1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. سلیم صافی/
  4. دو نہیں، ایک پاکستان

دو نہیں، ایک پاکستان

کمال کے آدمی ہیں جنرل پرویزمشرف بھی۔ اقتدار سے باہر ہوکر بھی اتنے طاقتور ہیں کہ اپنے سے چھیڑخانی کی سزا میاں نوازشریف کو دھرنوں اور لاک ڈائونوں کے ذریعے اس شکل میں دے دی کہ زندگی بھریاد رکھیں گے۔ جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ حقیقی معنوں میں آزاد ہونے لگی تھی لیکن جنرل پرویز مشرف نے ملزم ہوکر بھی اس عدلیہ کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ جنرل صاحب کا تازہ ترین کمال دیکھ لیجئے کہ خود الیکشن میں حصہ لیا اور نہ ان کی پارٹی کوئی سیٹ جیت سکی لیکن انہی کی ٹیم حکمران بن گئی۔ شیخ رشید احمد ان کی حکومت میں وزیرریلوے تھے اور اب دوبارہ اسی محکمے کے وزیر بن گئے۔ جہانگیر ترین ان کی حکومت میں وزیر تھے جبکہ اب وزراء، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کا تقرر کرتے ہیں۔ فواد چوہدری، جنرل مشرف کے ترجمان تھے اور اب حکومت کے ترجمان ہیں۔ شفقت محمود ان کی حکومت میں معمولی وزیر تھے اور اب ترقی کرکے وفاقی وزیر بن گئے۔ خسروبختیار ان کی حکومت میں وزیرمملکت تھے اور اب پورے وزیر بن گئے۔ علیم خان ان کی ٹیم کے ادنیٰ ممبر تھے اور اب پورے پنجاب کے مختار بن گئے۔ چوہدری پرویز الٰہی ان کے دست راست تھے اور اب عمران خان نیازی کی ٹیم کے اہم کھلاڑی۔ فروغ نسیم غداری کیس میں ان کے وکیل ہیں اور اب وفاقی وزیر قانون بن گئے۔ جس وزارت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا کیس درج کیا تھا، ان کے وکیل کے پاس اس کا قلمدان آگیا۔ زبیدہ جلال پورے بلوچستان میں وزارت کے لئے جنرل صاحب کا حسن انتخاب بنی تھیں اور اب دوبارہ وفاقی وزیر بن گئیں۔ عمر ایوب ان کے وزیر مملکت تھے اور اب مکمل وفاقی وزیر بن گئے۔ عامر کیانی ان کی ٹیم کے معمولی سے کارندے تھے اور اب مکمل وزیر ہیں۔ اور تواور جو مرزا شہزاد اکبر، جنرل صاحب کی ٹیم میں قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر تھے، اب نئے پاکستان میں پورے احتسابی عمل کے انچارج بن گئے۔ خود وزیراعظم عمران احمد خان نیازی بھی ان کے اپنے ہی ہیں کیونکہ ریفرنڈم میں انہی کے لئے ووٹ مانگے تھے اور ان ہی کو چھڑانے کے لئے دھرنے دئیے۔ گویا جنرل صاحب کی ٹیم ایک نئی شکل میں دوبارہ مقتدر بن گئی ہے اور پی ٹی آئی کی شکل میں ان کو اور ان کے جانشینوں کوایک نئی مسلم لیگ (ق) مل گئی ہے۔ یوں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بزداروں، محمود خانوں اور علیم خانوں پر مشتمل ٹیم کتنی انقلابی ہوگی اور وہ لوگ احمقوں کی کیسی جنت میں رہتے ہیں جو اس حکومت سے انقلاب کی توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ نئے حکمران بھی جانتے ہیں اور ہم بھی کہ اس ملک کے اصل مسائل یعنی خارجہ پالیسی، داخلی سلامتی اور سول ملٹری تعلقات جیسے اہم ترین ایشوز اس کے دائرہ اختیار میں شامل ہیں اورنہ اسے چھیڑنے کا انہیں حق دیا جائے گا۔ اسی لئے ان اصل ایشوز کے بارے میں کوئی ہوم ورک ہے اور نہ ان حوالوں سے کچھ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اب تک کے اقدامات سے واضح ہوگیا ہے کہ مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں بھی اسی طرح کے نمائشی ڈراموں سے کام چلایا جائے گا جس طرح کہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ پانچ سال چلایا گیا۔ اس پارٹی کے قائد کا کمال یہ ہے کہ وہ بیک وقت ایک نہیں، دو نہیں بلکہ کئی چہروں کے ساتھ جی سکتے ہیں۔

نئے پاکستان کی نئی حکومت کی پوٹلی سے ابھی تک جو دو ڈرامے باہر آئے ہیں، ان میں ایک سادگی اور دوسرا احتساب کا ڈرامہ ہے اور ہم بھی کتنے سادہ ہیں جو ان پر بحث مباحثہ کرکے اپنا اور قوم کا وقت ضائع کررہے ہیں۔ تجزیے ہورہے ہیں کہ کیا یہ مہمات کامیاب ہوجائیں گی یا نہیں۔ حالانکہ ان کو جانچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان دو حوالوں سے گزشتہ پانچ سال کے دوران خیبر پختونخوا میں عمران خان کی پارٹی کی کارکردگی ملاحظہ کی جائے۔ باقی پاکستان کے لئے یہ ڈرامے شاید نئے ہوں لیکن ہم خیبر پختونخوا والے ان کا انجام دیکھ چکے ہیں۔ وہاں اقتدار سنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی نے اپنی مرضی کی قانون سازی کرکے ایک احتساب کمیشن بنایا۔ اس کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا کہ ہر طرف احتساب ہی احتساب نظر آرہا تھا۔ خان صاحب نے اپنے ایک پرانے دوست لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان کو سربراہ بنا دیا اور زیادہ تر ڈی جیز بھی سابق فوجی افسران لگائے گئے۔ جب جنرل حامد نے سچ مچ پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ اور وزراء کے احتساب کا سوچا تو ترمیم کرکے ان کے اختیارات محدود کردئیے گئے۔ انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اپنے بنائے ہوئے قانون کی رو سے تین ماہ کے اندر اندر نئے سربراہ کا تقرر ضروری تھا لیکن دو سال تک غیرقانونی طور پر صوبائی وزیر شاہ فرمان کے قریبی عزیز کو اس لئے قائم مقام ڈی جی رکھا گیا کہ کہیں سچ مچ احتساب نہ ہونے پائے۔ پانچ سال گزرنے کے بعد اب اس احتساب کمیشن کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اورکسی کا احتساب تو دور کی بات، قومی احتساب بیورو کی طرز پرچند کروڑ رقم بھی وصول نہ کروا سکا۔ عمران خان کے اس احتساب کمیشن پر سرکار کے خزانے سے ۸۲ کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ اس نے صرف بارہ لاکھ روپے کی وصولی کی۔ دو سال تک اس احتساب کمیشن کے ڈائریکٹر رہنے والے بریگیڈئر (ر) طارق حسین کے مطابق اس احتساب کمیشن میں تقرریاں بھی قواعد کے خلاف اور جعلی کاغذات کے ذریعے ہوئی ہیں اور وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ قومی احتساب بیورو سے صوبائی احتساب کمیشن کا احتساب کروایا جائے۔ یہ تھا خیبر پختونخوا میں عمران خان کے احتساب کا خلاصہ۔ اب آئیے سادگی پر۔ وہاں بھی پرویز خٹک نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ آٹھ دس دن وہ حیات آباد میں ذاتی گھر میں رہے۔ پھرا نیکسی منتقل ہوئے اور ایک ہفتہ بعد وہ پورے وزیراعلیٰ ہائوس پر قابض ہوگئے۔ وزیراعلیٰ ہائوس کے اخراجات گزشتہ پانچ سالوں میں ماضی کی کسی بھی حکومت سے زیادہ ہوئے۔ اسی طرح کے پی ہائوس نتھیاگلی ماضی کی تمام حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ استعمال ہوا۔ یہی حالت کے پی ہائوس اسلام آباد کی بھی رہی جس کے اخراجات کی تفصیل تو میں اپنے ٹی وی پروگرام میں بھی دکھا چکا کہ کس طرح غیرمتعلقہ لوگ بھی آکر صوبائی حکومت کے وسائل کو استعمال کرتے رہے اور کس طرح ایک وقت کی چائے کے بل لاکھوں میں سرکاری خزانے سے ادا ہوتے رہے۔ لیکن اب وفاق اور صوبوں میں ان ڈراموں کو نئے انداز میں دہرایا جارہا ہے۔ پہلے کہا گیا کہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم ملٹری سیکرٹری کے گھر میں رہ رہے ہیں حالانکہ وہ اسی وزیراعظم ہائوس کے اندر ہے۔ باقی اخراجات اسی طرح ہورہے ہیں جس طرح ماضی میں ہوتے رہے۔ ایک اضافی خرچہ یہ آیا کہ وزیراعظم ملٹری سیکرٹری کے گھر کو استعمال کررہے ہیں تو ملٹری سیکرٹری پرنسپل سیکرٹری کے گھر منتقل ہوئے جبکہ پرنسپل سیکرٹری نے باہر اپنے لئے گھرلے لیا۔

یوں ایک بنگلہ اضافی استعمال میں آنے لگا۔ ریاست مدینہ کا ورد کرنے والے محترم عمران خان صاحب جب سے وزیراعظم بنے ہیں، وہاں سے بغیر ہیلی کاپٹر کے باہر نہیں نکلے۔ بنی گالہ اور وزیراعظم ہائوس کے درمیان ہیلی کاپٹر استعمال ہورہا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ ان کاکتا بھی ہیلی کاپٹر کے مزے لے رہا ہے۔ جب وزیراعظم بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھتے ہیں تو ان کا سیکورٹی اسٹاف تو سڑک کے راستے گاڑیوں میں وزیراعظم ہائوس کی طرف دوڑنے لگتا ہے لیکن کتاوزیراعظم کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ جاتا ہے اور پھر جب وہ وزیراعظم ہائوس سے بنی گالہ تشریف لے جاتے ہیں تو دوبارہ کتا وزیراعظم کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں تشریف رکھ لیتا ہے۔ اس سے بڑی تبدیلی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہیلی کاپٹر صرف پچپن روپے فی کلومیٹر خرچہ کرتے ہوئے اڑنے لگے ہیں اور اب کتے بھی ہیلی کاپٹروں میں سفر کرنے لگے ہیں۔ اس سے بڑھ کراسلامی دور کا نمونہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ یہی ہوا نا ایک پاکستان۔