1. ہوم/
  2. غزل/
  3. سید دلاور عباس/
  4. اشک آنکھوں سے بہاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

اشک آنکھوں سے بہاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

اشک آنکھوں سے بہاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
میں ترا عکس بناتے ہوئے تھک جاتا ہوں

تیری جانب سے شب و روز جو غم ملتے ہیں
اپنے کاندھوں پہ اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

ہے مرے سر پہ ابھی بوجھ مرے بچوں کا
کیسے کہہ دوں کہ کماتے ہوئے تھک جاتا ہوں

ننھے بچے نے یہ بابا سے شکایت کی ہے
چاند کو پاس بلاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

سامنے بیٹھ، مسائل کا نکالیں کوئی حل
خواب میں تجھ کو مناتے ہوئے تھک جاتا ہوں

ٹھیک ہے دل ترے کوچے کی طرف لے جائے
پر ذرا لوٹ کے آتے ہوئے تھک جاتا ہوں

ہے طویل اتنی مری ہجر کہانی دانش
میں زمانے کو سناتے ہوئے تھک جاتا ہوں