1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. توں کمزور تھا تو لڑی کیوں تھا

توں کمزور تھا تو لڑی کیوں تھا

منگل کی شب سونے سے قبل میرا خیال تھا کہ صبح اُٹھ کر امریکی صدر ٹرمپ کی اس تقریر کے بارے میں لکھا جائے گا جسے وہ State of the Union Address (SOTUA)کہتے ہیں۔ امریکی پارلیمان سے ایسا خطاب ہمارے صدر کی اس تقریر کی طرح ہوتا ہے جو وہ ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر قومی اسمبلی اورسینٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران کرتا ہے ہمارے صدر کے ایسے خطاب کی مگر زیادہ اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ پارلیمانی جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق وہ اپنی تقریرمیں وزیراعظم کے تحت چلائی حکومت کی کارکردگی اور اہداف بیان کرنے تک محدود رہتا ہے۔ ہمارے برعکس امریکہ میں صدارتی نظام ہے اس کا (SOTUA) واشنگٹن انتظامیہ پر حاوی سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔ عموماًََ ایسے خطاب میں زیادہ توجہ امریکہ کی اندرونی سیاست، خاص کر معیشت پر مرکوز ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی کا ذکر سرسری ہوتا ہے یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی مجھے خدشہ تھا کہ شاید افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران دہشت گردی کے چند پے در پے واقعات ہونے کے بعد ٹرمپ اس ملک کے حالات پر کوئی تفصیلی بات کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس حوالے سے ہمارا ذکر بھی ضروری تھا۔ صبح اُٹھتے ہی لہذا اپنا کالم شروع کرنے کے بجائے میں نے کمپیوٹر کھول کر اس کی تقریر ڈھونڈنا شروع کردی۔ میرے خدشات درست ثابت نہ ہوئے۔ ذرا اطمینان ہوگیا۔ اگرچہ میرا ذہن اب بھی ان کلمات کو نہیں بھول پایا جو پیر کے روز ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے ادا کئے تھے۔

ہوا یوں تھا کہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب، نکی ہیلے، کی کاؤشوں سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ممالک کا ایک نمائندہ وفد واشنگٹن آیا۔ اس وفد کو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کچھ ایسی ہی معلومات فراہم کی گئیں جو صدر بش کے زمانے میں صدام حسین کی جانب سے نام نہاد Weapons of Mass Destructionکے بارے میں جمع کی گئی تھیں۔ بریفنگ ہوگئی تو وفد کے لئے جس ظہرانے کا اہتمام ہوا وہاں صدر ٹرمپ کی شرکت بھی یقینی بنائی گئی۔

اپنی آمد کے بعد امریکی صدر کا میڈیا کے لئے بھی کوئی بات کرنا ضروری تھا اور اس نے توجہ کابل کے حالیہ واقعات پر دی۔ طالبان نے ان واقعات کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔ ان کے ایسے بیان کے بعد ٹرمپ کے لئے آسان ہوگیا کہ وہ اعلان کردے کہ طالبان سے امن کے قیام کے لئے مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔ طالبان کے ساتھ امریکہ فقط جنگ ہی لڑے گا۔ جنگ کا ذکر کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہ تڑی بھی لگائی کہ طالبان کے ساتھ نبردآزما ہونے کے لئے وہ ایسے اقدامات اٹھانے کو بھی تیار ہے ’’جو اس سے قبل کسی نے نہیں اٹھائے تھے‘‘۔

آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ وہ طالبان کے خلاف بش اور اوبامہ حکومتوں کے دوران اٹھائے فوجی اقدامات سے کہیں زیادہ سنگین جنگ مسلط کرنے کا ارادہ بنائے ہوئے ہیں۔ ایک توجیہہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بش انتظامیہ پاکستان سے Do More کا تقاضہ کرنا شروع ہوگئی تھی۔ اوبامہ اسے حاصل کرنے میں ناکام رہا تو پاکستان میں ڈرون حملے تواتر کیسا تھ ہونے لگے۔ اسامہ بن لادن کو جارحانہ حملے کے ذریعے ایبٹ آباد میں نشانہ بنایا گیا۔

گزشتہ سال کے اگست سے ٹرمپ مسلسل ’’پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں‘‘ کا ذکر کئے چلے جارہا ہے۔ ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ مبینہ ’’پناہ گاہوں‘‘ کے قلع قمع کے لئے وہ پاکستان کے خلاف بش اور اوبامہ حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جارحانہ اقدامات اٹھانے کی دھمکی دے رہا ہے۔

شاید اسی دھمکی کو ذہن میں رکھتے ہوئے منگل کی شام پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان میں باقاعدہ یہ اطلاع دی گئی کہ گزشتہ سال نومبر میں 27 ایسے افراد کو حکومت پاکستان نے گرفتار کرکے افغان حکومت کے حوالے کردیا تھا جن پر طالبان یا حقانی نیٹ ورک کے لئے کام کرنے کا الزام تھا۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی جانب سے آئی اطلاع نے مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔ نومبر2017 کے دوران اسلام آباد میں مسلسل یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کو ’’اطمینان‘‘ دلانے کے لئے حکومتِ پاکستان خاموشی سے کچھ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ شاید ان اقدامات ہی کی وجہ سے ایک سینئر امریکی اہلکار، ایلس ویلس، حال ہی میں اسلام آباد آئی تو اس نے ہمارے صحافیوں کے وفد کے ساتھ ’’اچھی اچھی‘‘ باتیں کی۔ پاکستان کی سلامتی کے بارے میں ایک فکر مند شہری ہوتے ہوئے میں یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ 27 مشتبہ افراد کی افغان حکومت کو حوالگی کی بات اس سے قبل منظرِ عام پر کیوں نہیں لائی گئی۔ ہمیں تو مسلسل یہ بتایا جارہا تھاکہ پاک سرزمین پر افغانستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا کوئی شخص یا گروہ موجود ہی نہیں ہے۔ امریکہ نے ہمارے بارے میں جو زبان استعمال کرنا شروع کردی ہے اس کے ہوتے ہوئے اب ہماری طرف سے Do More کا جواب No More ہوگا۔ پاکستانی وزیر دفاع نے یہ بیان بھی دیا کہ امریکہ کے ساتھ سکیورٹی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ روک دئیے گئے ہیں۔ ان کے بیان نے مجھ ایسے سادہ لوح خوش فہم کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کیا کہ آئندہ امریکہ نے ہماری سرحد میں گھس کر کوئی ڈرون حملہ کیا تو ہم پاکستان کے راستے افغانستان میں متعین امریکی افواج کو جانے والی رسد بھی روک سکتے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے پیر کے روز آنے والے دھمکی آمیز کلمات کے بعد ہماری جانب سے 27 افراد کی گرفتاری اور افغانستان کو حوالگی کا اعتراف میری دانست میں ایک بچگانہ عمل ہے۔ یہ اعتراف مجھ ایسے پاکستانیوں کو یہ بات سوچنے پر مجبور کردے گا کہ ہماری ریاست امریکی دبائو کے تناظر میں ہمیں مطمئن رکھنے کو محض بڑھک بازی کرتی ہے مگر ’’اندر خانے‘‘ ٹرمپ جیسے منہ پھٹ اور زور آور کی تسلی کے لئے کچھ اور اقدام اٹھاتی ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ’’اعترافی بیان‘‘ کے بعد میرے ذہن میں اس کے سواکچھ اور سوچنے کی گنجائش ہی نہیں۔ غصہ میں تلملایا میں صرف یہ کہتے ہوئے خود کو مزید واہی تباہی بکنے سے بچانا چاہتا ہوں کہ:توں کمزور تھا تو لڑی کیوں تھا؟