1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شکیل احمد/
  4. برین ڈرین کے اسباب

برین ڈرین کے اسباب





لفظ برین ڈرین کی اصطلاح 1960 میں اس وقت شروع ہوئی جب بہت سارے ہنر مند اور نوجوان طبقہ ترقی پزیر ملکوں سے ترقی یافتہ ملکوں کی طرف بہتر روزگار اور معیاری تعلیم کے حصو ل کے لئے منتقل ہونا شروع ہوئے۔ جس کی وجہ سے ترقی پذیرملکوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر اب بھی یہ مسئلہ غریب اور کم ترقی یافتہ ملکوں کے سر سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ البتہ بہت سارے ممالک اس بیماری کو سد باب کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ تاریخ جھانکنے سے بہت سے ایسے ممالک کے بارے میں علم ہوتا ہے جنہیں کئی امتحان اور مسائل کا سامنا پڑنے کے باوجود ان ملکوں سے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد کی ہجرت کی تعداد نہ ہونے کی مانندہوتی ہے۔ کیونکہ ان محب وطن باشندوں کو اس بات کا ضرور علم تھا کہ ملک کو درپیش مسائل اور مشکلات سے نکالنے کے لئے ایسے افراد کا ہوناناگزیر تھا۔ ایسے ملکوں میں جاپان ، انگلینڈ، جرمنی ، اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک زیر بحث آتے ہیں۔ اور یہ ان کی ہمیشہ سے صفت رہی ہیں کہ وہ کبھی بھی غیروں کی تہذیب کو اپنے تہذیب میں املغم ہونے نہیں دیا۔ اس کے بر عکس وطن عزیز میں بریں ڈرین کی تناسب سالہا سال بڑھتی چلی جارہی ہے۔
ملک میں بے شمار قدرتی انعامات اور انسانی زرائع موجود ہونے کے باوجود ہماری حکومت ان سے اب تک فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے۔ ملکی زرائع کو پس پشت ڈال کر غیروں کا سہارا لینے کی عادی ہو چکی ہے۔ آزادی کے وقت ملک میں ہجرت کرکے آنے والوں کی تعداد 73 لاکھ سے بھی زائد تھے مگر ان سب کے امیدوں میں بہتر کل ، معاشی خوشحالی ، مساویانہ سلوک اور یکساں مواقع کے حصول وغیر ہ موجود تھے۔ مگر آج 67 سال گزرنے کے باوجود یہ ملک عوام کی ان امیدوں پر اترنے سے قاصر ہے۔ اور آج ان کی امیدیں بیرونی ملکوں سے جڑے جا رہے ہیں۔ لوگوں کو ملک میں معاشی خوشحالی ، مساویانہ سلوک اور بہتر کل کی امید دور دور تک نظر نہیں آتا۔ جس کی وجہ سے ہر سال ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد دوسرے ملکوں میں ہجرت کر رہے ہیں۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہرفرد کی بیرون ملک منتقلی کی وجہ یکساں نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ جن کے پاس بہتر تعلیم اورہنر نہیں ہوتی وہ زریعہ معاش کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنے گھر والوں کی بہتر کفالت کرسکے۔ اور ساتھ ساتھ یہی افراد ملک کی معیشت کا سہار بھی بن جاتے ہیں۔ مگرہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد کے بیرون ملک منتقل ہونے سے نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ملک پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ جس شخض کے تعلیم پر خطیر رقم بیرون ملک منتقل ہونے کے باوجود وہی شخص اپنی علم و ہنر وطن پر نچھاورکرنے کے بجائے دوسرے ملکوں میں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور وہ اُن ملکوں میں گھر بسانے کے ساتھ ساتھ اپنے کمائی ہوئی رقوم کو ملک میں بیجنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ اور ملک معاشی طور پر کمزور اور ہنر مند افرادی قوت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں ماہرین کی کمی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہمارے باغ اس وقت تک آباد نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنے باغ سے پھولوں کا اجاڑنا بند نہیں کرتے۔ ہمیں نہ صرف جدید علوم میں میں ترقی کی ضرورت ہے بلکہ معاشی اور معاشرتی بگاڑکو بھی سمبھالنے والوں کی ضرورت ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے چمکتے ستاروں سے دوسرے کا آسمان کب تک روشن کرتے رہیں گے؟ برین ڈرین کا ایک اہم اور بنیادی وجہ ناقص نظام تعلیم بھی ہے۔ ملک میں ٹیکنالوجی اور میڈیکل کے شعبے میں جدید تعلیم ، تحقیقاتی ادارے اور ان اداروں میں ماہر اساتذہ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبا بیرون ملک اعلی تعلیم کے حصول کیلئے ہجرت کرتے ہیں۔ جن میں سے 80 فیصد طلبا اُن ممالک میں اپنا روزگار تلاش کرتے ہیں۔ اور اپنی ہنر اور فن کو غیروں کے بازار میں نیلام کرتے ہیں۔ اگر اسی طرح ہماری حکومت اپنی ہنرمندافرادی قوتوں کو کھونے کے ساتھ ساتھ ملکی خزانے پر پڑے بوجھ کم کرنے میں ناکام رہے تو آنے والے وقتوں میں یہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔
یہ بات عیاں ہے کہ ملک کا تعلیم یافتہ اور ہنر مند طبقہ ہی ملکی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ اور یہی لوگ ہی سب سے قیمتی سرمایا ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم اپنے پیسوں اور ہنر سے دوسرے ملکوں کے ادارے مضبوط کرنے کی تگ و دو میں مگن ہیں اورملک سے سالانہ اربوں روپے یونیورسیٹیوں کے فیسوں اور دیگر اخراجات کے طور پر بیرونی ملک بیجھتے ہیں جو کہ دوسروں کے خزانے بھرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور ہم ان سرمایوں سے اپنے ملک کی مستقبل بدلنے کا زرا بھی فکر نہیں رکھتے۔ اگر چہ ملک میں قدرتی اور دیگر زرایع وافر مقدار میں موجود ہے مگر جب تک ان کو استعمال میں لانے والا نہ ہو سب بنجر زمین کے مانند ہوگا۔ افسوس اس بات کی ہے کہ ہمارے حکمران ان مسائل کو سنجیدہ لینے کی بجائے خواب خرگوش میں ہیں۔ اگر یہی صورت حال رہتے ہوئے ان لوگوں کو وطن کی خدمت کرنے کی ٹھوس وجہ نہ دی جائے تو اس آشیانے کی قسمت کبھی نہیں بدلے گی۔
جہاں تک ذکر اغیار کا کریں تو بھارت ، بنگلہ دیش ، سرلنکا جیسے ترقی پذیر ممالک پہلے سے بہتر حال میں ہیں وہاں وطن عزیز کی حالت بتدریج مایوسی کی طرف گامزن ہے۔ 1984کی ایک سروے کے مطابق صرف 17 فیصد پاکستانی عوام بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے تھے جو کہ آج ایسے لوگوں کی شناخت بڑھ کر38 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ملک ابھی تک ترقی کی طرف رواں نہیں ہوا۔ ان مسائل کو روکنے کے لئے ملکی نظام تعلیم میں بہتری ، جدید تحقیقاتی اداروں کا قیام ، اور میرٹ کی بالادستی دور حاضر کی اولین ضرورت ہے۔ تاکہ ملک کے ہر ذہین اور قابل طلب علم کو اپنے ملک میں ہی اعلی تعلیمی نظام اور بہتر روزگار میسر ہو۔ کیونکہ یہی ماہر افراد ملک میں اپنی خدمات سر انجام دے کر ملک کو ترقی کی طرف لے جانے کے ساتھ ساتھ ملکی خزانے سے نکلنے والے رقوم میں بھی کمی لانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ لہذا ان تمام نفع نقصان کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت وقت کو چاہیے کہ مستقبل میں بڑھتے ہوئے برین ڈرین کو کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔ تاکہ مادر وطن کے اہل دماغ کو اغیار کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کا رواج ختم ہوسکے۔