1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. ریٔس احمد کمار/
  4. آزاد

آزاد

عبید بھائی! آپ کو ہوا کیا ہے جو آپ نیا مکان اور ایک الگ گھر بسانے جارہے ہو۔ ابھی آپ کی تین بہنیں بن بیاہی ہیں اور ایک چھوٹا بھائی بھی جو ابھی کالج میں زیر تعلیم ہے۔ نوکری ملنے سے پہلے کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ میں تب تلک نیا مکان نہ الگ گھر بساؤں گا جب تک نہ بہنوں اور بھائیوں کی شادی ہو جائے۔

مزید آپ یہ بھی ہمیشہ دہرا رہے تھے کہ میں اپنے والدین کو جنہوں نے مجھے اچھی تعلیم سے آراستہ کیا اور بڑا کیا کبھی اکیلے خدا کے رحم و کرم پہ نہیں چھوڑوں گا۔ مگر میں یہ دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا کہ آپ ایک نیا مکان بنانے جارہے ہو اور ساتھ میں ایک الگ گھر بھی بسانے جارہے ہو۔۔

گلزار جو عبید کو بچپن کے زمانے کا دوست تھا اسے طویل گفتگو میں مشغول ہے۔۔

عبید۔۔ گلزار بھائی آپ کا فرمانا صحیح ہے لیکن میں آپ سے کیا کہوں۔ واقعی میں اپنے والدین سے الگ نکلنا نہیں چاہتا تھا اور اپنے بہن بھائیوں کی شادی سے پہلے ہی نیا مکان تعمیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میری نیت خالص اور صاف تھی، میں اپنے بہن بھائیوں کی شادی خود کرانا چاہتا تھا اور والدین کی بھی خدمت عمر بھر کرنا چاہتا تھا مگر شادی کے بعد میرے والدین اور بہن بھائیوں نے نہ میرے ساتھ اچھا برتاؤ کیا نہ ہی میری بیوی کو کبھی سکھ اور چین سے جینے دیا۔

لڑائی جھگڑا تو وہاں معمول کی بات تھی مگر عزت و وقار سے بھی ہم لوگ محروم تھے۔ ہمارے پاس نہ کوئی رشتہ دار خیریت پوچھنے آسکتا تھا اور نہ ہی کوئی دوست کیونکہ ان کی بھی بے عزتی ہو رہی تھی۔ میں اپنے ہی گھر میں گویا قید کیا ہوا جانور تھا جو کھاتا اور پیتا تو تھا لیکن آزاد نہیں تھا۔

میں کسی بھی دوست کو گھر آنے نہیں دیتا تھا کیونکہ گھروالوں میں سے کوئی بھی شخص ماسوائے میری بیوی ان سے بات تک نہیں کرتے تھے۔ ان کو ان کا میرے پاس آنا ناگوار ہی نہیں گزرتا تھا بلکہ اوٹ پٹانگ بھی بول دیتے تھے۔ جب بھی میری بیوی میکے چلی جاتی تھی تو وہ واپس آنے پر بھائی یا بہن کو ساتھ نہیں لاتی تھی کیونکہ ان کو یہ بھی ناگوار ہی گزرتا تھا۔ چھوٹے بہن بھائیوں کو نصیحت کرنا تو دور کی بات تھی بلکہ میں دیکھ کر اندھا اور سن کر بہرا جیسا تھا۔ میری وہاں ایک بھی نہیں چلتی تھی اور میری بیوی سے گویا ان کو صدیوں کی دشمنی تھی۔

ان حالات میں میرے پاس دو ہی آپشن تھے، بیوی کو طلاق دے کر والدین اور بہن بھائیوں کو خوش رکھنا یا بیوی کے ساتھ ایک الگ گھر بسانا جس میں سکون اور اطمینان ہو۔ میں نے جب دل و دماغ سے سوچا تو گویا غیب سے اک آواز آئی۔۔ تمہاری بیوی ایک بے قصور اور بے گناہ کسی کمزور باپ کی لخت جگر ہے جو سب کچھ چھوڑ کر تمہارے ایمان کا آدھا حصہ بن کر آپ کی شریک حیات بنی ہے۔ تم اسے خوامخواہ کیسے سزا دو گے جب وہ سزا کی مستحق ہے ہی نہیں۔

آخر ہمیں روز قیامت کے دن اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ اس لیے اس دھرتی پہ رہ کر کسی کو ظلم و ستم سہنے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے نہ کسی کے ساتھ ناانصافی کے ساتھ پیش آنا چاہئیے۔۔ میں خوامخواہ برسوں اس سوچ کی زنجیروں میں مقید رہا کہ الگ رہ کر دوست احباب، رشتے دار اور ہمسایہ لوگ کیا کہیں گے مگر اصل میں، میں خود کی ذات سے ہی سے ظلم کررہا تھا اور آخر مجھے سمجھ آہی گیا کہ جب ان لوگوں کو میری ضرورت ہے ہی نہیں تو میں خود کو اپنے اہل و عیال سمیت کیوں نہ آزاد کرالوں۔۔

اس لیے میں نے بیوی بچوں سمیت ایک الگ گھر بسانا ہی مناسب سمجھا۔۔