1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سلیم احسن/
  4. ملالہ

ملالہ

ہر شخص کے آئیڈیل اس کے شخصی میلان اور نظریات پر منحصر ہوتے ہیں۔ چنانچہ اگر کسی کی آئیڈیل ملالہ ہے اور اس نے سوشل میڈیا پر اس کا اظہار کر دیا ہے تو کسی ایسے شخص کو جس کا میلان اس طرف نہیں ہے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ نہیں ملالہ آئڈیل نہیں ہو سکتی، اصل آئیڈیل تو فلاں ہے۔ اگر وہ آپ کی آئیڈیل نہیں ہے تو آپ اپنی وال یا پیج پر اپنی آئیڈیل کی تعریفیں کر لیں۔

زندگی میں ہزاروں پہلو ہوتے ہیں اور ہر پہلو کے اپنے آئڈیل ہو سکتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کسی ایسے شخص کو آئڈیل کہا جا رہا ہے جو ہمیں پسند نہیں ہے، تو ہم کسی اور پہلو کے حوالے سے آئڈیل شخص کا نام بیچ میں لے آتے ہیں کہ نہیں، اصل ہیرو تو یہ ہے۔ یہ تو وہ بات ہو گئی کہ ذکر پاکستان کی ہاکی ٹیم کا ہو رہا ہو اور آپ کہیں کہ میرا آئیڈیل کھلاڑی سمیع اللہ ہے اور میں کہوں کہ نہیں بھئ آئیڈیل کھلاڑی تو جان شیر خان (سکواش کا کھلاڑی) ہے۔ بھائی، جان شیر خان کی سکوش کے حوالے سے عظمت میں کوئی کلام نہیں؛ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی اور کھیل میں کوئی اور پاکستانی کھلاڑی عظمت نہیں پا سکتا۔ ایک ہی وقت میں مختلف حوالوں سے مختلف لوگ آئڈیل ہو سکتے ہیں۔ آئڈیلوں کا ایسا قحط الرجال نہیں ہے۔

ملالہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ ملالہ آئڈیل نہیں بلکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، اور بے نظیر بھٹو آئڈیل خواتین تھیں۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان تین کے بعد پاکستان عظمت کے اعتبار سے بانجھ ہو گیا ہے کہ ان کے بعد کوئی خاتون عظیم ہو ہی نہیں سکتی؟ کیا اس سلسلے میں کوئی سرکاری فرمان جاری ہوا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے وقت میں وہ خواتین آئڈیل تھیں، آج بھی ہیں، اور مستقبل میں بھی رہیں گی؛ موجودہ زمانے کی آئڈیل ملالہ ہے اور مستقبل میں رہے گی؛ اور آنے والے وقتوں میں مزید لڑکیاں اور خواتین جیسے جیسے کارنامے انجام دیں گی وہ بھی اپنے زمانے اور مستقبل کے لیے آئڈیل قرار دی جاتی رہیں گی۔ اور نئے لوگوں کے اضافے سے پہلے والے آئیڈیل لوگوں کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ جس طرح 1999 کی کارگل جنگ کے بعد کیپٹن کرنل شیر خان شہید کو نشان حیدر دیے جانے سے 1965 کی جنگ میں نشان حیدر حاصل کرنے والے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

کچھ حضرات نے کہا کہ اس نے کیا کیا ہے جو اسے سر پر چڑھا رکھا ہے، جب کہ دوسروں نے اس سے بڑے کام کیے ہیں۔ اس سلسلے میں میں یہ عرض کروں گا کہ پاک فضائیہ کے بڑے بڑے عظیم سپوت 1965 اور 1971 کی جنگوں میں شہید ہوئے ہیں، مگر نشان حیدر صرف راشد منہاس کو دیا گیا۔ کیا دوسرے پائلٹوں کی بہادری میں کوئی کسر رہ گئی تھی؟ ہرگز نہیں۔ بات یہ تھی کہ وہ تجربہ کار پائلٹ تھے، ان سے بہادری اور فن فضائی جنگ پر عبور کی توقع تھی۔ مگر راشد منہاس زیر تربیت تھے اور ان سے اس قسم کی بہادری کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ اسی لیے انہیں ان کی شجاعت کے عوض نشان حیدر عطا کیا گیا۔

بس یہی بات ملالہ کے ساتھ ہے۔ جن شخصیات کا نام ملالہ کے مخالفین لیتے ہیں وہ معاشرے میں جانی پہچانی ہیں، جنہوں نے اپنے مقام کو منایا ہوا ہے، جبکہ ملالہ ایک سکول کی طالبہ تھی اور اس سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ تحریک قاتلان پاکستان کے خلاف کھڑی ہو جائے گی۔ لاکھ اس کی ڈائری بی بی سی کے نمائندے نے لکھی ہو، پڑھی تو ملالہ نے تھی۔ اس وجہ سے لوگوں کی نظروں میں تو وہ آئی تھی۔ یہ وہ دور تھا کہ بڑے بڑے تیس مار خان ان قاتلان سے ڈرتے تھے۔ ملالہ کو پزیرائی اس وجہ سے ملی۔

کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ اس کے ساتھ دو اور لڑکیوں کو بھی گولی ماری گئی تھی۔ ان کو ملالہ جیسی شہرت کیوں نہیں ملی؟ اس کے علاوہ اور بہت ساری لڑکیوں پر بھی ظلم ہوا ہے۔ ان پر ملالہ جیسی نوازشات کیوں نہیں کی جاتیں؟ بات آپ کی درست ہے۔ آپ ان کے جائز حق کے لیے آواز اٹھائیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ مگر دو باتیں: ہم نے مانا کہ جن کا نام آپ لے رہے ہیں ان پر بہت ظلم ہوا ہے مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ قطع نظر اس کے کہ معلوم تاریخ کی ابتدا سے لے کر آج تک کس خاتون کے ساتھ کیا ظلم ہوا؛ جو کچھ ملالہ کے ساتھ ہوا وہ بھی ظلم تھا یا نہیں؟ یا سیاسی نظریات کی وجہ سے آپ اسے ظلم سمجھتے ہی نہیں؟ اگر ظلم ہوا ہے تو چوں کہ اس وقت ذکر ملالہ کا ہو رہا ہے اس لیے اس وقت آپ ہمیں اس کا ذکر کر لینے دیجیے اور آپ بھی اس کے حق میں بات کر لیں۔ جب ملالہ کے بارے میں بات ختم ہو جائے تو اس کے بعد آپ جس جس مظلوم پر افسوس کروانا چاہیں، ہم حاضر ہیں (بس ان کا دہشت گردی سے تعلق نہ ہو)۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان دوسری مظلوم خواتین کو اس لیے درمیان میں لانا کہ ملالہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کی شدت کو کم کیا جا سکے نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ خود ان خواتین کے ساتھ زیادتی ہے۔

ملالہ کے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ اور بھی تو مظلوم ہیں صرف ملالہ پر ہی فوکس کیوں؟ اس پر میں نے بہت سوچا کہ یہ کیسے اور کیوں ہو سکتا ہے کہ زندگی کے دیگر امور میں معقول اور وسیع القلب ہونے والے حضرات ایک پندرہ سولہ سال کی بچی کے معاملے میں اتنے سنگ دل ہو جاتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انہیں دور دسیوں میں رہنے والے بچوں پر جن کی زبان مختلف ہو، ثقافت ہم سے جدا، جن سے زندگی میں کبھی ملنے کا کوئی امکان نہ ہو، بس دین مشترک ہو؛ ان پر تو بہت رحم آتا ہے مگر اپنی ہم وطن بچی پر ہونے والے ظلم کو ہر طرح سے ڈراما ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سوچنے کے بعد میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ایسی باتیں وہ کرتے ہیں جن کا رجحان پاکستان کی 'مذہبی ' سیاسی جماعتوں کی طرف ہوتا ہے۔ نظریاتی لوگوں کے 'اپنے' اور 'پرائے' کے معیار پہچان کے مروجہ عوامل نہیں، نظریات ہوتے ہیں۔ جو ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتا وہ پرایا ہے، چاہے وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو اور جسے نظریاتی تنظیم اپنا کہے وہ اپنا ہے، چاہے اس 'اپنے' کو پتہ ہی نہ ہو کہ اسے نظریاتی طور پر 'اپنا' قرار دیا جا چکا ہے اور چاہے وہ آپ کو پہچانتا تک نہ ہو! ان لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ جو بھی ان کی مذہبی تنظیم کی سیاسی حکمت عملی اور اقدامات کے خلاف ہے وہ صرف تنظیم کا ہی دشمن نہیں ہے، وہ اسلام کا دشمن اور دشمنان اسلام کا ایجنٹ ہے۔ تو بات یہ سمجھ میں آئی کہ ملالہ پر ظلم کی طرف سے بے حسی اور سنگ دلی پاکستان کی سیاسی 'مذہبی' جماعتوں کے بیانیے کی وجہ سے ہے۔ تو جو لوگ اس بیانیے کو قبول کر چکے ہیں وہ ہر اس شخص یا قوم کے کیے ہوئے ظلم پر احتجاج کرتے ہیں جسے یہ جماعتیں برا سمجھتی ہیں؛ مثال کے طور پر اسرائیلی، امریکی، بھارتی اور برمی؛ مگر وہ ہر اس ظالم کے ظلم کو چھپائیں گے یا اس کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں پسند ہو، جیسے تحریک قاتلان پاکستان۔ ان ظالموں کو بچانے کے لیے وہ ہر قسم کی بھینگی دلیلیں دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا کسی ظلم پر رد عمل یا مظلوم کے ساتھ ہمدردی مظلوم کی حالت زار یا اس کے ساتھ تعلق یا ظلم کی سنگینی نہیں بلکہ خود ان کے ظالم کے ساتھ تعلقات یا ظالم کے متعلق خیالات اور اس کے ساتھ نظریاتی ہم آہنگی کی بنیاد پر منحصر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ لوگ جب کہتے ہیں کہ اور بھی تو مظلوم ہیں صرف ملالہ پر ہی فوکس کیوں؟ تو میں کہتا ہوں بجا فرمایا، مگر میرا سوال یہ ہے کہ صرف ملالہ ہی پر کیوں نہیں؟ آپ کو سب پر ترس آتا ہے کیا وجہ ہے کہ صرف ملالہ پر ہی نہیں آتا؟

میری زندگی بھر کا تجربہ ہے کہ جب کوئی کسی مظلوم کو بدنام کرتا ہے تو اس کا اصل مقصد مظلوم کی بدنامی سے زیادہ ظالم کی حمایت اور اسے بدنامی سے بچانا ہوتا ہے۔

آخر میں کہوں گا کہ لوگ جو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ آخر ملالہ نے کِیا کیا ہے جو اس کی اتنی پزیرائی کی جاتی ہے جب کہ دوسروں نے اس سے کہیں بڑے کام کیے ہیں؛ وہ ذہن میں رکھیں کہ اتنی عزت صرف من جانب اللہ ہی ہو سکتی ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔ اگر نوبل پرائز، اقوام متحدہ اور پوری دنیا میں پزیرائی عزت نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اگر آپ پاکستان کی سیاسی 'مذہبی' جماعتوں کے بیانیے سے متاثر ہو کر ان چیزوں کو مغرب کی سازش بتا کر انہیں عزت نہیں سمجھتے تو پھر اس پر اتنا ناراض کیوں ہوتے ہیں؟ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ اہل مغرب ملالہ کی پزیرائی پر اپنا وقت اور پیسا ضائع کرکے اپنا نقصان کر رہے ہیں! اور کیا آپ اپنے دشمن کا نقصان نہیں چاہتے؟

ویسے 'میں نہ مانوں' کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا!