1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. تماشہ بہرحال شروع ہو چکا ہے

تماشہ بہرحال شروع ہو چکا ہے

پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک وزیر اعظم کو تارا مسیح کے ہاتھوں پھانسی لگواکر تاریخ میں اپنا مقام بنایا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کئی برس بعد منتخب ہوئے ایک اور وزیر اعظم کو پھانسی تو نہیں ملی مگر یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی سزا سناکر قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل ٹھہرادیا گیا تھا۔ اب ایک اور وزیر اعظم عدالتی کٹہرے میں اپنی اوراپنے بچوں کی دولت اور اثاثوں کا حساب دے رہا ہے۔ اسے یہ ثابت کرنا ہے کہ 80ء کی دہائی سے مختلف حکومتی عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے کمیشن اور کک بیکس کے ذریعے مبینہ طورپر جو روپیہ اکٹھا ہوا، اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے لندن بھجواکر اس شہر کے مہنگے ترین رہائشی علاقے میں چند فلیٹ نہیں خریدے گئے تھے۔

قانون وانصا ف کی بالادستی کے جو شاندار مظاہرے پاکستان کی سپریم کورٹ ہمارے روبرو لاتی ہے اس کا اصل سبب آئین نام کی ایک دستاویز ہے۔ 1973ء میں متفقہ طورپر پاس ہوئی یہ دستاویز ہماری اعلیٰ ترین عدالت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ آئینی طورپر اس ملک کا ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کہلاتے وزیر اعظم کو قانونی طورپر لگائے الزامات کی جواب دہی کے لئے مجبور کرے۔

اس آئین کو لیکن 1977ء میں جنرل ضیاء نے 8 سال تک معطل رکھا۔ سپریم کورٹ نے آئین کی اس معطلی کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا۔ آئین کی معطلی کے دوران اس دستاویز کو ’’زمینی حقائق‘‘ کے مطابق ڈھالنے کے لئے فوجی آمر کو وردی سمیت صدر کا عہدہ سنبھال کر ریاستِ پاکستان کے بار ے میں بنیادی فیصلے کرنے کا حتمی اختیار بھی سونپ دیا گیا۔

سیاست دانوں نے صدر کے ہتھیائے ان اختیارات کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بالآخر 1997ء میں نواز شریف نے دوسری بار اس ملک کا ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ان اختیارات کو پارلیمان کے ذریعے ختم کرڈالا۔ پارلیمانی بالادستی کی یہ چال بھی لیکن موصوف کے کام نہ آئی۔ صرف دو ہی سال بعد 12 اکتوبر 1999ء کی رات جنرل مشرف اس ملک کے ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ بن گئے۔ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر موصوف کے اس غیر آئینی اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا۔ آئین کی دوبارہ معطلی نے ’’زمینی حقائق‘‘ کی یاد بھی دلادی۔ مشرف صاحب وردی سمیت پاکستان کے حتمی طورپر بااختیار صدر بھی ’’منتخب‘‘ ہوگئے۔

2008ء کے انتخابات کے بعد سیاست دانوں نے دوبرس سے زیادہ وقت صرف کرکے آئین کو اس کی ’’اصلی حالت‘‘ میں بحال کیا۔ ’’اصل آئین‘‘میں لیکن ایک آرٹیکل (6) بھی ہوتی ہے۔ یہ آرٹیکل پارلیمان سے بالاآئین میں ہوئی کسی تبدیلی یا آئین کی معطلی کو ’’غداری‘‘ قرار دیتی ہے۔

آئین جب اپنی ’’اصلی‘‘ حالت میں بحال ہوگیا تو نواز شریف سے ملاقات کے لئے اس وقت کے صدر زرداری رائے ونڈ پہنچ گئے۔ اس ملاقات کے دوران نواز شریف بہت خفگی سے اس بات کا گلہ کرتے رہے کہ 2008ء کے انتخابات کے بعد بحال ہوئی’’اصل جمہوریت‘‘ نے مشرف کو گارڈ آف آنرز دے کر ملک سے باہر بھجوادیا ہے۔ موصوف کے خلاف آئین کی آرٹیکل (6) کے تحت کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

آصف علی زرداری اس ملاقات کے لئے اپنے سرپرسندھی ٹوپی پہن کر گئے تھے۔ نواز شریف اپنی خفگی کے اظہارپر ڈٹے رہے تو اپنی ٹوپی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زرداری نے بالآخر پنجابی میں کہا کہ جمہوریت کی خاطر لڑتے ہوئے سندھیوں نے کافی لاشیں اٹھالی ہیں۔ ربّ کریم جب نواز شریف کو عوامی مقبولیت کے زور پر پاکستان کا وزیر اعظم بنائے گا تو جنرل مشرف کا احتساب بھی وہ ہی کریں۔

پھر 2013ء آگیا۔ نوازشریف اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ اپنی کابینہ وغیرہ بنالینے کے بعد انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف ’’غداری‘‘ کا مقدمہ بنوادیا۔ ایسا کرنے کو انہیں افتخار چودھری کے سپریم کورٹ نے بھی کئی حوالوں سے مجبور کیا تھا۔ وہ مقدمہ مگر اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ پایا۔ عدالت کے روبروپیش ہونے کے بجائے جنرل مشرف بیمار ہوکر آرمی ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ وہاں کئی ہفتے گزارنے کے بعد بھی ان کی کمر کا درد دور نہ ہوپایا۔علاج کے لئے غیر ملک جانا ضروری ٹھہرا۔

مجھے ہرگز خبر نہیں کہ پرویز مشرف صاحب کی کمر اب کس حالت میں ہے۔ شاید کڑی کمان کے تیر کی طرح سیدھی ہوگئی ہوگی کیونکہ ان دنوں وہ دوبئی میں ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر رش لے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کئی سالوں سے لندن مقیم ہوئے ’’بانی‘‘ کی 22 اگست 2016ء والی تقریر نے اس جماعت کے پاکستان میں مقیم لوگوں کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ وہ اپنی جان بچانے اور حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے عافیت کی تلاش میں ہیں۔ باور کیا جارہا ہے کہ پرویز مشرف جو میرٹھ کے مشرف الدین اور لکھنئو کی زین مشرف کے صاحبزادے ہیں، اگر اس جماعت کے سیاسی طورپر یتیم ہوئے لوگوں کو اپنی پناہ میں لے لیں تو ایم کیو ایم نہ صرف بچ جائے گی بلکہ اس کے تمام دھڑے یکجا ہوکر ایک بار پھر شہری سندھ میں ایک طاقت ور جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے۔اُردو زبان بولنے والے مہاجرین کا احساس بیگانگی دور ہوجائے گا۔ وہ مین سٹریم پاکستانی بن جائیں گے۔

جنرل مشرف کی پناہ میں آکر ایم کیو ایم کی بحالی اور احیاء کے امکانات یقینی طورپر موجود ہیں۔ مجھے البتہ یہ بات ہضم نہیں ہوپارہی کہ جنرل مشر ف جو پاکستان آرمی کے سربراہ رہے اور اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 9 سال تک پاکستان کے کلی طورپر بااختیار صدر بھی رہے۔ صرف کراچی کا ’’میئر‘‘ بننے کے لئے ایم کیو ایم کو اپنی پناہ میں لیں گے۔

جنرل مشرف کی ’’گج وج‘‘ کے ساتھ ’’بحالی‘‘ کے لئے ضروری ہے کہ ان کی سرپرستی میں ایم کیو ایم کے تمام دھڑے یک جا ہوجانے کے بعد کسی نہ کسی طرح ’’آل پاکستان متحدہ مسلم لیگ’’نامی کسی تنظیم کے قیام کی طرف بڑھیں۔ ایم کیو ایم کو بحال ہونے کے بعد پیرپگاڑا کی مسلم لیگ کے ساتھ ضم ہونا پڑے گا۔ یہ انضمام ہوجائے تو گجرات کے چودھریوں کو بھی یاددلانا ہوگا کہ آرمی جوائن کرنے سے پہلے پرویز مشرف لاہور کے ایف سی کالج میں چودھری شجاعت کے طارق عزیز کی وساطت سے بڑے قریبی دوست تھے۔ پرانی دوستیاں یاد کرتے ہوئے ’’ق‘‘ کو بھی ’’آل پاکستان متحدہ مسلم لیگ‘‘ میں ضم ہونا پڑے گا۔ جنرل پرویز مشرف اس نئی جماعت کے ’’رہبر‘‘ ہوسکتے ہیں۔ پیرپگاڑا اس کے صدر اور چودھری پرویز الٰہی جنرل سیکرٹری۔ یہ سب ہوجائے تو تجربہ کار Electables کی ایک جماعت راتوں رات کھڑی ہوجائے گی۔ یہ کھڑی ہوجائے تو نواز شریف کی ممکنہ نااہلی کے بعد ’’نون‘‘ سے بھی کئی محبِ وطن Electables اس جماعت میں شامل ہونے کو بے چین ہوجائیں گے۔ قبل از وقت انتخابات میں ’’وطن سے محبت‘‘ کرنے والے نیکوکار لوگوں کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مل جائے گا۔

عمران خان سے بغیر کوئی لفافہ لئے میں یہ بات ان کے گوش گزار کرنے پر مجبور ہوں کہ مجوزہ پلیٹ فارم کی ضرورت اس لئے محسوس ہورہی ہے کیونکہ وہ اپنی پش اپس کے ذریعے وہ سب کچھ Deliver نہیں کر پائے ہیں جس کی توقع ان سے کی جارہی تھی۔ CPEC کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں جانے اور ترکی کے صدر کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بائیکاٹ کے فیصلے نے ’’حساس‘‘ حب الوطنوں کو پریشان کردیا ہے۔نئی گیم لگانا ضروری ہوگیا۔

مجھے خدشہ بس اتنا ہے کہ یہ نئی گیم بھی کہیں ویسی ہی Non Starter ثابت نہ ہو جو غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کی نیشنل پیپلز پارٹی یا سابق صدر سردار فاروق خان لغاری کی ملت پارٹی کی صورت میں ہمیں دیکھنے کو ملی تھی۔ تماشہ بہرحال شروع ہوچکا ہے۔ شاعرمشرق نے کیا خوب کہا تھا:ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔