ہر سال 23 اپریل کو دنیا بھر میں عالمی یومِ کتاب یونیسکو (UNESCO) کے زیرِ اہتمام منایا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد نہ صرف کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے بلکہ کتب بینی کی عادت کو فروغ دینا، اشاعتِ کتب کے مسائل اور مصنفین کے حقوق یعنی کاپی رائٹس سے متعلق عوامی شعور بیدار کرنا بھی اس دن کے مقاصد میں شامل ہیں۔
کتابوں کے عالمی دن کی بنیاد دراصل ایک مقامی روایت سے پڑی۔ سنہ 1616ء میں اسپین کے علاقے کیٹولینیا میں 23 اپریل کو مرد حضرات اپنی محبوب خواتین کو گلاب کے پھول پیش کرتے تھے۔ اس رسم کا ایک ادبی پہلو یہ تھا کہ اس دوران شیکسپئر، سروانتس اور دیگر مصنفین کی کتابوں کے اقتباسات پڑھے جاتے۔ اس روایت نے ایک خوشگوار اور ادبی تہذیب کی صورت اختیار کی، جو وقت کے ساتھ پورے اسپین میں پھیل گئی۔
یہ محض اتفاق نہیں تھا بلکہ ایک علامتی بصیرت کی نشاندہی بھی تھی کہ ولیم شیکسپئر اور مگوئل دی سروانتس دونوں 23 اپریل 1616 کو انتقال کر گئے۔ یونیسکو نے اس ادبی، تاریخی اور علامتی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے 1995ء میں اپنے اجلاس میں اس دن کو "ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹ ڈے" قرار دیا۔ آج یہ دن دنیا کے تقریباً 100 سے زائد ممالک میں منایا جاتا ہے۔
کتاب آج بھی علم، تہذیب، تفکر اور تمدن کی سب سے بڑی علامت ہے۔ گو کہ ڈیجیٹل دور نے معلومات کے کئی ذرائع متعارف کرائے ہیں، مگر کتاب کی جو تہہ داریت، معنویت اور بقا ہے، وہ دیگر ذرائع میں مفقود ہے۔ مطالعہ ایک ایسی چیز ہے جو ذہن کو جِلا، کردار کو پختگی اور قوم کو بقا عطا کرتی ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کا یہ شکوہ آج بھی مشہور ہے:
مگر وہ عِلم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دِل ہوتا ہے سیپارا
اس دن کو "کاپی رائٹس ڈے" بھی کہا جاتا ہے تاکہ مصنفین کی تخلیقی ملکیت کو تسلیم کیا جائے اور کتاب کی اشاعت و تقسیم کے عمل کو منصفانہ اور قانونی دائرے میں رکھا جا سکے۔ تخلیق ایک ذاتی اور فکری محنت کا نتیجہ ہوتی ہے، جس کا احترام ہر معاشرے پر واجب ہے۔
یونیسکو نے سن 2001 سے ایک نئی روایت کا آغاز کیا جس کے تحت ہر سال کسی ایک شہر کو "ورلڈ بک کیپیٹل" کا درجہ دیا جاتا ہے تاکہ وہاں کتاب سے متعلق سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ میڈرڈ (2001)، نئی دہلی، اسکندریہ، بیروت، ایمسٹرڈیم اور مونٹریال جیسے شہروں کو اس اعزاز پہلے ہی سے نوازا جا چکا ہے۔
برطانیہ اور امریکہ میں یہ دن مارچ کی پہلی جمعرات کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد خاص طور پر اسکول کے بچوں میں کتاب خریدنے اور پڑھنے کی عادت کو فروغ دینا ہے۔ اس موقع پر طلبہ کو خصوصی کتب واؤچرز دیے جاتے ہیں جن سے وہ رعایتی قیمت پر کتابیں خرید سکتے ہیں۔
جنوبی ایشیا، خصوصاً پاکستان میں اگرچہ کتب بینی کی شرح کچھ بہتر ہے، تاہم یہ انگریزی اور اردو زبان تک محدود ہے۔ دیگر زبانوں پشتو، سندھی، سرائیکی، بلوچی، کھوار اور بالخصوص پنجابی زبان میں کتاب کا حال زیادہ خوش آئند نہیں۔ موجودہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوان نسل کتاب سے دور ہوگئی ہے۔ یہ وہ لمحۂ فکریہ ہے جس پر نہ صرف والدین، اساتذہ بلکہ معاشرے کے تمام فکری حلقوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کتاب صرف کاغذ اور روشنائی کا نام نہیں، بلکہ یہ فکر، تاریخ، تہذیب اور شعور کا وہ خزانہ ہے جس سے قومیں روشنی حاصل کرتی ہیں۔ عالمی یومِ کتاب ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے ماضی سے جُڑیں، حال کو سمجھیں اور مستقبل کے لیے فکری بنیادوں کو مضبوط بنائیں۔ یہ دن ہم سب سے اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم مطالعہ کو اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنائیں۔ مقامی زبانوں میں معیاری کتابوں کی اشاعت کو فروغ دیں۔ نئی نسل کو کتب بینی کی طرف راغب کرنے کے لیے اسکول، کتب خانے اور علمی مجالس کو فعال کریں۔ کیونکہ کتاب زندہ ہے اور نسلوں کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرتی ہے۔