شریف ہی کے سگے چھوٹے بھائی شہباز شریف صاحب نے واضح لاتعلقی اختیار کررکھی ہے۔ لاہور ہی نہیں پنجاب کے تمام اہم شہروں میں ضمنی انتخابات جیتنے کی حکمت عملی حمزہ شہباز شریف کے حوالے کردی جاتی تھی۔ وہ اس کے استعمال کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے میں اکثر کامیاب بھی رہے۔ اپنے تایا کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد خالی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست کے لئے بیگم کلثوم نواز کو منتخب کروانے والی جو مہم ہے، حمزہ شہباز مگر اس سے قطعاََ لاتعلق ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے NA-120 میں معروف وفادار بھی مریم نواز شریف کے دائیں بائیں نظر نہیں آرہے۔ شہباز شریف اور ان کے بچوں کی اپنی تائی اماں کی انتخابی مہم سے ایسی واضح لاتعلقی کے باوجود ہمارے تجزیہ نگار اور ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ملکی سیاست کی باریکیاں سمجھانے والے جب مسلم لیگ نون کے ”متحد“ رہنے کے امکانات کے بارے میں معصومانہ سوالات اٹھاتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ریت سے سرنکال کر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے کہ شریف خاندان تقسیم ہوچکا ہے۔ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ مذکورہ تقسیم کے بعد وہ مسلم لیگ جس نے 1988ء کے بعد سے نون کے لاحقے کے ساتھ اپنی پہچان بنائی ہے نواز شریف کے قابو میں رہے گی یا اپنی بقاءکے لئے 2008ء سے پنجاب کے خادم اعلیٰ کہلاتے شہباز شریف کی سرپرستی کی محتاج ہوگی۔

میری ناقص رائے میں شاہد خاقان عباسی کو پہلے 45 دنوں اور بعدازاں آئندہ انتخابات تک وزیر اعظم منتخب کروانے کے بعد نواز شریف نے اپنی جماعت کو شہباز شریف سے ”بچا“لیا ہے۔ اس جماعت کو نواز شریف کے پروں تلے سے نکال کر اپنی سرپرستی میں لانے کے لئے جوابی قدم اب شہباز شریف کواٹھانا ہوگا۔ ایسا کرتے ہوئے لیکن وہ اپنے سر ”برادرِیوسف“ کی تہمت بھی نہیں لگوانا چاہتے۔

شہباز شریف کے چودھری نثار علی خان جیسے وفاداردوست اور بہی خواہ اپنے انٹرویوز کے ذریعے درحقیقت نون کے لاحقے کے ساتھ موجود مسلم لیگ میں موجود سرکردہ افراد کو محض یہ بات سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ وہ اپنے تئیں منظم ہوکر نواز شریف کو کسی نہ کسی صورت بہلاپھسلا کر اس بات پر آمادہ کرلیں کہ وہ فی الوقت سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ سیاست سے علیحدگی کے بعد ان کی ساری توجہ تجربہ کار وکلاءکی معاونت سے خود کو احتساب عدالتوں سے ممکنہ طورپر یقینی نظر آنے والی سزاﺅں سے بچانے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ وہ سرجھکا کر اپنے قانونی دفاع پر توجہ دیں تو شاید ”اداروں“ کے دلوں میں بھی ان کے لئے تھوڑا رحم پیدا ہوجائے اور ربّ کریم بھی ان کی بریت کا بندوبست کرنے کی جانب مائل ہوجائے۔

چودھری نثار علی خان یقینی طورپر نواز شریف کی شخصیت سے خوب واقف ہیں۔ 1990 کے بعد سے میری نواز شریف صاحب سے 10 سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ ان کے تیسرے دور اقتدار کے دوران میں نے صرف ایک مرتبہ اسلام آباد کے ایک ہائی سکول میں ہوئی تقریب میں ان سے ہاتھ ملاکر مختصراََ حال احوال پوچھا تھا۔ نواز شریف سے ایسی دوری کے باوجود میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ چودھری نثار علی خان ان دنوں کے نواز شریف کو اچھی طرح سمجھ نہیں پارہے ہیں۔

میری ناقص رائے میں نواز شریف یہ بات شدت سے محسوس کررہے ہیں کہ وہ چاہے ”اداروں“ کے سامنے جتنا بھی سرنگوں ہوجائیں انہیں احتساب عدالتوں کے روبرو گھسیٹ کر عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ انہیں ہرگز یہ امید نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کی حکومت اس ضمن میں انہیں کوئی ریلیف پہنچا پائے گی۔ تیسری بار اس ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد بھی وہ خود کو پانامہ کے حوالے سے بچانہیں پائے۔ وہ اپنی مدد خود نہ کر پائے تو ہائی پروفائل سیاست میں تقریباََ نووارد شاہد خاقان عباسی انہیں کوئی ٹھوس مدد کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟۔ معاملہ ”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا“ والی سطح تک پہنچ گیا ہے اور نواز شریف ”مقتل“ میں جانے پر تلے بیٹھے ہیں۔

چودھری نثار علی خان جیسے زیرک سیاست دان ابھی تک یہ حقیقت جان نہیں پائے ہیں کہ نون کے لاحقے کے ساتھ اپنی پہچان بنانے والی مسلم لیگ کے سرکردہ سیاست دانوں کی اکثریت بھی دل سے یہ چاہتی ہے کہ نواز شریف ”مقتل“ میں جانے والی خواہش پر ڈٹے رہیں۔ یہ سیاست دان نواز شریف کو ”مقتل“ سے بچانے کے لئے کسی زمانے کی پیپلز پارٹی کے جیالوں کی طرح ”اداروں“ کو للکارنے کا تردد نہیں کریں گے۔ نواز شریف کی ذات سے ”محتاط“ وفاداری مگر آئندہ انتخابا ت میں ان کے بہت کام آئے گی۔ خاص طورپر پنجاب کے 90 سے زیادہ حلقوں میں جہاں نون کے لاحقے کے ساتھ اپنی پہچان بنانے والی مسلم لیگ کے روایتی ووٹروں کی اکثریت یہ محسوس کررہی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ انصاف نہیں ”زیادتی“ ہوئی ہے۔

نون کے لاحقے کے ساتھ اپنی پہچان بنانے والی مسلم لیگ سے وابستہ سیاست دانوں کی اکثریت کسی ”نظریاتی“ وجہ سے نہیں ٹھوس مفادات کی بنیاد پر نواز شریف کے لئے اُٹھی ہمدردی کی اس لہر کو آئندہ انتخاب میں اپنی کامیابی کی صورت کیش کروانا چاہے گی۔ نون کے لاحقے کے ساتھ اپنی پہچان بنانے والی مسلم لیگ کا بندوبست لہذا آئندہ انتخابات تک ایسا ہی رہے گا جو ان دنوں نظر آرہا ہے۔ شہباز شریف کو اسی بندوبست سے گزارہ کرنا ہوگا۔