1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. تین ماہ کی بندش

تین ماہ کی بندش

امریکہ میں تحقیق کے حوالے سے بہت جید اور نامور شمار ہوتا ایک ادارہ ہے جو Massachusetts Institute of Technology۔ MITکے نام سے مشہور ہے۔

کئی مہینوں کی تحقیق کے بعد اس نے حال ہی میں دریافت یہ کیا ہے کہ خلقِ خدا سچ کی طلب گار نہیں۔ اسے لوگوں کے بارے میں منفی باتیں جاننے کی لت ہے۔ کسی کے بارے میں بُری باتیں پھیلائی جائیں تو ان باتوں کو بہت پذیرائی ملتی ہے۔ جبلی طورپر انسانوں میں بدی ڈھونڈنے کی علت لوگوں کو پل بھر کے لئے یہ سوچنے پر آمادہ ہی نہیں کرتی کہ کسی کے بارے میں پھیلائی بُری خبر حقائق پر مبنی ہے یا نہیں۔

اپنی اس دریافت کے لئے MIT والوں نے بھرپور توجہ انٹرنیٹ کے ٹویٹر App پر دی۔ ایسا کرتے ہوئے معلوم یہ کرنے کی کوشش کی کہ لوگ کونسے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے اس کے ذریعے کہی بات کو مزید لوگوں تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ وہ ٹویٹ جن کے ذریعے کسی شخص نے صرف اور صرف سچ بیان کیا تھا شاذ ہی ری ٹویٹ ہوا۔ ”بُری بات“ کو لیکن ٹویٹر کے عادی ایک عمومی صارف نے اوسطاََ 1500 لوگوں تک پہنچانے میں مدد دی۔

انسانوں میں دوسروں کے بارے میں برائیاں جاننے اور غیبت وتہمت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنانے کی علت نے ان محققین کو پریشان کردیا ہے جو ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد سے محض Facebook یا ٹویٹر وغیرہ کو Fake News پھیلانے کا ذمہ دارٹھہرارہے تھے۔

MIT کی نئی تحقیق دراصل ان کمپنیوں کو ایک حوالے سے بے خطا ٹھہراتی ہے۔ امریکہ ایک Profit Driven معاشرہ شمار ہوتا ہے۔ طلب اور رسد کے بنیادی حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی شخص یا کمپنی وہاںکوئی Product ایجاد کرکے راتوں رات ارب پتی بن جائے تو اس کی مذمت نہیں ہوتی۔ کھلے دل سے مذکورہ شخص کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف ہوتا ہے کہ اس نے لوگو ں کے دلوں میں موجود خواہش کو جان کر کوئی شے متعارف کروائی۔ اسے مناسب انداز میں مارکیٹ کیا اور اپنی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر کماحقہ منافع کمایا۔ لوگ اگر دوسروں کے بارے میں بُری باتیں ہی سننا چاہتے ہیں تو فیس بک یا ٹویٹر کوموردِ الزام کیوں ٹھہرایا جائے۔ اخلاقی اور غیر اخلاقی کی تفریق مارکیٹ کے لئے غیر متعلق ہوا کرتی ہے۔

عجب اتفاق ہے کہ جس دن MIT کی تازہ تحقیق کے بارے میں یہ مضمون نیویارک ٹائمز میں چھپا اس روز ہمارے ایک مشہور ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے قصور کی زینب کے قتل کے حوالے سے ایک ”سنسنی خیز اور بے بنیاد خبر“ پھیلانے کے جرم میں 3 ماہ تک ٹی وی شو کرنے پر پابندی لگادی۔

ڈاکٹر صاحب میرے دوست نہیں بہت قریبی شناسا ہیں۔ جب بھی ملیں بہت عزت، احترام اور محبت سے گلے لگاتے ہیں۔ ایک بار کسی کھانے پر فرطِ جذبات میں انہوں نے میرے ساتھ کھڑے ہوکر اپنے موبائل فون سے ایک تصویر کھچوائی۔ اس تصویر کو انہوں نے اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر ڈالا تو ان کے مداحین مگر چراغ پا ہوگئے۔ ان کے سینکڑوں چاہنے والوں نے ہزاروں کی تعداد میں پیغامات لکھے۔ انہیں دُکھ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب جیسا نیک نام اور حق گو شخص مجھ ایسے لفافہ صحافی جس کی ”بداخلاقیاں“ تصویروں سمیت فیس بک وغیرہ پر کافی مشہور ہیں مسکرائے ہوئے میرے ساتھ کیوں کھڑا ہے۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے مداحین کی جانب سے آئے پیغامات کی وجہ سے میں ہرگز مشتعل نہیں ہوا۔ انتہائی خلوص کے ساتھ بلکہ ندامت محسوس کی کہ ہمارے ڈاکٹر صاحب کو محض میرے ساتھ کھڑا ہوکر مسکرانے کے جرم میں سخت سست باتیں سننے کو ملیں۔ مزید شرمندہ میں اس وقت ہوا جب ڈاکٹر صاحب نے ٹویٹر پر ہی میرے نصیب میں ان کے مداحوں کی وجہ سے آئی ذلت پر Sorryکہا۔

ہمارے سوشل میڈیا پر چھائے دین داروں کا دل لیکن ڈاکٹر صاحب جیسا رکیک نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں ان کے ساتھ جو ہوا اسے کئی افراد اب ”مناسب سزا“ تسلیم نہیں کررہے ہیں۔ مجھ ایسے بے ہنر اور بے اثر صحافیوں کو بھی طعنے دے رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی خواہش یہ ہے کہ ہم سب مل کر کوئی ایسی فضاءتیار کریں جو ڈاکٹر صاحب کو سکرینوں سے ہمیشہ کے لئے غائب کردے۔

ڈاکٹر صاحب کے خلاف غیض وغضب کا طوفان مچائے لوگوں کو یاد ہی نہیں رہا کہ وہ ہماری ٹی وی سکرین کے Top Ranking اینکروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جس سکرین پر بھی نمودار ہوں وہاں رونق لگادیتے ہیں۔ Ratings کے بادشاہ ہیں۔ ان کی Top Ranking یہ ثابت کرتی ہے کہ اپنے شو میں وہ ہمیشہ وہ باتیں بھرپور انداز میں کہہ ڈالتے ہیں جو ہمارے ناظرین کی اکثریت سننے کو بے چین ہے۔ ٹیلی وژن بنیادی طورپر Ratings کا کھیل ہے۔ کسی شخص کی مقبولیت کا پیمانہ Eye Balls ہوا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کھیل میں اپنے کئی ہم عصروں کو مسلسل پچھاڑا ہے۔

مجھے کامل یقین ہے کہ تین ماہ کی بندش کے بعد وہ جب ٹی وی سکرین پر دوبارہ نمودار ہوں گے تو ان کے مداحین بھرپور انداز میں ان کا سواگت کریں گے۔ MIT کی جانب سے ہوئی حالیہ تحقیق کے بعد مجھے اس ضمن میں اب ہرگز کوئی شبہ نہیں رہا۔ اپنے ان دوستوں سے جو ٹویٹر وغیرہ کے ذریعے مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں لہذا میری مودبانہ درخواست ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کی مذمت ورسوائی کے کھیل میں مجھے نہ گھسیٹا جائے۔ میرے اس رویے کو ذہن میں رکھتے ہوئے امید یہ بھی ہے کہ ا ٓئندہ کسی جگہ میری ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوگئی اور انہوں نے مسکراتے ہوئے میرے ساتھ کھڑے ہوکر سیلفی لے ڈالی، اسے اپنے فیس بک یا ٹویٹر اکاﺅنٹ پر چڑھادیا تو ان کے لاکھوں مداحین مجھے کھلے دل سے معاف کردیں گے۔